میں آگہی کے دشت میں، بھٹک رہا ہوں دم بہ دم
مری صدا ہے العطش ،لگا رہا ہوں دم بہ دم
جنوں کی سب حکایتیں خرد سے جا الجھ گئیں
میں اپنی عقلِ خام کو ،سمجھ رہا ہوں دم بہ دم
محبتیں، عداوتیں، ہے ہجر بھی وصال بھی
یہ عاشقی عذاب ہے ،بھگت رہا ہوں دم بہ دم
میں چل پڑا تری طرف وہ فیصلہ غلط ہوا
اب اپنا حوصلہ لئے، پلٹ رہا ہوں دم بہ دم
حقیقتوں کی خواب کو بھلا نہیں سکا کبھی
کہیں ترا خیال ہو، جھٹک رہا ہوں دم بہ دم
سخن وری ہنر مرا، زباں سے میں بیاں کروں
مگر تری جو بات ہے، اٹک رہا ہوں دم بہ دم
♠
آپ کی راۓ