بٹ کے دو پاٹ میں ساحل کوئی ہوتا جائے
اور انجام سے غافل کوئی ہوتا جائے
حسن کی گود میں اب عشق بھی پروان چڑھے
جاں کبھی اور جگر دل کوئی ہوتا جائے
فرط و جذبات میں لب کو مرے لب پر رکھ کر
یوں مری ذات میں شامل کوئی ہوتا جائے
میرا سینہ تو ہے اک غارِ حرا کے مانند
وحی کی طرح سے نازل کوئی ہوتا جائے
ملنا جلنا تو تبرک بھی ثوابوں سا لگے
پھر عذابوں کا مماثل کوئی ہوتا جائے
مدبھرے نین میں کاجل کو لگا کر ثاقب
آج کل شہر میں قاتل کوئی ہوتا جائے
آپ کی راۓ