مدارس دینیہ کی بڑی اہمیت ہے۔ مدارس ہی ملک میں اسلامی شناخت، دین وایمان اور اسلامی اقدار وروایات کی محافظ ہیں، اسلامی تہذیہب وثقافت کا منبع ہیں۔افراد امت اور بالخصوص نئی نسلوں کو دین سے وابستہ رکھنے کا واحد ذریعہ یہی مدارس ہیں۔ ان ہی مدارس کے ذریعہ امت میں دین کی روح پھونکی جاتی ہے، دین وشریعت پر عمل کرنے کے لیے راغب کیا جاتا ہے ۔ ایک ایک فرد کو اور پورے سماج کو اسلامی ڈھنگ سے زندگی گزارنے کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ سماج کو اللہ ورسولﷺ کا پابند بن کر رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اور یہی مدارس ہیں جہاں سے امت کے اندر حوصلہ پیدا کیا جاتا ہے کہ امت اسلام کا محافظ بن سکے، دشمنوں کا مقابلہ کرسکے، باطل کے چیلنجز کا جواب دے سکے، حق وباطل کے میدان جنگ میں اپنے قدم جمائے رکھے، یہاں تک کہ فتح نصیب ہوجائے۔ امت کو مقصد وجود کے لیے تیار کیا جاتاہے کہ دنیا سے منکرات کا خاتمہ کرنا اور ہرچہار جانب حق کا بول بالا کرنا ہی امت کا مقصد وجود ہے۔
نیپال دنیا کے پس منظر میں ایک بہت ہی چھوٹا اور بہت ہی غریب ملک ہے ، مسلم آبادی بھی بہت کم ہے،سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مسلمان صرف 5؍ فی صد ہیں۔ نیپال میں مسلمان غریب اور پس ماندہ ہیں، مدارس دینیہ کی تعداد بہت کم ہے۔اکثر مدارس بہت چھوٹے چھوٹے اور ابتدائی سطح کے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان نیپال کے جس خطہ میں ہیں شروع سے ہی انہوں نے دینی تعلیم کا انتظام کیا ، ہرگاؤں اور ہر بستی میں بہت پہلے سے بلکہ جب سے اس بستی میں مسلمان ہیں انہوں نے ایک مولوی یا منشی کے ذریعہ ابتدائی دینی تعلیم کا انتظام کیاتاکہ بچوں کو قرآن مجید ، دینیات کے ساتھ نماز، روزہ، نکاح و طلاق اور تجہیز وتکفین کی تعلیم وتربیت دی جاسکے۔ نیپال میں متعدد بستیوں کے بارے میں معلوم ہے کہ سوسال پہلے سے یہاں مدرسہ قائم ہے۔ نیپال میں مسلمانوں کی آبادی بہت قدیم ہے بلکہ موجودہ نیپال کی تشکیل یا اتحاد سے پہلے سے مسلمان یہاں آباد تھے۔ بہت سے مسلمان بعد میں تجارت کی غرض سے آئے اور یہیں آباد ہوکر رہ گئے اور بہت بڑی تعدادمیں یہاں کے قدیم باشندے مشرف بہ اسلام ہوئے اور یہ زریں سلسلہ الحمدللہ جاری ہے۔
الحمدللہ نیپال کے ہر علاقہ میں اور ہر خطہ میں دینی مدارس ومکاتب موجود ہیں ، بالخصوص ترائی علاقہ میں بستی بستی مکاتب ومدارس کا جال بچھ گیا ہے اور کوئی قابل ذکر مسلم بستی مکتب سے خالی نہیں ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے مکاتب ، مدارس دینیہ، جامعات وجامعۃ البنات، امت کے لئے بہت قیمتی وسائل ہیں ، ملت اسلامیہ نیپال ہی نہیں عالم اسلام کا سرمایہ ہیں۔
نیپال میں شاہی دور کا خاتمہ ہوا اور۱۵؍جنوری ۲۰۰۷ ء مطابق ماگھ ایک گتے ۲۰۶۳ بکرمی حکومت میں تبدیلی آئی اور جمہوریت کا اعلان کیا گیا تو مدارس کی جانب بھی توجہ دی گئی اور حکومت کی جانب سے مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اس کے لیے رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوا اور مدارس کو عام سرکاری اسکولوں کی طرح درتا کرایا جارہا ہے،یہ سوچے سمجھے بغیر کہ سرکار مدارس کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟ مدارس کے نظم وانصرا م میں حکومت کا کردار کیا ہوگا؟ مدارس کے لیے نصاب سرکار طے کرے گی یا مدارس نصاب کے سلسلہ میں آ زاد ہوں گے۔ مدارس کو حکومت کس کس طرح کا تعاون دے گی؟ مدارس کے کل اخراجات یا بعض مخصوص مدات میں ہی سرکارتعاون دے گی؟ رجسٹریشن کے بعد مدارس کی شناخت باقی رہے گی یا ختم ہوجائے گی؟ مدارس ملت کی ملکیت تسلیم کیے جائیں گے یا وہ مکمل سرکار کی تحویل میں ہوں گے؟وغیرہ
ایک بات بہت غور کرنے کی ہے کہ مدارس و جامعات کی جو زمینیں ہیں، یا ان کی عمارتیں یا ان کے جو بھی املاک ہیں، سب ملت اسلامیہ کی طرف سے وقف کردہ ہیں ،جنہیں ہمارے اسلاف نے دینی تعلیم کے لیے وقف کیا ہے یا مسلمانوں کے زکوۃ وصدقات اور عام تعاون سے خریدا گیا ہے تاکہ ملت کے نونہالوں کے اندردین وایمان کو منتقل کیا جاسکے۔ کیا اس کو سرکاری تحویل میں دیا جاسکتا ہے؟ کیا ایسی صورت میں وقف کا مقصد فوت تونہیں ہوجائے گا؟ ملت کی اس امانت کو فروخت کرنے کا حق کیا آج کسی حالیہ ذمہ دار کو مل سکتا ہے؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کو جانے اور طے کیے بغیر مدارس کو رجسٹرڈ کرانا ایسے ہی ہے جیسے کسی بچہ کو کہیں بے آب وگیاہ میدان میں لاوارث چھوڑ دیا جائے یا کسی چلتی ہوئی گاڑی میں ڈرائیور سوجائے۔افسوس مدارس ومکاتب میں یہی ہورہا ہے۔ بس یونہی اندھیرے میں رجسٹریشن کراتے چلے چارہے ہیں۔اس عمل سے پہلے یہ سب تفصیلات طے کرنا کرانا انتہائی ناگزیر ہے۔
دوسری طرف مدارس دینیہ نیپال کے ذمہ داران اس وقت سخت تذبذب کی حالت میں ہیں۔ کچھ لوگ مدرسہ کو رجسٹرڈ کرانے کے حق میں نہیں ہیں، جبکہ بعض حضرات اس کے حق میں ہیں مگر مدارس کی شناخت کو گم ہوتا دیکھنا بھی نہیں چاہتے ، بعض حضرات حکومتی رعایت اور اسناد کا سرکاری طور پر اعتراف تو چاہتے ہیں مگر اپنے ادارہ کورجسٹرڈ کرانا بھی نہیں چاہتے ہیں، بعض حضرات آنکھیں بند کرکے ہر طرح کی سہولیات کے طلب گار ہیں، بعض اہل مدارس آزاد اور خود مختار مدرسہ بورڈ کے حق میں ہیں، اور چاہتے ہیں کہ مدارس کو اس بورڈ سے ملحق کیا جائے مگر یہ حضرات ابھی تک یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آزاد اورخود مختار مدرسہ بورڈ کا روپ ریکھا کیا ہو، اس کی تشکیل کن بنیادوں پر ہو، کس طرح اسے وسیع الجوانب ( سماویشی) بنایا جائے کہ سارے اہل مدارس اسے قبول کرلیں، ہم مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کاخاکہ پیش کرنے سے بھی ابھی تک قاصر ہیں ، اس لیے اولین ضرورت یہ ہے کہ اہل مدارس اس جانب بھرپور توجہ دیں ،ذمہ داران مدارس ، دینی جماعتوں اور اداروں کے قائدین مل کر بیٹھیں، اور مدارس کے لیے کوئی حل نکالیں۔ اس کے لیے الحمدللہ کئی بار کوششیں ہوچکی ہیں، مقامی سطح پر بھی اور مرکزی سطح پر بھی لیکن مسائل ہنوز باقی ہیں بلکہ اب صورت حال مزید نازک ہوتی جارہی ہے۔ ملک نئے دستور کی تنفیذ اور قانون سازی کے دور سے گزررہاہے ۔اگر ابھی اپنی بات نہیں منوالی گئی تو جب قانون پاس ہوکر نافذ ہوجائے گا تو اس میں ترمیم کروانا بہت مشکل ہوگا۔آج اگر ہم اپنے مطالبات رکھتے ہیں، آواز اٹھاتے ہیں، ایک ساتھ جمع ہوکر کوئی فیصلہ لیتے ہیں تو آسان ہوگا اور ایک طرح سے قانون سازی کے عمل میں ہمارا تعاون ہوگا ۔ ورنہ جب محنت کرکے وہ لوگ ایک قانون بنادیں گے تو تبدیلی کے لیے جلدی راضی نہیں ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام جماعتیں ، مدارس وجامعات کے ذمہ داران اوربڑے اور باصلاحیت علمائے کرام جمع ہوں ، منظم ڈھنگ سے کنونشن کا انعقاد کریں اور غوروفکر کے بعد ایک نتیجہ تک پہنچیں ۔ مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کریں۔مدارس کے کردار ، تحفظ اور بالخصوص ان کے مستقبل پر سنجیدگی سے سوچیں۔ مدارس کی شناخت کی فکر کریں ۔ورنہ یادرہے آج کی ہماری لاپرواہی کا نقصان ہماری کئی نسلوں کواٹھانا پڑے گا۔ اشد ضرورت ہے کہ اس کی جانب پیش قدمی کریں اور اس کام میں تسلسل بھی ضرور ی ہے، یہ کوشش جاری رہنی چاہیے ۔
اس بات سے کسی کو مجال انکار نہیں کہ مدارس عام سرکاری اسکولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کا مقصد الگ ،ان کی تاریخ الگ، ان کا کردار الگ، ان کا نصاب الگ، ان کا طریقہ تدریس الگ،ان کے اساتذہ الگ، ان کا نظم وانصرام الگ، ان کے وسائل اور آمدنی کے مدات الگ، اور اسی طرح ان کے معاونین اور منتظمین الگ ہیں۔ الغرض مدارس دینیہ میں اوردیگر تعلیمی اداروں،پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں میں بہت فرق ہے ۔مدارس کو اپنی یہ شناخت ہرصورت میں باقی رکھنا ہوگا ورنہ وہ اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ظاہرہے کسی عمارت کا نام مدرسہ نہیں ہے ۔
مدرسہ نام ہے ایک ایسے مرکز یا دارہ کا جہاں سے ایسے افراد پیدا کیے جاتے ہیں جو اللہ کی معرفت رکھتے ہوں ، اللہ پر ایمان رکھتے ہوں، جن کے اندر تقوی ہو، جو ایمان دار اور سچے ہوں، دین کی ضروریات اور اس کے تقاضوں کو سمجھتے ہوں۔یہاں سے تیار ہونے والا ایک ایک فرد اچھا مسلمان، دین کا خادم اور داعی ، ساتھ ہی ملک کا مخلص ناگرک اور وفادار شہری ،بن کر نکلتا ہے جواپنے اہل خانہ کے لیے، گاؤن سماج لیے اور پورے ملک کے لیے غرض سب کے لیے خیرخواہ فرد ہوتاہے وہ ہمیشہ سب کی بھلائی سوچتا ہے اور سب کے کام آتا ہے۔
ہمارے اسلاف نے، ہمارے دینی قائدین نے، اور مخلص علمائے کرام نے مدارس کو اس لیے قائم کیا ہے تاکہ ان کے ذریعہ دین وایمان کی حفاظت کی جائے ، نئی نسلوں کو دین سے وابستہ کیا جائے ، امت کی رہ نمائی کیا جائے، اور اسے دین پر عمل کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اسلام کی تبلیغ واشاعت ہو۔ ملت کے اندر قیادت تیار کی جائے، اور عظمت رفتہ کی بحالی ہوسکے۔ مدارس کی تاریخ بہت قدیم اور انتہائی شاندار ہے۔ ان کے کارناموں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں تہذیب وثقافت کی بنیاد ، علوم وفنون کی ترویج و تعمیر، زبان وادب کی نشوونما ، مختلف فنون کے ایجادات، علم کے ہرمیدان میں اساتذہ کی فراہمی ، صالح حکمران اور دین کے مجاہد وغازی مدارس سے پیدا ہوتے رہے ہیں۔ مدارس کے نصاب میں قرآن وحدیث کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اللہ کی معرفت اور اللہ کی کتاب ہی نصاب کی بنیاد ہے۔دنیا کے تمام علوم وفنون کا سب سے مستند ماخذ اور مرجع اللہ کی ذات کو تسلیم کیا جاتا ہے۔اس نصاب کا مقصد ہے کہ طالب علم کو اللہ کی معرفت دی جائے تاکہ وہ ایک صالح بندہ بن کر زندگی گزارنے کا اہل ہوسکے۔ نصاب ایسا رکھا گیا ہے جس کی تکمیل کے بعد طلبہ قرآن وحدیث کو مکمل سمجھ سکیں ،دین کا فہم اور تفقہ ان کے اندر پیدا ہوجائے۔وہ عوام الناس کواللہ کا دین سمجھاسکیں اور دینی بنیادوں پر وہ سماج کی رہ نمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
مدارس کا مطلوبہ ماحول مکمل دینی ہوتا ہے، پیارومحبت ، شفقت اور احترام کے ماحول میں تعلیم دی جاتی ہے، بچوں کو ایک مکمل صالح انسان بنانا ہے ہمیشہ اس کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کے ذریعہ بری عادتوں سے ان کو پاک کیا جاتا ہے۔ ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا کیا جاتا ہے۔ مدارس کو مخلص محنتی، باکردار اور بے لوث اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے ، مادیت کے برعکس یہاں ایمان اور روحانیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ماحول اور انتطام کی ضرورت ہوتی ہے جہاں بڑے طلبہ وطالبات میں اختلاط نہ ہو، بلکہ اس تعلق سے مکمل شرعی تقاضوں کا لحاظ کیاجاتا ہو، دیگر امور کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لیے بھی وقت اور جگہ فراہم ہوں۔
مدارس میں حرام مال نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی آمدنی کہاں سے آتی ہے؟ اس کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے اور کہیں سے بھی حرام مال کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ حرام اور ناجائز آمدنی مدارس کے لیے کسی زہر سے کم نہیں ہے۔ سو د،رشوت، غصب، چوری، بے ایمانی،زبردستی حاصل کیا جانے والا مال مدارس میں نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ بچوں یا بچیوں کے اسکالرشپ یا دوسرے مدات کے پیسوں کو ادھر ادھر خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ آمدنی کے لیے جھوٹی رپورٹ ، رشوت، زبردستی، دھاندلی، غلط بیانی یا من مانی مدارس میں نہیں کی جاتی ہے۔
بہر حال مدارس کے لیے ضروری ہے کہ سرکار علاحدہ مدرسہ شکچھا بیدھیک Madrasa Education Act) (بنائے جس میں مدارس کو مکمل تحفظ دیا جائے اور ان کی شناخت کو باقی رکھنے کی ضمانت دی جائے نیز تمام طرح کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں اور ان کو اپنے مقاصد سے ہٹایا بھی نہ جائے۔
یہ مطالبہ بار بار دوہرایا گیا ، مختلف مواقع سے علمائے کرام نے یہ بات حکومت کے سامنے رکھی ہے کہ مدارس کے لیے علاحدہ مدرسہ شکچھا بیدھیک Madrasa Education Act) (ہو تاکہ مدارس کی شناخت باقی رہے اور اس ایکٹ کی روشنی میں ایک بااختیار مدرسہ بورڈ بھی بنایا جائے جس کا انتظام وانصرام باصلاحیت علمائے کرام کے ہاتھوں میں ہو۔ اس کی تفصیلات طے کی جائیں، مدارس اس بورڈ سے ملحق ہوں۔ بورڈ کی طرف سے ان کے اسناد کو منطوری دی جائے، ان کی نگرانی کی جائے ، ان کے لیے اساتذہ دیئے جائیں، ان کی رہ نمائی کی جائے، اس ایکٹ اور اس کے تحت بورڈ کے ذریعہ بھی اس بات کی ضمانت دی جائے کہ مدارس کو ان کے حقیقی مقاصد سے جوڑ کر ہی رکھا جائے گا۔ ان کے نصاب اور نظام تعلیم وتربیت میں ایسی کوئی تبدیلی ہرگز ہرگزنہیں کی جائے گی جس سے ان کا مقصد ہی فوت ہوجائے۔ مدارس اپنے نصاب، نظام الاوقات ،ہفتہ کی چھٹی، امتحانات ، طلبہ کے داخلہ واخراج،اساتذہ کی تقرری میں بااختیار ہوں گے یہاں تک کہ مجلس انتظامیہ اور ذمہ داران کا انتخاب مقامی بھائیوں کی موجودگی میں ان کی آراء کی روشنی میں کیا جائے گا۔انتخاب میں صرف گارجین نہیں بلکہ مؤسسین،محسنین ، علم دوست اور مدراس کے تمام خیرخواہ شریک ہوں گے اور ذمہ داری کے اہل بھی ہوسکیں گے۔بورڈ کا کام مدارس کو رجسٹریشن کرنا، نگرانی واشراف کرنا، اساتذہ کو ٹریننگ دینا، اساتذہ کو ٹیچنگ لائنسینس دینا، سرکاری مراعات فراہم کرانا، بین المدارس مسابقات کرانا،فاصلاتی تعلیم کانظم کرنا، مدارس اور سرکار کے درمیان روابط قائم رکھنا،حکومت کی پالیسیوں کی تفہیم کرانا،اسناد کو منظوری دینا، سرکاری مشاہرہ کے ساتھ اساتذہ فراہم کرواناہوگا۔
مسلمانوں کا یہ مطلوبہ بورڈ ابھی وجود میں نہیں ہے ۔ راسٹریہ مدرسہ بیوستھا پن پریشد بنایا گیا ہے جس کی تشکیل پچھلے کئی سالوں سے ہوتی رہی ہے۔یہ مدرسہ شکچھا بیدھیکMadrasa Education Act) (اورمدرسہ بورڈ کا بدل ہرگزہرگزنہیں ہوسکتا ہے۔اس میں کئی کم زوریاں ہیں۔ سیاسی پارٹیوں سے قریبی تعلقات رکھنے والوں کواس میں رکھا جاتاہے، ان کوکوئی اختیار نہیں دیا جاتا ہے، اس پر مستتزاد یہ کہ انہیں مدرسہ کیا ہے اس کے مطالبات اور ضروریات کیا ہیں پتا نہیں ہوتا۔باصلاحیت علماء اور مدارس کے ذمہ داران کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی ہے۔ پورا پورا سال گزرجاتا ہے کبھی اس کی کوئی میٹنگ نہیں ہوتی ہے، کام کا کچھ خاکہ بنایا جاتا ہے اور کام شروع ہونے کے قریب ہوتا ہے کہ سرکار بدل جاتی ہے اور کام صفر پر لوٹ آتا ہے۔نئی سرکار آتی ہے نیا خاکہ بن کر مکمل ہوتا ہے کہ پھر سرکار بدل جاتی ہے۔ اس پریشد کی حیثیت بس ہاتھی کے دو دانت کی سی ہے۔
اس وقت ان مدارس کا ایک مسئلہ عوام کی جانب سے مالی تعاون واشتراک کا ہے۔مدارس کے سارے اخراجات اہل خیر مسلمانوں کے تعاون سے پورے کیے جاتے ہیں۔گاؤں کے لوگ اپنی زکوۃ اور عام صدقات دیتے ہیں، ہفتہ میں ایک دن بچے برکت فنڈ لاتے ہیں جو روزانہ کے پکانے کے لئے نکالے ہوئے چاول یا آٹے سے ایک مٹی ہوتی ہے۔اسی سے ساری ضروریات کی تکمیل کی جاتی ہے۔لیکن افسوس بلکہ المیہ ہے کہ گزشتہ سالوں کی بہ نسبت اب مدارس میں تعاون دینے کا رجحان کم ہوتا جارہاہے ۔لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ باہر جائیے اور چندہ لائیے ، یا یہیں سے خط وکتابت کرکے تعلقات بنائیے اور باہر سے اخراجات کا نظم کیجئے۔چھوٹے چھوٹے مکاتب کو جامعہ لکھا جاتا ہے،طلبہ واساتذہ کی تعداد میں پوری صحت اور ایمان داری کا خیال نہیں کیا جاتا ہے۔مکاتیب اور چھوٹے چھوٹے مدارس کے سارے اخراجات گاؤں اور قرب وجوار کی مددسے مکمل ہو نا چاہیے۔عوام کی پہلی کی شرعی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی اولاد کی تعلیم حسب حیثیت پہلے اپنے جیب سے ادا کریں۔ اس سے ضرورت پوری نہ تب زکوۃ اور عشر اور ہنگامی تعاون دیں اور خود ہی ساری ضروریات پوری کریں۔ان مدارس کے تعاون کے لیے پڑوسی ملک جانا یا بیرون ملک جانا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ ہاں بڑے ادارے اور جامعات جہاں طلبہ وطالبات دور دراز سے بھی اور مدد کے مستحق بھی ہوتے ہیں، اور وہاں اساتذہ کی بڑی تعداد بھی ہوتی ہے ۔ طلبہ وطالبات کی رہائش اور طعام کا مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ اگر باہر جائیں تو ایک معقول بات ہو سکتی ہے، اس لئے کہ ان کی ضروریات مقامی اور علاقائی تعاون سے مکمل نہیں ہوپاتی ہے۔
یہ جو صورت حال بنتی جارہی ہے مدارس کے لیے بہت نازک ہے۔اساتذہ کو وقت کے لحاظ سے کفاف نہیں دیا جاتا ہے۔ اور مدارس باصلاحیت اساتذہ سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔ مدارس بھی کفاف پر سنجیدگی سے نہیں سوچتے اور بڑی منصوبہ بندی نہیں کرتے اور ساتھ ہی نئے فارغین مدارس یا ان کے والدین کے اندر اب خدمت دین کا وہ جذبہ نہیں رہا جو ہونا چاہیے بلکہ جو اساتذہ مدارس کی ضرورت کا خیال کرکے دینی جذبہ سے خدمات انجام دے رہے ہیں ان کو گھر والے بار بار پریشان کرتے ہیں اور ان کی وسعت سے زیادہ ان سے مطالبات کیے جاتے ہیں۔اس پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔
اسی طرح مدارس کو طویل المدت منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے اور پچھلے بیس پچیس سال میں نکلنے والے طلبہ پر غور کرکے فیصلہ لینا ہوگا کہ آخر کیا کرنا ہوگا کہ ایسے افراد تیار ہوں جو فراغت کے بعد ایسے کاموں میں لگیں کہ معاشرے کی دینی ضرورت بھی پوری ہو سکے،وہ امامت کے صحیح تصور کے ساتھ رضاکارانہ امامت کا فریضہ انجام دیں اور معاشرے کا با معنیٰ امام ہونے کا حق ادا کر سکیں، وہ تدریس سے بھی جڑیں ، اپنے گاؤں سماج کی اصلاح کریں،میدان دعوت میں وقت دیں، دینی جماعتوں میں رہ کر اپنی ذمہ دارایاں انجام دیں،کیوں کہ ابھی ۹۵ فی صد فارغین بیرون ملک روزگار کے لیے چلے جاتے ہیں ، اوربہت ہی کم صلاحیت کے لوگ مدارس کو مل رہے ہیں۔ غور کیجئے یہ آج کا نقصان نہیں بلکہ مستقبل کا نقصان ہے ۔ آج جس تیزی کے ساتھ تبدیلیاں آرہی ہیں اور جدید وسائل اور جدید یلغار سے بچے جس تیزی کے ساتھ متاثر ہوتے چلے جارہے ہیں ایسے ماحول میں پہلے سے کہیں زیادہ باصلاحیت ، ماہر اور وقت کے تقاضوں سے باخبر علماء کی ضرورت ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ملک کے دینی مدارس بہت نازک دور سے گزررہے ہیں، بڑی تعداد میں لوگ بلا سوچے سمجھے مدارس حکومت سے رجسٹرڈ کرواتے چلے جارہے ہیں، مدارس کے لیے قانون سازی بھی ہورہی ہے،حالانکہ سرکاری اہل کاروں کو یا تو مدارس کی حقیقت معلوم نہیں یا پھر وہ غیر محسوس ڈھنگ سے کسی اور کے ایجنڈا پر کام کررہے ہیں، ظاہر ہے جب مسلمانوں کے پا اپنا ایجنڈا اور منصوبہ نہ ہو تو کسی نہ کسی کا منصوبہ تو کام کرے گا ہی۔
راسٹریہ مدرسہ بیوستھا پریشدمیں باصلاحیت اور مسلم سماج کے لیے مؤثر افراد نہیں ہیں، نہ ہی اس پریشدکی کوئی حیثیت یا وزن ہے۔وہ مدارس کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے سے عاری ہے۔ مدرسہ بورڈ کا ابھی تک کوئی وجود نہیں ہے، مسلم آیوگ میں بھی اسلامی معاشرت اور شریعت نیز قومی، ملی اور دینی جذبہ رکھنے والوں کا فقدان ہے۔ مدارس کے اکثرفارغین میدان عمل سے غائب ہیں ، مقامی اور علاقائی سطح پر مدارس سے دل چسپی لینے اور کھل کر تعاون دینے کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے ،دوسری جانب بیرون ملک میں اہل خیر سے ملاقات کرنااور سفر کرنا مشکل ہوتاجارہاہے۔ بیرون ملک سے تعاون لانے کی راہ دن بدن نئے ضابطوں سے مسدود ہوتی جارہی ہے۔مدارس باصلاحیت اساتذہ سے خالی ہیں اور طلبہ وطالبات کی تربیت کا معاملہ حددرجہ افسوس ناک ہے ۔
اس لیے ذمہ داران کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور بے لاگ جائزہ لینا ہوگا ، اپنے ادارہ کو پورے اخلاص کے ساتھ وقت، صلاحیت اور ہرقسم کی توانائی دینی ہوگی اور جو کام ملکی سطح کے ہیں ان کے لیے کسی کا انتظار کرنا مہلک ہے ۔ سرکاری یا غیرسرکاری ایجنسیوں کے تعاون سے یہ کام نہیں ہونے والا ہے ۔ ملک کے بڑے علماء ، ذمہ داران مدارس اور دینی جماعتوں کے قائدین خود فیصلہ کریں،خراجات کا انتظام کریں اور ایک لائحہ عمل ترتیب دیں اورتیزی کے ساتھ سارے مسائل حل کریں۔ فوری اقدام کی ضرورت ہے ورنہ انجام بہت بھیانک ہوگا۔ اللہ ہم سب کو حسن عمل کی توفیق بخشے۔ آمین!
آپ کی راۓ