قر آن پہ غبار ہے ، کتاب ڈھونڈتا ہوں میں، غزل
قر آن پہ غبار ہے کتاب ڈھونڈتا یوں میں
نماز بے شعور کا ثواب ڈھونڈتا ہوں میں
نہ مدرسوں میں تربیت نہ علم وفن کی معرفت
جو زندگی سنوار دے نصاب ڈھونڈتا ہوں میں
کہاں گئیں وہ عظمتیں ،صداقتیں ، امانتیں؟
کہاں ہے وہ زمانہ وہ شباب ڈھونڈتا ہوں میں؟
کہاں سے لاؤں روشنی ، حیات میں ہے تیرگی؟
بدل دے جو شعور کو وہ باب ڈھونڈتا ہوں
میں یہ مانا میرے پاس ہے کمال علم و آگہی
منافقوں کے شہر میں خطاب ڈھونڈتا ہوں میں
سسک رہیں ہیں عصمتیں ، ہے تار تار پیرہن
عرب تری نگاہ میں حجاب ڈھونڈتا ہوں میں
وہ سرخ لب کے تذکرے نہ پوچھ انصر حزیں
پلادے اپنی آنکھ سے شراب ڈھونڈتا ہوں ہیں
کاوش فکر :انصر نیپالی
آپ کی راۓ