ایک تاریخی و اسلامی ریاست میں نسوانی انقلاب: یوجیاکارتا کا اگلا سلطان کون؟

3 جون, 2018

انڈونیشا کے جزیرے جاوا کے شہر یوجیاکارتا کے سلطان سیاسی اور روحانی طاقت ور شحصیت ہیں۔ جب انھوں نے اپنی بڑی بیٹی کو اپنا جانشین بنانے کی کوشش کی تو وہاں جھگڑے شروع ہو گئے۔ بی بی سی انڈونیشیا کی ایڈیٹر ریبیکا ہینسکے نے محل کا دورہ کر کے اس بارے میں تفصیلات جاننے کی کوشش کی۔

’یوجیاکارتا میں نسل در نسل آنے والے سلطان بظاہر وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں کو اپناتے ہیں۔‘

یہ کہنا تھا ویڈونو بیمو گوریتنو کا۔ وہ وہاں کی شاہی دربار کے 1500 ارکان میں سے ایک ہیں۔ ایک روایتی خنجر دھوتی جیسے ان کے علاقائی لباس کے ساتھ منسلک تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ماضی میں سلطان کے لیے شہزادے کا انتخاب کرنا مشکل نہیں تھا کیونکہ ان کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی تھیں۔ جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ جاوا گھرانوں میں اصل طاقت عورتوں کے پاس ہی ہوتی ہے۔

شاہی محل میں جانے کے لیے لازمی عمل کے طور پر مجھے روایتی لباس پہنایا گیا اور ایک گھنٹے تک برتاؤ اور طرزِ عمل کی تربیت دی گئی۔ میرے بال اونچے روایتی جُوڑے ’سنگل‘ میں باندھے گئے۔

اس محل میں درختوں کے مقام اور شاہی دربار میں ہونے والی حرکات کا کوئی نہ کوئی مطلب ہوتا ہے۔

جاوا کی تہذیب میں چیزیں براہ راست نہیں کہی جاتیں بلکہ انھیں اشاروں کنایوں سے بیان کیا جاتا ہے۔

سلطان اب 72 سال کے ہیں اور انھوں نے حال ہی میں اپنا خطاب تبدیل کیا ہے جو صنفی پابندی سے آزاد ہے اور انھوں نے اپنی سب سے بڑے بیٹی کو نیا نام ’جستی کنجیگ راتو منگکوبومی‘ دیا جس کا مطلب ہے ’وہ جس کا زمین پر اختیار ہو۔‘

یہ اس بات کا بھی اشارہ تھا کہ وقت آنے پر وہ تحت سنبھالنے کو تیار ہیں۔

جب میں نے کہا کہ ان کے خطاب میں کافی ذمہ داریاں پوشیدہ ہیں تو شہزدای ہنس دیں۔

ان کا کہنا تھا: ’جیسا کہ سب گھرانوں میں ہوتا ہے مجھ پر بھی بہنوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے کافی ذمہ داریاں ہیں۔ لیکن مستقبل میں کیا ہو گا اس کا فیصلہ میرے والد کریں گے۔‘

وہ اپنی جانشینی کے بارے میں کم ہی بات کرتی ہیں اور محتاط الفاظ استعمال کرتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’میری پرورش کے دوران سکھایا گیا کہ ایسے خواب نہ دیکھوں جو خوشگوار زندگی سے باہر کے ہوں۔‘

’آچے میں بھی ملکہ رہی ہیں اور دیگر اسلامی ریاستوں میں بھی۔ میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گی۔‘

ن کی چھوٹی بہن جستی کنجینگ راتو ہائیو نسبتاً زیادہ نڈر ہیں اور وہ شہزدای کو دیے جانے والے اختیارات پر بات کرتی ہیں۔

ان تمام بہنوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا بھیجا گیا اور اب وہ محل میں ان مختلف عہدوں پر کام کرتی ہیں جو کبھی صرف مردوں ہی کے پاس ہوا کرتے تھے۔

انھوں نے شستہ انگلش میں بولتے ہوئے کہا: ’میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میرے والدین ایسے ہیں جنھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ عورت کا کام نہیں ہے۔‘

انھوں نے ہنستے ہوئے بتایا: ’کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی لیکن سلطان کہتے ہیں کہ آپ کو یہ سب قبول کرنا ہو گا۔‘

’ایک مرد کا یہ کہنا بہت اہم ہے کہ اب عورت کا محض گھر بیٹھنے کا وقت نہیں رہا۔‘

’بے دخلی کی دھمکی

سلطان کے بہن بھائی ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ وہ سلطان سے ناراض ہیں اور ان سے بات نہیں کرتے اور نہ شاہی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں۔

پرابوکوسومی کا ہنستے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہم ایک اسلامی شاہی خاندان ہیں اور یہ خطاب صرف مرد کے لیے ہے۔ ہم اسے کیا کہیں گے۔ سلطانی؟ یہ ناممکن ہے۔‘

جاوا کی بادشاہت 16ویں صدی عیسوی تک پھیلی ہوئی ہے اور چونکہ انڈونیشیا کی اکثریت کی طرح یہ بھی مسلمان ہیں اس لیے ان کی روایات صوفیانہ طرز کی ہیں۔ تصوف جو کہ ہندومت، بودھ مت اور روحانیت کا امتزاج ہے۔

یہاں روایت ہے کہ یوجیاکارتا کا سلطان کنجینگ راتو لورو کِڈل نامی دیوی کو اپنی عارفانہ بیوی تصور کرتے ہیں۔

سلطان کے دوسرے بھائی یدانینگرت نے وضاحت کی کہ ’سلطان اور بحیرۂ جنوبی کی ملکہ کے درمیان عہد تحریر کیا جاتا ہے کہ وہ دونوں مل کر یہاں حکومت کریں گے اور امن قائم رکھیں گے۔‘

ہر سال بادشاہ کے تراشے ہوئے ناخن اور بال سمندر کی دیوی کو پیش کیے جاتے ہیں۔ یہی چیزیں کوہِ میراپی کے دیو کو بھی پیش کی جاتی ہیں جو انڈونشیا کا سب سے متحرک آتش فشاں پہاڑ ہے اور یہ شہر سے دکھائی دیتا ہے۔

ہ نذارانے اور روحانی ملاپ اس بات کی یقین دہانی کے لیے ہوتا ہے۔ لوگوں کی سلامتی اور تحفظ کے لیے ایک طرف آتش فشاں، وسط میں محل اور دوسری طرف موجود سمندر کے درمیان ایک مقدس توازن قائم رہے۔

محل کے باہر موجود ایک ٹوور گائیڈ آگس سوانتو کا سوال تھا کہ ’اگر دو ملکائیں ہوں گی تو کیا ہو گا؟ وہ ایک ساتھ کیسے رہ سکتی ہیں؟ مجھے نہیں لگتا ایسا ہو سکتا ہے۔‘

جو یہی سوال میں نے شاہی گائیڈ ویڈونو بیمو گوریتنو سے پوچھا تو ان کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا: ’یہ ایک اچھا سوال اور نکتہ ہے۔‘

سلطان کا کام جنوبی بحیرہ کی دیوی اور آتش فشاں کے دیو کے درمیان توازن قائم رکھنا ہے۔ کچھ لوگ لاوے کے دیو کے بارے میں بھول جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سلطان یوجیاکارتا کے لیے کوئی دانش مند فیصلہ ہی کریں گے۔‘

چیلنجنگ دور

یوجیاکارتا کے سلطان کو شہر کے گورنر کی حیثیت سے اراضی سے متعلق بھی فیصلہ کرنے ہوتے ہیں۔

انڈونیشیا کی آزادی کے بعد کولونیئیل ڈچ حکمرانوں کے خلاف جنگ میں ان کے کردار کے عوض جکارتہ نے یوجیاکارتا کے شاہی خاندان کے اختیارات قائم رہنے دیے۔

اس لیے انڈونیشیا میں یوجیاکارتا وہ واحد جگہ ہے جہاں لوگ اپنا رہنما براہِ راست منتخب نہیں کرتے۔ سنہ 2010 میں جکارتہ کی جانب سے اس نظام کو بدلنے کے مشورے پر یہاں کافی احتجاج ہوئے جس پر مرکزی حکومت پیچھے ہٹ گئی۔

صوفیانہ اسلام

جاوا کے اس نادر اور صوفیانہ طرز اسلام کے لیے یہ چیلینجنگ وقت ہے۔

بتوں کی پوچا کرنا یا ایک سے زائد خداوں پر یقین رکھا اسلام کے وہابی فرقے کے عقائد سے متصادم ہے جو اس وقت جاوا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔

شہزادی جستی ہائیو کا کہنا ہے: ’میں محل کا سوشل میڈیا صفحہ چلاتی ہوں اور میں کئی بنیاد پرست خیالات دیکھتی ہوں۔‘

’لیکن ہماری پاس ان روایات کو جاری رکھنے کی وجوہات ہیں۔ جو ہم کر رہے ہیں جو شاید قران کی تعلیمات کے مطابق نہیں لیکن ہم بھٹکے ہوئے نہیں ہیں اور نہ ہم عجیب چیزیں کرتے ہیں،‘ وہ ہنستے ہوئے بولیں۔

یہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ یہاں گھومتے پھرتے مشرقِ وسطیٰ جیسا ماحول پائیں گے یا ہم بہت مذہبی باتیں کریں گے۔ اسلام ہمارے روز مرہ معمولات میں جھلکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے شاہی خاندان فخر سے صوفیانہ انداز اپنائے ہوئے تھے۔

’اس لیے نوجوان نسلیں انھیں ختم نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ اس طرح ہم کھوئی ہوئی ثقافتی پہچان واپس نہیں لا سکیں گے۔‘

اس کے باوجود کے نوجوان مسلمان خواتین میں اس کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے تاہم محل میں سر ڈھانپنا یا حجاب کرنے کی اجازت نہیں۔

ملکہ جستی کنجینگ راتو ہیمس کا کہنا ہے: ’بہت سی خواتین رسومات میں شرکت کے لیے محل آتی ہیں تو اپنے سر کا سکارف رضا کارانہ طور پر اتار دیتی ہیں اور باہر جاتے ہوئے دوبارہ لے لیتی ہیں۔‘

’یہ مذہب کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ آپ کی تہذیب و ثقافت کو بچانے کی بات ہے اور معاشرہ اسے سمجھتا ہے۔ اور سلطان تمام مذاہب سے بالاتر ہیں۔‘

لیکن دورِ حاضر کے انڈونیشیا میں یہ کافی اشتعال انگیز موقف ہے۔

حال ہی میں انڈونیشیا کے پہلے صدر کی بیٹی سکارنو سکماواستی کے خلاف توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا گیا اور ان سے معافی منگوائی گئی کیونکہ انھوں نے ایک نظم میں لکھا کہ جاوا کا روایتی بالوں کا جوڑا اسلامی چادر سے زیادہ خوبصورت ہے۔

سلطان کا دیگر خاندان ملکہ جو کہ قومی پارلیمان کی رکن بھی ہیں پر بغاوت کی رہنمائی کا الزام عائد کرتا ہے۔

ملکہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کی پرورش ایسے کی کہ وہ خودمختار ہوں اور یہ یقین رکھیں کہ وہ مردوں کے برابر ہیں۔

’جب میری بیٹیاں 16 سال کی ہوئیں تو میں نے بتایا کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھیں محل سے نکل کر دنیا میں جانا ہے اور جو کچھ سیکھیں واپس محل لے کر آنا ہے۔‘

میں نے پوچھا: ’یہ قیادت کے لیے ان کی شخصی تربیت تھی؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ سلطان کے ہاتھ میں ہے۔‘

’لیکن ہاں، جانشینی خاندان میں ہی ہو گی اس کے لیے آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تبدیلی کے وقت ہمیشہ ہی تنازع اور طاقت کے حصول کی جنگ ہوتی ہے۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter