کسی انہونی کے امکان سے گھبراتا ہے
دل رہ عشق میں ایمان سے گھبراتا ہے
نیم کی چھال سے کڑوی ہے مسیحائ تری
اسلئے دکھ ترے احسان سے گھبراتا ہے
جس پہ غالب ہو محبت کی تجارت کا جنوں
وہ کہاں فایدہ نقصان سے گھبراتا ہے
مجھکو تلوار اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں
میرا دشمن مری مسکان سے گھبراتا ہے
وقت نے ایسا مرے ساتھ کیاہے برتاو
میرا چہرہ مری پہچان سے گھبراتا ہے
بے یقینی کا چلن فیض ہوا یوں غالب
ہر کوی اپنے نگہبان سے گھبراتا ہے
فیض خلیل آبادی
آپ کی راۓ