ندی میں آج کل پانی بہت ہے
چڑھی لہریں ہیں طغیانی بہت ہے
مری کشتی کو ہیں خطرات لاحق
میاں موجوں کی من مانی بہت ہے
یہ پندارِ خودی نا ٹوٹ جائے
دلِ ناداں کی نادانی بہت ہے
میں اب دیوانہ ہونا چاہتا ہوں
سنا وہ بھی تو دیوانی بہت ہے
ذرا پہلے کرو جی خود کو ثابت
وفا کی رہ میں قربانی بہت ہے
دھواں اٹھے ہے دل سے بے خودی میں
جو جل جائے تو آسانی بہت ہے
میں اپنے آپ شرمندہ ہوں ثاقب
اسے بھی تو پشیمانی بہت ہے
آپ کی راۓ