میں ترا حسن ،ترے حسنِ بیاں تک دیکھوں اہ! مولانامحمد سالم قاسمی

نایاب حسن

15 اپریل, 2018

مولانامحمد سالم قاسمی کو پہلی بار جب دیکھا، تووہ جسمانی اعتبارسے نحیف و نزار تھے، البتہ ان کے ذہن و دماغ حسبِ سابق براق و بیدارتھے،اس کا مشاہدہ کرنے کے کئی مواقع ملے،چوں کہ ہم دارالعلوم دیوبند(قدیم )میں زیر تعلیم تھے؛اس لیے انھیں سننے کے لیے ہمیں کسی نہ کسی تقریب کا انتظار کرنا پڑتا تھا،ہم نے پہلی بار انھیں دارالعلوم دیوبند وقف میں غالباً صحیح بخاری کے پہلے سبق کی تدریس کی مناسبت سے سنا۔مجھے ان کی ذات میں کئی چیزیں جاذب و دلکش لگتی تھیں:ایک تو ان کا سراپا،جوان کی نسبی نجابت،اخلاقی شرافت اور علمی وجاہت کا آئینہ دار تھا،دوسرے ان کا چہرہ،جوہمیشہ خنداں وفرحاں ہوتا،ان کی مسکراہٹ بھی بڑی جمال انگیز ہوتی تھی اور فرحت بخش بھی،ان کی ٹوپی بھی مخصوص قسم کی تھی،غالباً میں نے کسی تصویر میں ان کے والد گرامی حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب کو بھی ایسی ہی ٹوپی میں دیکھاہے،گول،مگر قدرے لمبی اور کسی قدربلندبھی،یعنی ایسی کلاہ زیبِ سرکرتے،جس پر بہ آسانی’’تاج‘‘کا اطلاق ہوسکتا ہے اور ایسی ہی کلاہ جب کج ہوتی ہے،توزمانے بھر کی نگاہ میں آجاتی ہے۔
پہلی بار جب ان کو سنا،توابتداء اً بات سمجھ میں نہ آئی،کہ عمراور ضعف کی وجہ سے قدرتاً ان کی آوازمیں ضعف پیدا ہوگیا تھا،البتہ زبان کی سلاست اور بیان کا تسلسل غضب کاتھا؛چنانچہ جب کان لگایا اور دھیان سے سنا،تومحسوس ہوا کہ مولاناکی تقریر میں علمی نکات اور فکری گہرپاروں کی بھی بھرمار ہے۔ان کی سب سے یادگار تقریر میں نے2011ء میں دارالعلوم دیوبندمیں سنی تھی،انھیں رابطۂ مدارسِ اسلامیہ کے اجلاس میں مدعوکیاگیا تھااور وہ اجلاس کی ایک نشست کے صدرہونے کی حیثیت سے خطاب فرمارہے تھے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبۂ اردوکے استاذجناب ڈاکٹرخالد مبشرصاحب نے اپنی ایک مختصرتحریر میں لکھاہے کہ انھوں نے مولانا کوپہلی بار نومبر1995ء میں سنا،اس تقریر کی خاص بات انھوں نے یہ ذکر کی ہے کہ آپ نے فرمایاتھا’’رسول اور صحابہ نے دین کی دعوت دی،تابعین کے زمانے میں مسلک کی تبلیغ ہونے لگی، پھرتبع تابعین کے زمانے میں مشرب کو ترجیح دیاجانے لگا اور آج کل لوگ اپنے اپنے ذوق کی اشاعت کررہے ہیں،لوگو،آؤ!مسلک،مشرب اور ذوق کی بجاے دین کی دعوت دو‘‘۔پندرہ سال بعددارالعلوم دیوبند کی جامعِ رشید میں ہم نے مولاناکی جو تقریر سنی،اس میں بھی آپ یہی پیغام دے رہے تھے،حتی کہ لفظوں کی ترتیب اور جملوں کی ساخت بھی ٹھیک وہی تھی ،جوخالد صاحب نے نقل کی ہے،یہ بات ایسی تھی کہ میں نے نہایت توجہ سے سنی؛بلکہ مجلس کے اختتام پر کئی احباب اور اہلِ علم حضرات سے اس کا تذکرہ بھی کیا،مولاناکے لہجے میں بڑاسوز،درداور کرب تھااور ہونا بھی چاہیے تھا؛کیوں کہ وہ اس خانوادے کے علمی و نسلی وارث تھے،جس نے 1857ء میں مسلمانانِ ہند کی مکمل علمی و سیاسی پس گردی و شکست خوردگی کے بعدانھیں ازسرِ نواٹھنے،بڑھنے اور لڑنے کا حوصلہ دیاتھا،آج کے دانشورانِ نو اورخودرومفکرین چاہے جتنا فلسفہ بگھاڑیں،مگر یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ محمد قاسم نانوتوی ایک فردنہیں،ایک عہد ، ایک تحریک اور ایک اکیڈمی کانام تھا،اس کی ذات اور فکر سے جو سوتے پھوٹے،انھوں نے ہندوستان کے ریگزاروں کوہی سیراب نہیں کیا؛بلکہ اس کا دائرہ بڑھتے بڑھتے دنیا کے بیشتر خطوں کو محیط ہوگیا،اس کے قائم کردہ ادارے (دارالعلوم دیوبند) نے بیسویں صدی کی علمی ، فکری، سیاسی تحریکوں پر راست اثر ڈالاتھااور اکیسویں صدی میں بھی اس کی معنویت کم نہیں ہوئی ہے۔مولانامحمد سالم قاسمی ہمارے عہد میں اُسی خانوادے کے سربراہ ہونے کے ساتھ علمی و فکری اعتبار سے دیوبند،ہندوستان اور اسلامی علمی دنیا کے ایک نمایاں ترین فردتھے،انھیں عصری ضرورتوں کا ادراک تھا اور مقتضیاتِ زمانہ ان کی نگاہوں میں تھے،مسلمانوں کے فکری زوال اور علمی پسماندگی کے اسباب ووجوہ کے ساتھ ان کے سیاسی ،مذہبی و سماجی افلاس کے محرکات بھی ان کے سامنے تھے اور زمانہ کے آگے بڑھنے کے ساتھ ان کے اس ہمہ گیر دکھ کا مداوانہیں ہوسکا تھا؛یہی وجہ ہے کہ مولانانے مسلمانوں کو جو بات 1995میں کہی تھی،پندرہ سال گزرنے کے بعدبھی وہ خود اپنے پڑداداکے قائم کردہ یادگارِ علمی وفکری میں بیٹھ کرہندوستان بھر کے سیکڑوں مدارسِ اسلامیہ کے ذمے داروں کومخاطب کرتے ہوئے وہی بات کہہ رہے تھے۔
مولاناکا اسلوب نہایت پرشوکت تھا،اسلوبِ خطابی بھی اور اسلوبِ نگارش بھی،ان کی طلاقتِ لسانی سے بسااوقات سامع کو یہ دھوکاہوتاکہ شاید وہ کوئی رٹی ہوئی تقریر سن رہاہے؛بلکہ ان کی تقریر جیسی روانی تو کسی رٹی ہوئی تقریر میں بھی مشکل سے ملے گی،جملوں کا دروبست اور لہجے کا اتار چڑھاؤ بڑا منفرد ہوتا، ان کا تقریر کرنے کا سٹائل واقعی ایک خطیب کا سٹائل تھا ،جس سے سامع لطف اٹھاتا اور اپنے دامنِ مراد کو بھرتا ہے ۔ہم عام طورپردیکھتے ہیں کہ کسی بڑے پروگرام؍اجلاس؍سیمینار وغیرہ میں جن بڑی شخصیات کو مدعوکیاجاتا ہے،وہ اصل موضوع پر کم اور اس سے متعلق یا غیر متعلق اطراف وجوانب پر زیادہ گفتگوفرماتی ہیں،مگر مولاناکی یہ خصوصیت تھی کہ وہ جس موضوع پر خطاب کے لیے مدعو کیے جاتے،اسی موضوع پر بولتے اور خوب تر بولتے۔2010ء میں بھی ان کو ایک خاص موقعے پر سننے کا موقع ملاتھا،وہ موقع تھافقہ اکیڈمی انڈیاکے ذریعے منعقدہ ایک سیمینارکا،موضوع فقہِ مقارن تھا،اہلِ علم اس موضوع کے مافیہ کوسمجھتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ تلفیق بین المذاہب اور فقہِ مقارن میں کتنا فرق ہے،سیمینار دیوبند میں اور دارالعلوم وقف میں تھا،مختلف نشستوں میں نئے ،پرانے،دیوبند و بیرونِ دیوبندکے اہلِ علم و قلم نے اپنے مقالات پڑھے،موضوع سے متعلق مختلف نظریات وافکار لوگوں کے سامنے آئے، آخری نشست میں صدارتی خطاب مولاناکا ہوا،اس خطاب میں مولانانے پیش کردہ مقالات پر جچا تلا تبصرہ فرماتے ہوئے موقع کی مناسبت سے دیوبندکے معتدل فقہی،علمی وکلامی نقطۂ فکرکی ایسی عمدہ تشریح فرمائی کہ لوگ عش عش کرنے لگے۔فکری پختگی کے ساتھ توسع بھی خانوادۂ قاسمی کا امتیاز رہاہے،دیوبنداور علی گڑھ کے رشتے یا دیوبند وجامعہ ملیہ اسلامیہ کے روابط دراصل اسی فکرِ قاسمی کی کشادکے نمونے ہیں،مولاناسالم صاحب قاسمی کی شخصیت بھی اس فکری پختگی وتوسع کا خوب صورت نمونہ تھی؛یہی وجہ تھی کہ وہ دارالعلوم کی سربراہی کرنے کے ساتھ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈاور مسلم مجلس مشاورت جیسے اداروں کے نظریہ سازلیڈروں میں بھی شامل رہے،ان کی رایوں کا احترام کیاجاتا اور لوگ ان کے نتائجِ فکر سے استفادہ کرتے تھے۔
موت بہرحال ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے،جس سے ہر متنفس کو روبروہونا ہے،سو مولانابھی اپنے تمام کارناموں اور خدمات کے ساتھ موت کی آغوش میں چلے گئے،پیچھے انھوں نے اداروں؍شاگردوں؍تصانیف وغیرہ کی شکل میں جو آثاروبقیات چھوڑے ہیں،وہ یقیناً ان کے لیے صدقۂ جاریہ بھی ہیں اور ذخیرۂ آخرت بھی۔

(بشکریہ نایاب حسن)

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter