*ایک غزل ساون کے نام *
صحرا صحرا پھول کھلے ہیں ساون کی رت آئی ہے
کھیتوں کے ارمان جگے ہیں ساون کی رت آئی ہے
جنگل میں کوئل کی کو ہے ، باغوں میں چڑیوں کا شور
رنگ برنگی مور نچے ہیں ساون کی رت آئی ہے
بھیگی بھیگی صبح ہماری ، اجلی اجلی شام
دھول کے ذرے مہک ا ٹھے ہیں ساون کی رت آئی ہے
ہوا کے جھونکے ، دھوپ کی خوشبو ، رم جھم رم جھم بارش
جھرنے ،ندیاں مچل پڑے ہیں ساون کی رت آئی ہے
ڈالی ڈالی جھول رہے ہیں ، پچے سارے ناچ رہے ہیں
ہونٹوں پہ مسکان سجے ہیں ساون کی رت آئی ہے
بارش اللہ کی رحمت ہے ، قدر کرو اس نعمت کی
ننھے منے پود اگے ہیں ساون کی رت آئی ہے
ساون بھادوں کہہ کر روتی ، گیت جدائی کا گاتی ہے
بلم ہمارے دور بسے ہیں ساون کی رت آئی ہے
انصر بھائی سے مت کہنا ساون کی رت مستانی ہے
سرخ لبوں کے پیاس بجھے ہیں ساون کی رت آئی ہے
نصیر محمد انصر نیپالی
آپ کی راۓ