دیکھ کر ہم پہ جو بھی بیتے ہیں
لوگ کہتے ہیں کیسے جیتے ہیں؟
آپ کی ایک مسکراہٹ سے
کتنے مرتے ہیں کتنے جیتے ہیں
روز و شب مشغلہ یہی ہے بس
چاکِ دامن ہم اپنا سیتے ہیں
معجزہ یہ نہیں تو پھر کیا ہے؟
دور رہ کر ہم ان سے جیتے ہیں
جام و مینا سے کم نہیں ہرگز
یہ جو ہم روز چاے پیتے ہیں
ظلم بھی ، ان کی آن کی خاطر
ہنس کے سہتے ہیں، ہونٹ سیتے ہیں
اپنے کردار ہی سے لوگوں میں
ہم سحر آج بھی چہیتے ہیں
سحر محمود
آپ کی راۓ