تحریر: ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
راشد غنوشی اخوانیوں کے اندر ایک معروف شخصیت ہے۔ بر اعظم افریقہ کے ایک ملک ٹیونس کے رہنے والے ہیں۔ خود فرانس میں کئی سال رہ کر وہاں کی آزادی کو دیکھا وہاں مزید تعلیم حاصل کی اور وہاں کی آزادی کو سراہا بھی۔ اور اپنے تقریباً سارے بچوں کو تعلیم وتربیت کے لئے فرانس وبرطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ہی میں بھیجا۔ اخوانیوں کی مشہور سیاسی پارٹی (حرکۃ النھضۃ) کے صدر ہیں۔ اخوانیوں کی مذہبی عالمی تنظیم (الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین) کے نائب صدر ہیں۔ (یہ وہی تنظیم ہے جو رابطہ عالم اسلامی کی مخالفت میں بنائی گئی ہے جسکا ہیڈ کوارٹر قطر میں ہے۔ جس روح رواں تحریکیوں کے روحانی پیشوا یوسف قرضاوی ہیں)، بر اعظم افریقہ میں امور عامہ برائے تنظیم اخوان المسلمین کے نگران ہیں۔
اخوانیت کے اندر اتنے بڑے ذمیدار ہوکر اپنے ملک کے حکمرانوں کے خلاف نہ ہوں ایسا ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ ملکی بغاوت، خروج اور تختہ پلٹنے کی سازش کے جرم میں کئی بار جیل جا چکے ہیں۔ ملک بدر بھی کئے گئے ہیں اور عمر قید کی سزا بھی مل چکی ہے۔
💥2011 کی عرب فسادیہ ٹیونس ہی سے شروع ہوئی تھی اور اسلام کے نام پر زین العابدین بن علی کی شاہی حکومت کو ختم کر کے اخوانیوں نے سیکولر پارٹیوں کی مدد سے مغربی طرز والی جمہوری نظام حکومت قائم کر دی۔ جس میں پارلیمنٹ ہی کو انہوں نے قانون ساز مانا۔ اور جہاں ہر طرح کے افکار و نظریات کے حاملین کے حقوق کی پاسداری کی گئی۔ آزادی رائے، آزادی اخلاق بلکہ ہر طرح کی آزادی فکر ودین کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ اور راشد غنوشی جیسے اخوانی تحریکی نے سب سے آگے بڑھکر ایسے بد دینوں اور ملحدوں کا ساتھ دیا۔
💥اردگان کی طرح غنوشی نے بھی ہم جنس پرستی کا ساتھ دیا اور اسے قانوناً جرم قرار دینے کی کھل کر مخالفت کی اور کہا: "كل شخص لديه ميولات يجب احترامها ولا يمكن أبدا التجسس على الناس في بيوتهم مضيفا، كل مسؤول امام ربه”.
ترجمہ: ہر شخص کے اپنے خواہشات اور رجحانات ہوتے ہیں جن کا احترام ضروری ہے۔ ہر ایک کے گھر میں گھس کر تجسس کرنا صحیح نہیں ہے ہر ایک شخص اپنے رب کے سامنے جوابدہ ہوگا۔
زنا کاری اور جسم فروشی کو بڑھاوا دیتے ہوئے مشورہ دیا: "هنالك وسائل لمنع الحمل. وأن الإجهاض في الأشهر الأولى ممكن قبل ان يتطور الجنين وذلك برعاية طبية وموافقة قانونية.”
ترجمہ: منع حمل کے بہت سارے وسائل ہیں انہیں اختیار کیا جائے، اور اگر حمل ٹھہر ہی جائے تو پوری طرح طبی جانچ اور قانونی موافقت کے ساتھ ابتدائی مہینوں ہی میں اسقاط حمل کرا لیا جائے۔
نیز طالبان کی حکومت کے بارے میں سوال کیا گیا تو کہا کہ یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں اور یہ اس سے کوسوں دور ہیں بلکہ یہ پچھڑے ہوئے ماحول میں جی رہے ہیں۔ "وصف الغنوشي حركة طالبان بانها عدوة للإسلام وهي بعيدة عنه وتعيش في بيئة متخلفة.” تفصیل اس ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں:
https://www.google.co.in/…/mo…/rttdetail-amp.php%3fid=102789
گویا اس اخوانی کے نزدیک ہم جنس پرستی، لواطت، زنا کاری، جسم فروشی اور ننگاپن کا نام ترقی یافتہ ماحول ہے جس سے طالبان کوسوں دور ہیں۔
💥اپنے فسق وفجور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک قدم اور آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ ڈالا کہ ہر شخص اپنی خواہشات میں آزاد ہے ۔ ہم جنس پرست بھی انسان ہے اسکی خواہش کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے بلکہ ان کیلئے ایسے قوانین بنانا چاہیے جن سے ان کو تحفظ مل سکے۔ دیکھیں اسکا یہ بیان جس کے اندر یہ شخص اسلام پر بھی تہمت لگانے سے باز نہیں آیا:
((إن الإسلام يحترم خصوصيات الأشخاص ولا يتجسس عليهم، معتبرًا أن كل شخص حر في ميولاته، ومن واجب المشرع إيجاد حل لهذه الفئة المهمشة، فالمثلي إنسان ومواطن بدرجة أولى، ومن يجب أن توضع قوانين تحميه وتنظم علاقاته الجنسية التي تبدو لكثيرين غير منطقية، ولكنها موجودة ويجب أن نتأقلم معها.))
💥راشد غنوشی کے علاوہ اخوانی پارٹی ہی کے ایک ممبر سمیر دیلو نے بھی ہم جنس پرستوں کے حقوق کا دفاع کیا ہے۔ اور کہا کہ انکے لئے ٹیونس میں ایسے قانون بنائے جائیں گے جس سے انہیں تحفظ ملے گا جس طرح دوسرے جمہوری ملکوں میں انھیں تحفظ حاصل ہے۔ بلکہ اخبار کے مطابق اکثر اخوانی ہم جنس پرستوں کے حق میں ہیں۔ اخبار کہتا ہے:
((وكان سمير ديلو، عضو مجلس نواب الشعب في تونس، عن حركة النهضة، دافع عن المثليين في تصريح له لجريدة لوموند الفرنسية، والذي شدد على أنه سيناضل من أجل أن يكون لهم قوانين تحميهم في تونس اقتداء بأغلب الدول الديمقراطية.
وكانت عناصر الإخوان وقيادات التنظيم المصريين، الهاربين إلى بريطانيا، أكدوا في واحد من مؤتمراتهم في إنجلترا، مؤخرًا، أنهم يحترمون حقوق المثليين.))
http://www.elyomnew.com/news/world/2015/04/06/14538
💥غنوشی نے اپنے ایک خطاب میں یہ بھی کہا کہ حکومت اگر پردے کو قانوناً جرم قرار دیدے تو عورتوں کو قانون کی پاسداری کرتے ہوئے پردے کو اتار دینا چاہیے۔
انہیں سارے افکار و نظریات اور اسلام مخالف خیالات کی وجہ سے کچھ لوگوں نے غنوشی کی تکفیر کر ڈالی ہے۔ اسکے لئے تفصیل دیکھیں اس ویب سائٹ پر:
https://www.elsaba7.com/details/136356
💥حد تو یہ ہے کہ راشد غنوشی نے "نرمین صفر” جیسی اباحیت پسند فاسقہ، بے حیائی کا پیکر اور بدنام زمانہ ماڈل اور فنکارہ کے ساتھ ملکر تصویر لینے میں فخر محسوس کیا جسے ٹیونس میں انڈیا کی راکھی ساونت کہہ سکتے ہیں، اور (لجنۃ الحریات والمساواۃ) کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی جس کا ذمیدار ایک اباحیت پسند عورت بشری بالحاج حمیدہ کو بنایا گیا جسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جو چاہے آزادی ومساوات کے نام پر عورتوں کے لئے قانون بنائے۔ اور یہی وہ عورت ہے جس نے لجنۃ الکفر والالحاد کے نام سے ایک الگ کمیٹی بنا کر کفر والحاد پر کام شروع کیا ہے۔ پوری تفصیل ان دونوں ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں:
http://www.elaosboa.com/show.asp?id=269556&page=motabat
https://www.google.co.in/…/www.alma…/news/detailsamp/1301458
💥مذکورہ دونوں ویب سائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ راشد غنوشی کے مشورے سے 2014 میں جس کمیٹی کی تشکیل دی گئی بشری بلحاج کی سربراہی میں آج اس کے ذریعے درج ذیل مطالبات صدر مملکت کے پاس پیش کئے گئے ہیں جو شرعی قوانین کے صریح مخالف ہیں لیکن اخوانیوں کی پارٹی نھضہ نے کھل کر اسکی موافقت کی ہے:
1- مرد عورت کی میراث میں مساوات۔
2- سزائے موت کا خاتمہ۔
3- ہم جنس پرستی کو جرم نہ ماننا اور اسے قانونی طور پر تحفظ ملنا۔
4- طلاق اور شوہروں کی وفات کی عدت کی مدت کا خاتمہ، اسی طرح شوہر کی گمشدگی کی مدت کا بھی خاتمہ۔ چنانچہ عورت اپنی مرضی سے کبھی بھی دوبارہ شادی کرنے کا مجاز ہوگی۔
5- مسلم لڑکی کو غیر مسلم لڑکے سے شادی کرنے کا اختیار ہوگا۔
6- مرد کی قوامیت کا خاتمہ۔
7- عورت کیلئے شرعی طور پر مستحق نان ونفقہ کا انکار۔
👈نوٹ:
اخوانیت کے اتنے بڑے بڑے ذمیداروں کا جب یہ حال ہے تو چھوٹے چھوٹے شوربوں کا کیا حشر ہوگا! کیا ان لوگوں سے اسلامی شریعت کے نفاذ کی کچھ بھی امید کی جا سکتی ہے؟! چار سال ٹیونس میں اخوانیوں نے حکومت کی کونسا اسلام نافذ کر دیا؟! ہاں انہوں نے اپنے دور حکومت میں ہر طرح کے لوگوں کو چھوٹ دی۔ آزادی فکر اور جمہوریت کے نام پر ٹیونس میں ہر طرح سے اباحیت، الحاد، کفر وشرک اور رفض وتشیع خوب پھلا پھولا۔ نیز اسلام مخالف افکار و نظریات نے ملک میں اپنی جڑوں کو خوب مضبوط کیا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان منافقین سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے آمین۔
آپ کی راۓ