(وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ)
یوں تو ایران کی ملالی حکومت نے خمینی غدر ہی کے سال 1979 سے عالم اسلامی میں ایرانی سفارت خانوں اور ثقافتی فرہنگوں کے ذریعے رفض وتشیع کے پھیلانے اور شیعہ سنی فتنہ بھڑکانے کا کام رازدارانہ طریقے سے شروع کر رکھا تھا لیکن 2003 میں صلیبی رافضی حملے کے بعد جب صدام حسین کو ٹھکانے لگا دیا گیا جو کہ عالم اسلام ہی نہیں بلکہ رافضی شیعوں کے خلاف پورے عالم اسلام کے لئے ایک سد منیع تھا، ان رافضیوں نے اپنی ریشہ دوانیوں کو تیز تر کر دیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے تحریکیوں کو ساتھ لے کر کئی عرب ملکوں کو تباہی کے دہانے پر پہونچا دیا۔ اور 2015 میں عالمی جوہری معاہدہ کرکے اقتصادی اور اسلحہ جاتی میدان میں کچھ مضبوط ہونے کے بعد سنی مسلم ممالک کے خلاف کھل کر اپنی دشمنی اور بعض وحسد کو ظاہر کرنے لگے اور اس مجوسی ملک کے حکمرانوں، فوجی جنرلوں اور ذاکروں نے سنی مسلمانوں کو کھل کر دھمکیاں دینے لگے۔ کسی نے کہا کہ بحرین ایران کا پندرہواں صوبہ ہے تو کسی نے کہا کہ جلد ہی حجاز کو ظالموں سے آزاد کر کے مکہ مدینہ کو اپنے قبضے میں کر لیں گے تو کسی نے بڑی دیدہ دلیری سے کہا کہ مدینہ سے بوبکر وعمر کی لاش نکال کر -نعوذ باللہ- اسے صولی پر چڑھائیں گے۔ ایک ذاکر یاسر الحبیب (الخبیث) نے تو کہا کہ افریقہ میں کوئی شیعہ ملک نہیں ہے اب جلد ہی مراکش میں شیعہ ملک بننے والا ہے۔
ایران کی راجدھانی تہران میں ایک آدم قد کا بڑا سا بورڈ لگا ہوا ہے جس میں ایرانی جھنڈے کے ساتھ چھ عرب ممالک (عراق، بحرین، یمن، شام، لبنان اور فلسطین) کے جھنڈے نصب کئے گئے ہیں اور کشیدہ کاری کی صورت میں قرآن پاک کی آیت: (إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا) لکھی ہوئی ہے۔
رافضیوں کی اس رندانہ جراءت اور شام ویمن میں ان کی بڑھتی قتل وخونریزی کو دیکھ کر سنی ممالک کے کان کھڑے ہو گئے اور ایک ایک کر کے تقریباً بارہ ممالک نے اس سے اپنے سارے روابط ختم کر لئے۔ جن کی بنیاد پر یہ رافضی مغرور ملک عالم اسلامی سے کٹتا جا رہا تھا کہ سعودی عرب کی دانشمندانہ خارجہ پالیسی کے نتیجے میں اسی ہفتے رافضی ایران کے ساتھ 2015 میں ہوئے جوہری معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے اور ایران پر اقتصادی پابندیوں کے لگا دینے کے بعد -اور جس معاہدے کی سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں نے شروع ہی سے مخالفت کی تھی- فارسی روافض اور اسکے اتحادیوں پر قیامت برپا ہے -اللہ مزید ان دشمنان اسلام کو ذلیل ورسوا اور خسارے سے دو چار کرے۔
صرف دو تین دنوں کے اندر ہی ان اعدائے اسلام کو الحق بوکھلاہٹ اور انکے خسارے کا خلاصہ ذیل میں پیش خدمت ہے:
1- ایرانی شورس پسند فوج پاسداران انقلاب اور ایرانی حکومت سے منسلک افراد کے سارے سرمائے جو عالمی بینکوں میں لگے ہوئے ہیں وہ سب منجمد ہو جائیں گے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر حزب اللاتی جیسی ان رافضی ملیشیاؤں پر پڑے گا جو سنی ممالک میں قتل وغارت مچائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ان سرمایوں کا زیادہ تر منافع ان تک پہونچتا ہے۔
2- ایران کے حلیفوں میں یورپی یونین اور اس میں خاص طور سے جرمنی کو سب سے زیادہ خسارے کا سامنا ھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صلیبی ملک سب سے زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ چنانچہ جرمنی کی ایک شراب کی کمپنی Eichbaum نے بوتلوں کے منہ کو سعودی عرب کے جھنڈے سے لپیٹ دیا جس میں واضح طور پر کلمہ لا الہ الا اللہ لکھا ہوا ہے۔ اس گھٹیا حرکت کے ذریعے جہاں ایک طرف سعودی حکومت کی تذلیل کی گئی وہیں دوسری طرف سارے مسلمانوں کے دلوں اور عقیدتوں کو ٹھیس پہونچایا گیا۔
سوشل میڈیا پر یہ خبر تصاویر کے ساتھ وائرل ہوگئی جسے دیکھ کر سعودی حکومت فورا حرکت میں آئی اور برلن میں موجود سعودی سفارت خانے کے ذریعے جرمن حکومت کو تنبیہی خط لکھا گیا جس میں اس حرکت کی مذمت کی گئی، معافی مانگنے اور مارکیٹوں سے سارے پروڈکٹ کو نکالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خبر ہے کہ کمپنی نے معافی مانگ لی ہے۔ تفصیل اس ویب سائٹ پر دیکھیں:
3- ایرانی اقتصاد کے میدان میں سب سے پہلے اس کی کرنسی پر برا اثر پڑا۔ چنانچہ وہ پہلے ہی سے دنیا کی بدتر کرنسی مانی جا رہی تھی۔ لیکن امریکہ کی طرف سے حالیہ اقتصادی پابندیوں کے بعد ایک امریکی ڈالر کے مقابلے چالیس ہزار ایرانی ریال سے اچانک اسی ہزار (80000) تک پہنچ چکی ہے۔
اس تباہی کے بعد بھی خمینی کے مرید اپنے عوام کی فکر نہ کرکے حالیہ عراقی انتخابات میں اپنے ایجنٹوں کو جتانے کے لئے کروڑوں ڈالر اسمگلنگ کے ذریعے عراق بھجوا رہے ہیں جنہیں عراقی سیکورٹی اہل کاروں نے ضبط کیا ہے۔
4- ایران کے اندر گیس اور تیل نکالنے والی کمپنیوں نے ایک ایک کر کے وہاں سے کھسکنا شروع کر دیا ہے۔ اب ادھر دونوں فیلڈ میں ایران کا پروڈکٹ دو تہائی کم ہو جائے گا۔ جس کے نتیجے میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور آٹومیٹک اس کا فائدہ سعودی عرب کو ہوگا جو اس کمی کو پورا کرنے کے لئے لازمی طور پر اپنے پروڈکٹ کو بڑھائے گا۔ اور سعودی حکومت کی طرف سے اس کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔
5- ایران نے یورپ، امریکہ اور روس سے بہت سارے اسلحوں اور سینکڑوں فوجی نیز مسافر بردار طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کر رکھا تھا جو سب کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔
بعض یورپی ممالک، روس اور ترکی کی طرف سے امریکہ کو چیلنج کرتے ہوئے ایران کے ساتھ اپنے اپنے تجارتی معاہدوں کو نیز تجارتی معاملات جاری رکھنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ لیکن یہ صرف دھمکی ہے۔ معیشت کے میدان میں پورا عالمی نظام امریکی ڈالر سے اس طرح بندھا ہوا ہے کہ اس سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
6- ایران نے بوکھلاہٹ میں آکر امریکہ اور اسرائیل کو دھمکیاں دینی شروع کر دی۔ نتیجے میں شام کے اندر جاری ایرانی جارحیت نشے میں آئی اور دو چار پٹاخہ شام کے دوسرے اسرائیلی مقبوضہ علاقے جولان پر پھینک مارا۔ اسرائیل نے اسے بہانہ بنا کر کئی ایرانی فوجی اڈوں کو تباہ کردیا جس سے شام میں رافضیوں کی کمر اگر نہ بھی ٹوٹی ہو مگر جھک تو ضرور چکی ہے۔ اس کے بعد بوکھلاہٹ سے پاگل پن کا شکار ہو کر سعودی عرب سے معاوضہ کی مانگ شروع کردی یہ الزام لگاتے ہوئے کہ سعودى اشارے پر یہ سارا حملہ ہوا ہے۔
کچھ لوگ سیریا کے اندر ایران اور اسرائیل کے درمیان اس چشمک لڑائی اور آنکھ مچولی سے بڑی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ جزائر کے بے باک صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر انور مالک نے کہا ہے کہ الموت لاسرائیل کا نعرہ لگانے والوں کو اگر اسرائیل سے اتنی ہی دشمنی ہے تو وہ تل ابیب یا کسی اور اسرائیلی علاقے پر میزائل کیوں نہیں پھینکتے؟ اسی طرح اسرائیل کو اگر ایران سے اتنی ہی دشمنی ہے جتنا میڈیا میں دکھایا جاتا ہے تو وہ سیریا لبنان اور عراق کی طرح ایران پر میزائل کیوں نہیں برساتا؟ آخر دونوں یہ آنکھ مچولی کا کھیل دوسرے سنی ملک میں کیوں کھیل رہے ہیں؟ ایران شامی علاقہ گولان کی پہاڑیوں پر اور اسرائیل دمشق کے نواحی میں ایرانی فوجی اڈوں پر کیوں میزائل پھینک رہے ہیں؟ یہ لڑائی اور جنگ کی بات صرف رافضی صہیونی حکومتوں کا دعوی ہے جسے بی بی سی لندن، الجزیرہ ٹی وی چینل اور دیگر رافضی اور صہیونی ٹی وی چینلوں پر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین ڈائریکٹ جنگ کسی قیمت پر نہیں ہو سکتی ہے۔ ایران سعودی پر حملہ کبھی بھی کرسکتا ہے اسرائیل پر نہیں۔ یہی حقیقت ہے باقی سب پروپیگنڈہ۔
سیریا میں حالیہ رافضی صہیونی آنکھ مچولی کو در اصل سنی اور عرب ممالک کے خلاف ایران، اسرائیل اور ترکی کی ایک سوجی سمجھی حکمت عملی بتائی جا رہی ہے۔ اور اس کے پیچھے دو اہم کارروائی سے لوگوں کا دھیان ہٹانا مقصود ہے:
اول:
سیریا کے مشہور سنی شہر الباب میں ترک فوج کے ظلم وستم کے خلاف عوام احتجاج کر رہے ہیں جنہوں نے گزشتہ سال سے حملہ آور بن کر پبلک کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ترکی فوج ان احتجاجیوں سے سختی کے ساتھ نپٹ رہی ہے۔ کئی ایک کے مارے جانے اور زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ وہاں کی سنی عوام در اصل ترک فوج سے علاقے کو خالی کرانا چاہتی ہے۔ لیکن یہ اردگانی فوج ظلم وستم کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔
ترکی نے جب جرابلس پر حملہ کیا تھا تو حلب کو برباد کیا گیا ، عفرین پر حملہ کیا تو الغوطہ کو برباد کیا گیا اور اب اس مکار منافق نے الباب سٹی میں عوام کے خلاف ی کارروائی کر رکھی ہے، یہ بھی کسی بربادی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے ۔لا قدر اللہ- کیوں کہ امیر المنافقین کی سنی مسلمانوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی بغیر دشمنان اسلام کے ساتھ کسی سمجھوتے کے بغیر نہیں ہوتی ہے۔
دوم:
بڑی رازداری سے اسرائیل کے اندر تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کی سرگرمیاں تیزی سے چل رہی ہیں۔ آئندہ 14/ مئی کو اسرائیل کی برسی کے موقع پر تل ابیب سے القدس یہ منتقلی کی کارروائی کی جانے والی ہے۔
تعجب ہے ان رافضیوں اور تحریکیوں پر جو اعلان کے وقت تو بڑا مظاہرہ کر رہے تھے لیکن عملی کارروائی کے وقت بالکل خاموش ہیں۔ کیا یہ منافقت نہیں ہے؟ کیا یہ فلسطینیوں کے ساتھ دھوکا نہیں ہے؟ آخر حماسی نام نہاد مجاہدین کہاں بلوں میں گھسے بیٹھے ہیں؟ فلسطینی اتھارٹی الفتح کی طرف سے ایک مذمتی بیان کے علاوہ اور کوئی چیز اب تک نہیں آئی ہے۔
اسرائیل ہی نہیں امریکہ بھی اندر سے ایران کا دوست ہے سنیں فیصل قاسم کے یہ سوالات:
کیا جورج بش سینئر نے چاندی کے برتن میں افغانستان کو ایران کے حوالے نہیں کر دیا؟؟
کیا جورج بش جونیئر نے عراق کو سونے کی تھالی میں رکھ کر ایران کو نہیں تھما دیا؟
کیا اوباما نے یمن اور سیریا میں ایران کو کھلی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیدی؟
یورپ اور امریکہ نے تمام تر دشمنی دکھانے کے باوجود مجبور ہوکر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ آخر کیوں کیا؟
کیا یہ اسرائیل، یورپ اور امریکہ کی دشمنی ایران کے ساتھ ایک دکھاوا ہے؟ کیا یہ سب حقیقت میں خلیجی سنی ملکوں کے دشمن نہیں ہیں؟
کیا امریکہ عربوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر ایران کے ذریعے اسرائیلی کاز کو حل نہیں کر رہا ہے؟
سوال ہی نہ تھا دشمن کی فتح یابی کا
ہماری صف میں منافق اگر نہیں آتے
حسبنا الله ونعم الوكيل.
آپ کی راۓ