(یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْأَہِلَّةِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ، وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی، وَأْتُوْا الْبُیُوْتَ مِنْ أَبْوَابِہَا، وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ ُتفْلِحُوْنَ)
(اے حبیب!) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج (کے تعیّن) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو، اور ﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ
بزرگو اور بھائیو: ابھی ہمارے قاری صاحب نے جو تلاوت کی ہے اس میں یہ آیت بھی پڑھی ہے اس آیت میں چاند کا مسئلہ ہے اور مغربی دنیا میں یہ مسئلہ جھگڑے کا باعث بنا ہوا ہے، پس کیوں نہ آج اسی آیت پاک کی تفسیر سمجھ لی جائے
شا ن نزول
آیت کریم کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سورج ہمیشہ ایک حال پر رہتا ہے مگر چاند ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا، ایسا کیوں ہے؟ مہینہ کی تین راتوں میں یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ میں تو ماہ کامل ہوتا ہے پھر گھٹنا شروع ہوتا ہے ، اور گھٹتے گھٹتے برائے نام رہ جاتا ہے، پھر بالکل غائب ہو جاتا ہے ، پھر کھجور کی ٹہنی کی طرح دوبارہ نمودار ہوتا ہے، جو مہینہ کی پہلی تاریخ کہلاتی ہے ، پہلی تاریخ کے چاند کو عربی میں ‘ہلال ‘ کہتے ہیں، اردو میں بھی یہی لفظ مستعمل ہے، پھر پہلا چاند بڑھتا ہے اور بڑھتے بڑھتے ماہ کامل بن جاتا ہے، ایسا کیوں ہے؟ سورج کی طرح چاند ہمیشہ ایک حالت پر کیوں نہیں رہتا؟
اس سوال کا ایک پس منظر ہے، صحابہ رضی اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات اس لئے پوچھی تھی کہ عرب کا ملک گرم ملک ہے، جیسے یہاں (یورپ و امریکہ میں ) آٹھ مہینے سردی رہتی ہے عرب میں آٹھ مہینے گرمی رہتی ہے اور عرب میں پہاڑ بہت ہیں، وہاں کچھ پیدا نہیں ہوتا ، مدینہ اور طائف میں تو تھوڑا بہت پیدا ہو جاتا ہے مگر ملک کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا، اس لئے عربوں کی معیشیت کا مدار اسفار پر تھا ، سال میں ایک مرتبہ شام جاتے تھے اور ایک مرتبہ اونٹوں پر سفر ہوا کرتا تھا اور اونٹ پورے دن نہیں چل سکتے ، زمین گرم ہو جاتی ہے، زیادہ سے زیادہ نو بجے تک چل سکتے ہیں ، پھر سفر روک دینا پڑتا ہے ، پھر شام کو عصر کے بعد جب سمندر کی طرف سے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور موسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو سفر شروع کرتے ہیں ، دن میں سفر نہیں کر سکتے، اس لئے دن کی تلافی رات میں کرتے تھے اور چاند جیسا تیرہ چودہ اور پندرہ میں کامل ہوتا ہے اگر ایسا ہی پورا مہینہ رہے تو سفر پر لطف ہو جائے ، یہ پس منظر تھا جس کی وجہ سے سوال کیا تھا کہ جس طرح سورج ایک حال پر رہتا ہے چاند ایک حال پر کیوں نہیں رہتا ؟ پس آیت پاک نازل ہوئی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں ہلالوں کے بارے میں؟ ہلال نہیں فرمایا بلکہ ہلالوں فرمایا ، جمع لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ سا ری دنیا کا ہلال ایک نہیں ہوتا، اگر ساری دنیا کا ہلا ل ایک ہوتا تو مفرد ہلال لایا جاتا، أہلہ جمع لانے کی ضرورت نہیں تھی، بہرحال لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مہینہ کے شروع کے چاندوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ، آپ ان کو جواب دیں : مہینہ کے شروع کے چاند لوگوں کے لئے اوقات مقررکرتے ہیں اور حج کے لئے وقت مقرر کرتے ہیں ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حج کو الگ کیوں کیا؟ موا قیت للناس کافی تھا، حج کو الگ کرنے کی ضرورت کیا پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہینہ کے نئے چاند ساری دنیا کے لئے الگ الگ تاریخیں مقرر کرتے ہیں۔
بعض احکام سورج سے متعلق ہیں اور بعض چاند سے
کیلنڈر دو بنتے ہیں ، ایک سورج کا اور ایک چاند کا،
سورج کا کیلنڈر ہر آدمی نہیں بنا سکتا جو فلکیات کا ماہر ہے و ہ ہی بنا سکتا ہے، اور چاند کا کیلنڈر ہر شخص بنا سکتا ہے، چاند نظر آئے تو اگلا مہینہ شروع کر دو، ورنہ تیس دن مکمل کر لو، اس کے لئے کسی حساب کی ضرورت نہیں اور سورج کا کیلنڈر بنانے کے لئے حساب کا جاننا شرط ہے۔
پھر شریعت نے کچھ احکام سورج سے متعلق کئے ہیں اور کچھ چاند سے، وہ احکام جن کو سال میں دائر نہیں کرنا ان کو سورج سے متعلق کیا ہے،
اور جن احکام کو سال میں دائر کرنا ہے ان کو چاند سے متعلق کیا ہے،
جیسے رمضان شریف کو سال میں دائر کرنا ہے، اگر ہمیشہ رمضان گرمی میں آئے گا تو لوگ پریشان ہونگے اور ہمیشہ سردی میں آئے گا تو کچھ مشقت نہ ہو گی ، پھر زمین کا کرہ گول ہے، شمال کی سردی گرمی کا اعتبار ہو گا یا جنوب کی؟ ایک جانب والا ہمیشہ مزہ میں رہے گا دوسری جانب والا پریشان! پس رمضان پورے سال میں گھومے اس لئے اس کو چاند سے متعلق کیا تاکہ کبھی اور کہیں رمضان سردیوں میں آئے اور کبھی اور کہیں گرمیوں میں، اور نمازیں سال بھر پڑھنی ہے، گر می اور سردی کا اس پر اثر نہیں پڑتا اس لئے ان کو سورج سے متعلق کیا۔
پھر جو احکام سورج سے متعلق ہیں ان میں بھی حساب نہیں ہے، آنکھ سے دیکھو اور عمل کرو اور جو احکام چاند سے متعلق ہیں ان میں بھی حساب نہیں ہے آنکھ سے دیکھو اور عمل کرو کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اتنی بڑی ہے کہ اگر درختوں کے پتے گنے جا سکتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گنی جا سکتی ہے، اگر ریت کے ذرے گنے جا سکتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گنی جا سکتی ہے، اگر آسمان کے تارے گنے جا سکتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گنی جا سکتی ہے، اور سب لوگ شہروں اور دیہاتوں میں نہیں رہتے ، کچھ لوگ پہاڑوں میں رہتے ہیں، کچھ جنگلوں میں، پس اگر ان کو سورج اور چاند کا حساب سیکھنے کے لئے کہا جائے گا تو یہ بات امت کے لئے نا قابل عمل ہو گی، اس لئے حکم دیا کہ آنکھ سے دیکھو اور عمل کرو چاہے وہ حکم سورج سے تعلق رکھتا ہو یا چاند سے۔
ہندی مہینے یکساں کیوں ہوتے ہیں؟
ہندؤوں کا کیلنڈر بھی قمری ہے مگر وہ موسم فکس کرنے کے لئے ہر تین سال میں ایک مہینہ بڑھا دیتے ہیں، ہر تیسرے سال: سال کے تیرہ مہینے کر دیتے ہیں اور اس طرح ان کے قمری مہینے ایک سیزن میں آتے ہیں ، جیٹھ ہمیشہ گرمیوں میں آتا ہے، اسلام سے پہلے عرب بھی مہینوں کے ساتھ یہی عمل کرتے تھے، وہ بھی ہر تیسرے سال کبیسہ کے نام سے ایک مہینہ بڑھاتے تھے، چنانچہ رمضان کا جو رمضان نام پڑا ہے وہ اس وجہ سے پڑا ہے کہ رمضان کے معنی ہیں : وہ زمانہ جس میں پتھر نہایت گرم ہو جاتے ہیں، چونکہ رمضان ہمیشہ نہایت گرمی میں آتا تھا اس لئے اس مہینہ کو رمضان کہنے لگے، قرآن کی آیت ( اِنَّماَ النَّسِیْئُ زِیَادَة فِیْ الْکُفْرِ) میں اسی کا بیان ہے، اسلام نے اس سسٹم کو ختم کر دیا تو مہینے سال میں گھومنے لگے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نمازوں کے اوقات کیلئے جنتریاں بنائی جاتی ہیں اور ان کے حساب سے اذانیں دی جاتی ہیں اور نمازیں پڑھی جاتی ہیں، پس جب نمازوں میں حساب کا اعتبار کیا جاتا ہے تو رمضان کے چاند میں حساب کا اعتبار کیوں نہیں کیا جا تا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات میں جنتریوں کا اعتبار نہیں،
مشرق میں دیکھو! پو پھٹے اور لال دھاری نمودار ہو تو صبح صادق ہو گئی، سحری بند کرو اور فجر کی نماز پڑھو، گھڑی میں چاہے کچھ بھی بجا ہو اس کا اعتبار نہیں،
اسی طرح سورج نکلا اس کا اوپر کا کنارہ نمودار ہوا تو سورج نکل آیا اب فجر کی نماز کا وقت ختم ہوگیا،
پھر جب سورج بلند ہوا اور ہر چیز کا سایہ گھٹتا ہوا درجہ صفت پر آ گیا یعنی سورج سر پر آ گیا تو ہر نماز ممنوع ہو گئی،
پھر جب سورج ڈھلا اور سایہ مشرق کی طرف بڑھنا شروع ہوا تو زوال ہو گیا اب ظہر پڑھو،
پھر اصلی سایہ چھوڑ کر جب ہر چیز کا سایہ اس کے مانند ہو گیا تو ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کے نزدیک ظہر کا وقت ختم ہو گیا اور امام اعظم کے نزدیک ابھی ظہر کا وقت باقی ہے،
ان کے نزدیک اصلی سایہ چھوڑ کر ہر چیز کا سایہ دوگنا ہو جائے تب ظہر کا وقت ختم ہوتا ہے، اور جب بھی ظہر کا وقت ختم ہو عصر کا وقت شروع ہوجا ئے گا،
اور جب سورج کا اوپر کا کنارہ چھپ گیا تو مغرب کا وقت ہو گیا، پھر سو رج ڈوبنے کے بعد جب تک مطلع پر روشنی رہے مغرب کا وقت ہے،
اور جب بالکل اند ھیرا چھا جائے تو عشاء کا وقت شروع ہو گیا صبح صادق تک عشاء پڑھ سکتے ہیں،
غرض کسی حساب کی ضرورت نہیں اور کوئی گھڑی نہیں چاہئے، آنکھوں سے دیکھو اور پانچوں نمازیں پڑھو، نمازوں میں جنتریوں کا حساب ضروری نہیں، جنتریاں لوگوں نے سہولت کے لئے بنائی ہیں،
لیکن فرض کرو : جنتری کہتی ہے ابھی پانچ منٹ کے بعد سورج طلوع ہو گا اور ہم اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ سورج نکل آیا ہے، تو اعتبار دیکھنے کا ہو گا، جنتری اور گھڑی کا نہیں ہو گا،
چاند کا بھی یہی معاملہ ہے، اعتبار آنکھ سے دیکھنے کا ہے،
اگرچہ قمری کیلنڈر بنتے ہیں، اور سال میں دس مہینے اس کے حساب سے چند نظر آتا ہے، مگر سال میں دو ماہ اس کیلنڈر کے مطابق چاند نظر نہیں آتا، اس لئے اعتبار حساب کا نہیں، بلکہ آنکھ سے دیکھنے کا ہے ۔
ترقی یافتہ دور میں حساب پر مدار رکھنے میں حرج کیا ہے؟برطانیہ میں اور اس ملک (امریکہ) میں کچھ مسلمان جو ماہرین حساب ہیں کہتے کہ چاند کو آنکھ سے دیکھنے کا زمانہ چودہ سو سال پہلے تھا جبکہ اونٹوں اور پتھروں کا زمانہ تھا ،اب ہم تر قی یافتہ ہیں ، لکھنا پڑھنا جانتے ہیں ، حساب کتاب جانتے ہیں ، ہم حساب سے بتا سکتے ہیں کہ چاند کب نکلے گا اور کب ڈوبے گا ؟ اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نیا چاند کب پیدا ہو گا اور کب آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہو گا، میں ان بھائیوں سے پوچھتا ہوں : بتاؤ حساب کتاب جاننے والے کتنے مسلمان ہیں؟ پوری دنیا میں ایک فیصد بھی نہیں ہیں ، پس شریعت احکام کا مدار ایسی چیز پر کیسے رکھے گی جس کے جاننے والے ایک فیصد بھی نہیں ،
چنانچہ حدیث میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
نحن أمة أمیة لا نکتب ولا نحسب :
ہم ناخواندہ امت ہیں یعنی امت کی اکثریت ناخواندہ ہے ، اور ناخوا ندہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اردو فارسی انگریزی نہیں پڑھ سکتے، بلکہ ناخواندہ کا مطلب ہے :
لا نکتب ولانحسب: ہم لکھتے اور گنتے نہیں،
چنانچہ آج بھی امت کی اکثریت حساب کتاب نہیں جانتی ایسی صورت میں شریعت اکثریت کا لحاظ کر کے احکام مقرر کرتی ہے کچھ خاص بندوں کا لحاظ کر کے احکام مقرر نہیں کرتی ، پالیمنٹ جو قوانین بناتی ہے ان میں بھی اکثریت کا لحاظ کرتی ہے بعض کا لحاظ نہیں کرتی ، پس ماہرین حساب کا یہ کہنا کہ دنیا اب بہت ترقی یافتہ ہو گئی ہے ، اب ہم حساب کے ماہر ہو گئے ہیں ان کا یہ کہنا صحیح ہے ، بے شک وہ ماہر ہو گئے ہیں ، ہم ان کی مہارت کا انکار نہیں کرتے لیکن
شریعت نے اکثریت کا لحاظ کر کے چاند کا مدار حساب پر نہیں رکھا ، بلکہ آنکھوں کی رویت پر مدار رکھا ہے۔
بہرحال کوئی ماہر ہے یا نہیں؟ اس قصہ کو چھوڑو، اگر ماہر ہے بھی تو احکام کا مدار حساب پر نہیں، سورج سے متعلق احکام کا بھی اور چاند سے متعلق احکام کا بھی، دونوں کا مدار آنکھ سے دیکھنے پر ہے کیونکہ امت کی اکثریت حساب کتاب نہیں جانتی اور شریعت احکام کے نازل کرنے میں اکثریت کا لحاظ کرتی ہے ۔
آیت کریمہ پر ایک نظر پھر ڈالو اللہ پاک فرماتے ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیں : چاند گھٹتا بڑھتا اس لئے ہے کہ لوگوں کے لئے اوقات مقرر کرے اور حج کے لئے وقت مقرر کرے، اس میں صاف اشارہ ہے کہ مدار آنکھ سے دیکھنے پر ہے اور آنکھ سے دیکھنے کے اعتبار سے مہینہ کا پہلا چاند پوری دنیا میں ایک نہیں ہو سکتا پس لا محالہ چاند کا مہینہ پوری دنیا میں الگ الگ شروع ہو گا ، جہاں چاند نظر آئے گا وہاں مہینہ شروع ہو گا،
صرف حج ایک ایسی عبا دت ہے جس میں ساری دنیا کے مسلمان اپنی تاریخیں چھوڑ کر مکہ کی قمری تاریخ کے اعتبار کریں گے اور ایک معین دن میں حج کریں گے۔
آج سے تقریبا چالیس سال پہلے جبکہ میں راندیر میں مدرس تھا ، مکہ کے حکومتی ادارے رابطہ عالم اسلامی نے اجلاس بلایا ، دنیا کے بڑے بڑے علماء اس کے رکن ہیں ، ہندوستان سے اس وقت رکن حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب رحمہ اللہ اور حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں صاحب ندوی رحمہ اللہ تھے، دونوں حضرات اجلاس میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے، اس کانفرنس کے ایجنڈے میں توحید اہلہ کا مسئلہ بھی تھا، توحید کے معنی ہیں : ایک ہونا ، اور اہلہ : ہلال کی جمع ہے، یعنی دنیا میں چاند کی الگ الگ تاریخیں شروع ہوتی ہیں، یہ نظام ختم کیا جائے اور پوری دنیا میں چاند کی تاریخیں ایک ساتھ شروع ہوں ایسا نظام بنایا جائے۔ توحید اہلہ کا مطلب یہی ہے، تمام ممبران نے حتی کہ سعودیہ کے ممبران نے بھی اس کو نامنظور کیا کہ یہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے،
قرآن کی تو یہی آیت ہے اور حدیث میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ :
جب چا ند نظر آئے رمضان کے روزے شروع کرو اور چاند نظر آئے تو رمضان کے روزے ختم کرو،
غرض تمام ممبران نے اس تجویز کو رد کر دیا کہ پو ری دنیا کا چاند ایک نہیں ہو سکتا۔
پوری دنیا کے لئے ایک چاند مقرر کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ چاند کو آنکھ سے دیکھنے کا مسئلہ ختم کر دیا جا ئے اور قمر جدید یعنی نیو مون کا اعتبار کر لیا جائے، اس صورت میں ساری دنیا کا چاند ایک ہو جا ئے گا ۔
قمر جدید (نیا چاند) کیا ہے؟سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں ڈوبتا ہے، چاند بھی اسی طرح مشرق سے نکل کر مغرب میں ڈوبتا ہے، یہ چاند کی روز مرہ کی چال ہے
البتہ چاند کی ایک دوسری چال بھی ہے، وہ مغرب سے مشرق کی طرف بھی چلتا ہے، دو متضاد چالیں ایک ساتھ چلتا ہے
اور یہ بات اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں، جیسے ہم فٹ بال کو لات مارتے ہیں تو گیند سامنے کی طرف بھی جاتی ہے اور گول بھی گھومتی ہے،
اسی طرح چاند چوبیس گھنٹے میں ایک راؤنڈ لیتا ہے ،
اور دوسری چال مغرب سے مشرق کی طرف چوبیس گھنٹوں میں٢٣ ڈگری چلتا ہے اور انتیس دن میں ایک راؤنڈ پورا کرتا ہے۔
اور جیسے آدھی زمین روشن رہتی ہے اور آدھی پر اندھیرا چھایا رہتا ہے ، یہاں رات ہے اور چین میں سورج نکلا ہوا ہے،
یہی حال چاند کا بھی ہے، اس کا آدھا حصہ جو سورج کی طرف ہے وہ روشن ہوتا ہے اور دوسرا آدھا جو سورج کے مقابل نہیں وہ تاریک ہوتا ہے، پس آدھا روشن اور آدھا غیر روشن ہونے میں چاند اور زمین یکساں ہیں، اور جب ہم چاند کو زمین سے دیکھیں اور اس کا روشن حصہ نظر نہ آئے تو اس کا نام مُحاق ہے،
پھر جب ہمارے دیکھنے کا زاویہ بدلتا ہے تو چاند کے روشن حصہ کا ایک کنارہ ہمیں نظر آتا ہے، یہ ہلال ہے،
پھر جوں جوں زاویہ بدلتا رہتا ہے ہر دن کا چاند بڑا ہوتا رہتا ہے ، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ چاند زمین اور سورج کے بیچ میں آ جاتا ہے ، پس چاند کا آدھا روشن حصہ دوسری طرف ہو جاتا ہے اور ہماری طرف تاریک والا حصہ ہو جاتا ہے ، یہ زمانہ محاق کہلاتا ہے،
پھر جب چاند مشرق کی طرف ہٹتا ہے اور سورج کے تقابل سے نکل جاتا ہے تو قمر جدید کہلاتا ہے ، لیکن ابھی اس کا زاویہ اتنا باریک ہوتا ہے کہ زمین سے اس کے دیکھنے کا امکان نہیں ہوتا ،جب چاند سورج سے کم از کم سولہ ڈگری پیچھے ہو جائے تب زمین سے دیکھنے کے قابل ہو تا ہے اور کھجور کی ٹہنی کی طرح نظر آتا ہے۔
غرض قمر جدید کا اعتبار کر لیں تو پوری دنیا کی تاریخ ایک ہو جائے گی، توحید اہلہ کی یہی صورت ہے، یہ تجویز رابطہ کے اجلاس میں پیش ہوئی مگر دنیا کے تمام علماء نے اس کو نامنظور کر دیا۔
اسلام سے پہلے جب عرب حج کا احرام باندھتے تھے تو دروازہ سے گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے اور گھر میں آنا ضروری ہے، پس وہ پچھلے دروازے سے گھر میں آتے تھے اور وہیں سے نکلتے بھی تھے ، جیسے یہود کے یہاں سنیچر کو کوئی کام نہیں کر سکتے، لائٹ اگر کھلی ہے اور سنیچر شروع ہو گیا تو اب اس کو بند نہیں کر سکتے، بند ہے اور سنیچر شروع ہو گیا تو اب اس کو کھول نہیں سکتے ، لیکن کرتے سب کام ہے ، کرتے کیا ہیں ؟ سڑک سے کسی مسلمان کو پکڑ لاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں: ذرا بٹن آن کر دو، یہ کیا دین پر عمل ہوا ؟ یہ تو اللہ کو دھوکہ دینا ہوا، ایسا ہی حیلہ انہوں نے پرانے زمانہ میں مچھلیوں کے تعلق سے کیا تھا ، بہرحال جیسا یہ یہودی کرتے ہیں ایسا ہی عرب بھی کرتے تھے کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد سامنے کے دروازے سے گھر میں نہیں آتے تھے، پیچھے سیڑھی لگا کر گھر میں آتے تھے،
قرآن نے کہا:
(وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوْا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا)
یہ کونسا نیکی کا کام ہے کہ تم گھروں میں پچھواڑے سے آؤ
(وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی) بلکہ نیکی کا کام یہ ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل کرو اس کے حکم کی خلاف ورزی مت کرو۔
اللہ سے ڈر نے کا مطلباور اللہ سے ڈرنا ایسا ڈرنا نہیں جیسے سانپ سے، شیر سے اور دشمن سے ڈرتے ہیں، اللہ تو وہ ذات ہے جس سے محبت کرنی ہے، بلکہ اللہ سے ڈرنے مطلب یہ ہے کہ جیسے اطاعت شعار بیٹا باپ سے ڈرتا ہے ، مخلص طالب علم استاذ سے ڈرتا ہے۔ اللہ سے ڈرنا ایسے ہے کہ مومن بندے کو کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ جس سے اللہ ناراض ہو جائیں، قرآن و حدیث میں جہاں جہاں آتا ہے کہ اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، اس کا یہی مطلب ہے ۔
غرض قرآن نے مشرکین سے کہا : ( وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی) نیکی کا کام یہ ہے کہ تم اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے ڈرو، اگر اللہ نے یہ حکم دیا ہو کہ احرام باندھنے کے بعد گھر میں مت جاؤ تویہ کیا بات ہو ئی کہ دروازے سے نہیں گئے، پیچھے سے گھس گئے
(وَأْتُوْا الْبُیُوْتَ مِنْ أَبْوَابِہَا)
گھروں میں ان کے دروا زوں سے آؤ ،
یعنی شریعت کا یہ حکم نہیں ہے کہ احرام باندھنے کے بعد گھر میں نہیں آ سکتے ، یہ تو تم نے خود گھڑ لیا ہے ،
(وَاتَّقُوْا اللّٰہَ)
اور اللہ سے ڈرو ،
یعنی اللہ نے جو احکام دیئے ہیں ان کی خلاف ورزی مت کرو ، اللہ نے کہا ہے : احرام میں ٹوپی مت پہنو، مت پہنو ، اللہ نے کہا ہے : احرام میں پگڑی مت باند ھو، مت با ندھو ، اللہ نے جو احکام دیئے ہیں اس پر عمل کرو اپنی طرف سے کچھ مت بڑھاؤ،
(لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ)
تاکہ تم کامیاب ہوؤ،
مومن کی کامیابی اللہ کے احکام کی اطاعت میں ہے اپنی طرف سے احکام تجویز کرنے میں نہیں ہے۔
ربط مضامین
اور آیت میں مذکور دونوں مضمون میں نے آپ حضرات کو سمجھا دئیے، میرے بھائیو! آپ اس پر غور کریں کہ ان دونوں مضمونوں میں جوڑ کیا ہے؟
پہلا مضمون یہ ہے کہ مہینہ کے نئے چاند تمام لوگوں کے لئے الگ الگ اوقات مقرر کریں گے اور حج کے لئے ایک وقت مقرر کریں گے، اور دوسرا مضمون یہ ہے کہ اللہ نے جو احکام دئے ہیں ان کی خلاف ورزی مت کرو ، نہ اپنی طرف سے کسی حکم کا اضافہ کرو ، یہی برو تقویٰ ہے ، کامیابی کا راز اسی میں ہے ، اپنی طرف سے نئے نئے شوشے چھوڑنا کہ اب تو ہم بڑے ماہر ہو گئے ہیں، حساب کتاب جاننے لگے ہیں ، اب آنکھ سے چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں، اب ہم ہیلی کاپٹر میں اڑکر جائیں گے اور اوپر جا کر چاند دیکھیں گے ، دور بینوں سے چاند دیکھیں گے ، یہ کریں گے وہ کریں گے ، ارے بھائی یہ سب باتیں چھوڑو اور جو اللہ کا حکم ہے اس پر عمل کرو، کامیابی اسی میں ہے۔
وآخردعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین
آپ کی راۓ