ہمارے صبر کو ہلکان کرکے رکھ دیا ہے
ترے ستم نے پریشان کرکے رکھ دیا ہے
میں راستے میں پڑا تھا یہ کس کی آنکھوں نے
الگ مقام پہ پہچان کرکے رکھ دیا ہے
اس ایک دکھ نے ملا تھا جو ذات سے تیری
مرے وجود کو ویران کر کے رکھ دیا ہے
ادب نواز بتاتے ہیں میرے لہجے نے
ادب کی دنیا کو حیران کرکے رکھ دیا ہے
کسی کی وعدہ خلافی کے ایک لمحے نے
کسی کی صدیوں نقصان کرکے رکھ دیا ہے
مرے قریب نہیں آتی فیض اب مشکل
یوں اپنے آپ کو آسان کرکے رکھ دیا ہے
فیض خلیل آبادی
آپ کی راۓ