جب مرزارفیع سودا کے کلام کا شہرہ، عالم گیر ہوا تو شاہ عالم اپنا کلام اصلاح کے لیے دینے لگے اور فرمائش کرنے لگے۔ ایک دن کسی غزل کے لیے تقاضا کیا۔ انہوں نے عذر بیان کیا۔ حضور نے فرمایا،’’بھئی مرزا کی غزلیں روز کہہ لیتے ہو؟‘‘
مرزا نے کہا:’’پیر و مرشد! جب طبیعت لگ جاتی ہے، دو چار شعر کہہ لیتا ہوں۔‘‘
حضور نے فرمایا:’’ ہم تو چلتے پھرتے چار غزلیں کہہ لیتے ہیں۔‘‘
مرزا نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا:’’حضور! ویسی ہی بُو بھی آتی ہے‘‘ یہ کہہ کر چلے آئے۔ بادشاہ نے پھر کئی دفعہ بلا بھیجا اور کہا:’’ ہماری غزلیں بنائو، ہم تمہیں ملک الشعرا کردیں گے۔‘‘ یہ نہ گئے اور کہا:’’حضور کی ملک الشعرائی سے کیا ہوتا ہے، کرے گا تو میرا کلام، ملک الشعرائی کرے گا۔‘‘
……O……
ایک دفعہ مرزا سودا نے، ایک انگریز شاہی ملازم کی ہجولکھی اور ایک محفل میں اس کے سامنے پڑھ دی۔ انگریز خاموش بیٹھا سنتا رہا۔ جب ہجو ختم ہوئی تو اٹھ کر سامنے آبیٹھا اور اُن کی کمر پکڑ کر گالیوں کی بوچھاڑ شروع کردی۔ مرزا کو ایسا اتفاق کبھی نہیں ہوا تھا۔ حیران ہوکر کہا! خیر باشد جنابِ آغا! اس طرح کا عمل آپ کے شایانِ شان نہیں۔ انگریز نے اپنی کمر سے خنجر نکالا اور اُن کے پیٹ پر رکھ کر کہا! تم نے نظم کہی، نظم کہنی مجھے نہیں آتی، مجھے صرف نثر آتی ہے، وہ بھی عملی نثر،اب ، حوصلے سے اِسے سنو۔
……O……
ایک دن لکھنؤ میں میرا اور مرزا کے کلام پردو اشخاص میں تکرار نے طول کھینچا۔ دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے اُن کے پاس گئے اور عرض کیا،’’آپ فرمائیں۔‘‘
انہوں نے کہا:’’دونوں صاحب ِ کمال ہیں، مگر فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام ’آہ‘ اور مرزا صاحب کا کلام’واہ‘ ہے ۔ مثال میں میر صاحب کا شعر پڑھا:
سرہانے میر کے، آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
پھر مرزا کا شعر پڑھا:
سودا کی جو بالیں پہ گیا شورِ قیامت
خدامِ ادب بولے، ابھی آنکھ لگی ہے
ان میں سے ایک شخص، جو سودا کے طرف دار تھے، وہ مرزا کے پاس آئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ مرزا ، میر کا شعر سن کر مسکرائے اور کہا:’’شعر تو میر صاحب کا ہے،مگر داد خواہی اُن کے دادا کی معلوم ہوتی ہے۔‘‘
……O……
فخرِ شعرائے ایران، شیخ علی حزیں، ہندوستان آئے اور پوچھا! شعرائے ہند میں آج کل کوئی صاحب ِ کمال ہے؟ لوگوں نے سودا کا نام لیا۔ سودا نے سنا تو خود ملاقات کو گئے۔ شیخ کی نازک مزاجی اور عالی دماغی مشہور تھی۔ کہا، کچھ اپنا کلام سنائو۔ مرزا نے اپنا یہ شعر سنایا۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
شیخ نے پوچھا تڑپے کا معنی کیا ہے۔ سودا نے کہا! اہلِ ہند ’طپیدن‘ کو تڑپنا کہتے ہیں۔ شیخ نےدوبارہ شعر سنا اور زانوں پر ہاتھ مارکر کہا!مرزا رفیع سودا۔ تم نے قیامت کردی۔ ایک مرغِ قبلہ نماز باقی تھا، تُو نے اسے بھی نہ چھوڑا۔ یہ کہہ کر کھڑے ہوگئے اور بغل گیر ہوکر ساتھ بٹھایا۔
……O……
شیخ قائم علی ساکن اٹاوہ ایک طبّاع شاعر تھے۔ کمالِ اشتیاق سے مقبول نبی خاں کے ساتھ باارادہ شاگردی، سودا کے پاس آئے اور اپنے اشعار سُنائے۔
آپ نے پوچھا:
’’تخلص کیا ہے؟‘‘
کہا:
’’اُمیدوار!‘‘
مسکرائے اور فرمایا:
ہے فیض سے کِسی کے شجر اُن کا باروار
اِس واسطے کیا ہے تخلُّص اُمیدوار
بے چارے شرمندہ ہوکر چلے گئے۔ قائم تخلُّص اختیار کیا اور کسی اور کے شاگرد ہوگئے۔
……O……
سیّد انشاء کا عالمِ نوجوانی تھا۔ مشاعرے میں غزل پڑھی:
جِھڑ کی سہی، ادا سہی، چِین ِ جبیں سہی
سَب کچھ سہی، پر ایک نہیں کی، نہیں سہی
جب یہ شعر پڑھا کہ
گر نازنیں کہے سے بُرا مانتے ہو تُم
میری طرف تو دیکھیے میں، نازنیں سہی
سودا کا عالمِ پیری تھا۔ مشاعرےمیں موجود تھے۔
مُسکراکر بولے:
’’دریں چہ شک۔‘‘
……O……
ایک دن سودا مشاعرے میں بیٹھے تھے۔ لوگ اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے۔ ایک شریف زادے کی 12،13 برس کی عمر تھی۔ اُس نے غزل پڑھی۔
مطلع پڑھا:
دِل کے پھھولے جل اُٹھے، سینے کے داغ سے
اِس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
گرمئ کلام پر سودا بھی چونک پڑے۔
پوچھا:
’’یہ مطلع کِس نے پڑھا؟‘‘
لوگوں نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا:
’’حضرات! یہ صاحبزادہ ہے۔‘‘
سودا نے بھی بہت تعریف کی۔ کئی مرتبہ پڑھوایا اور کہا کہ
’’میاں لڑکے، جوان تو ہوتے نظر نہیں آتے۔‘‘
خدا کی قدرت انہی دنوں میں لڑکا جل کر مرگیا۔
آپ کی راۓ