وہ صداقتوں کے امین تھے ، تو ذلیل مصر و حجاز میں ” غزل "
انصر نیپالی
!اٹھو عظمتوں کو سنوار دو ترا عہد ہے تگ وتاز میں
ترے پاس علم و یقین ہے ، تو ہی حق ہے عالم مجاز میں
نہ قرآن پڑھنے کی عادتیں، نہ بصیرتیں، نہ عز یمتیں
تمہیں دین کیسے نصیب ہو، ترا سر ہو کسے فراز میں؟
کہا ں مسجدوں میں اذان ہے، کہاں مدرسوں میں قرآن ہے؟
نہ خودی کی ہے کوئی تربیت، نہ ہے گرمی سوز و گداز میں
نہ ہی نیتوں میں خلوص ہے، نہ امید اجر و ثواب ہے
نہ دلوں میں اذن حضور ہے ، کیوں جھکائے سر ہے نماذ میں ؟
کہآں لٹ گئیں تری عظمتیں ، کہاں مر گئیں تری غیرتیں ؟
وہ صداقتوں کے امین تھے، تو ذلیل مصر و حجاز میں
نہ اداؤ ن میں رہی شوخیاں، نہ جوانیاں ، نہ وہ گرمیاں
نہ کشش ہے حسن و شباب میں ، نہ وہ خم ہے زلف دراز میں
!یا الہی فکر و شعور دے ، تو دلیل راہ نجات دے
نہ خرد ہے انصر حیات میں، نہ یہ دل ہے مدحت طراز میں
آپ کی راۓ