کاٹھمنڈو : 14 جولائی (کیئر خبر)
آج کیئر فاؤندیشن کے زیر اہتمام کیئر ہیومن رائٹس اور کیئر ایڈو کی کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں آیی ۔ مجلس کا آغاز تلاوت کلام اللہ کے ذریعہ ہوا ، تلاوت کلام مولانا عبد الصبور ندوی نے کیا۔ اس کے بعد کیئر فاؤنڈیشن کے شعبہ تعلیم کے سربراہ اختر حسین نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے مسلکی مناہج سے اوپر اٹھ کرکام کرنے پر زور دیا ۔ ساتھ انہوں نے ترقی کے لئے مسلمانوں کو حکومت میں شمولیت وقت کی ضرورت بتایا اور اس کو پروان چڑھانے کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری قرار دیا۔نئی نوجوان نسل کو امپاور کرنا کیئر فاؤنڈیشن کی قیام کا مقصد ہے۔اس کے تحت چلنے والا شاخ تعلیمی شعبہ کے طالب علموں وظیفہ کےذریعہ ان کی حوصلہ افزائی پر زور دیا۔
اس سے قبل فاونڈیشن کے صدر عبد المبین خان نے فاونڈیشن کا تفصیلی تعارف کرایا اور استقبالیہ پیش کیا ؛ چیف گیسٹ محترمہ موہنا انصاری کو دوشالہ اوڑھا کر ان کی تکریم کی ؛ اور پروگرام کی نظامت کا فریضہ انجام دیا
کیئرہیومن رائٹس کے ماجد پرویز نے انسانی حقوق کے متعلق اقوام متحدہ کا چارٹر اور اس کی تاریخ پیش کی ؛ فاونڈیشن کے جنرل سیکریٹری عبد الصبور ندوی نے اسلام؛انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے منشور کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا اور موجودہ ڈیکلریشن کی خامیوں کی نشاندھی کی
اس کے بعد انجینر ثناء اللہ خان نے قوم میں تمام کمییوں کی وجہ تعلیم کا فقدان بتایا ۔ جس کے پاس علم نہیں اس کے پاس حالات اور ملک کے قوانین کا علم نہیں ہوتا۔ یہ علم کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ جاہل رکن پارلیمان 5 سال گزار دیتے ہیں قوم کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں پہونچائے۔
این ڈی ایس کے صدر نظر الحسن فلاحی نے اپنے ملک کے علماء کرام کی عزت کرنے اور ان کی علم کی قدر کرنے پر زور دیتے ہوئے حقوق انسانی کےتعلق سے کہا کہ جو قرآن سے ٹکرائے وہ کچھ اور ہو سکتاہے لیکن ہیومن رائٹس نہیں ہو سکتا۔
اس کے بعد سنتوشی ساہ نے صرف اس بات کا ذکرکیاکہ ترقی کے میدان مرد ہی پیچھے ہیں تو بھلا عورتیں کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ لوک سیوا آیوگ کے امتحانات مقامی سطح پر ہوں۔
اس کے بعد فاونڈیشن کے نایب صدر سیاسی لیڈر سراج فاروقی نے اس فاؤنڈیشن کو بلا تفریق مسلک وملت سپورٹ کرنے پر زور دیا اور کہا کہ جس دن آپ کو یہ لگے کہ یہ ادارہ آپ کی ترجمانی کر رہا ہے سمجھ جائے کہ یہ ادارہ ترقی کر رہا ہے۔
اس کے بعد مولانا علاء الدین فلاحی نے تین باتوں کی طرف سامعین کی توجہ مبذول کی ، 1-کسی بھی کام کے خلوص ضروری ہے اور آپ کوئی بھی کام کرے تو خالص اللہ کی رضا کے لئے کرے۔2- نیکی کی کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرے اور گناہ کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کرے۔3- اللہ کی توحید کو غیر مسلم بھائیوں تک پہونچائے۔
سابق وزیر اقبال احمد شاہ نے کہا : موجودہ دستور میں ہمارے حقوق دوسرےطبقوں کی طرح نہیں بیان کئے گئے بلکہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ انہوں نے کیئر کے کاموں کو سراہا اور کہا کھ قوم کے رہنما اگر اچھے ہوں تو سارے معاملات اچھے ہوتے چلے جائیں گے۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اس مجلس کی مہمان خصوصی محترمہ موہنا انصاری صاحبہ ممبر ترجمان نیشنل انسانی حقوق کمیشن برائے نیپال نے مسلمانوں کے تمام مسائل میں ایک اہم مسئلہ غریبی کو بتایا۔ اورکہاکہ حکومت نے وظیفہ چند سالوں قبل سے شروع کیا ہے۔ غریبی کا واحد حل تعلیم ہے، لیکن ایک کسان غیر تعلیم یافتہ ہوتا ہے پھر بھی انسانوں کو فائدہ پہونچاتا ہے مطلب یہ ہے کہ تعلیم کاپی قلم کا نام نہیں۔انہوں نے بتایا کہ تمام مسلم تنظیموں کے آراء ایک نہیں ۔ لیکن کسی بھی طرح سے ملک کی ترقی میں حمایت کر رہے ہیں ۔مسلمانوں کو یہاں حکومت میں پہچان کے لئے پہلے پارٹی کی کا امین بننا پڑتا ہے۔ مسلم تنظیموں کو انہوں نے قوم کے حق میں آنے والے دستور اور انسانی حقوق کے ڈاٹا اپنے پاس رکھنے پر زور دیا۔
انہوں نے مسلم قوم کو اپنے قومی حقوق کے ساتھ اپنے اخلاقی ذمہ داری کو نبھانے پر زور دیا۔بلکہ انہوں نے کہا کہ مسلم قوم نےاپنی حقیقت اجاگر نہیں کیا۔اگر نیپال کی تاریخ میں ہماری کوئی پہچان نہیں ملتی تو پھر سے نئی تاریخ قائم کرے۔ بلکہ نیپال کے کرنسی کی آمد اور اس کی نقشہ سازی میں مسلمانوں کا نام آتا ہے۔
مسلم عورتوں کا لباس میانہ روی ہونا چاہئے لیکن انتخاب ان کا ذاتی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ طلاق کے تعلق سے عورتوں پر طلاق کا حق نہ ہونے کی بات کرتےہیں لیکن کوئی خلع کا تذکرہ نہیں کرتا۔ لہذا قرآن وحدیث کی صحیح تعلیم کو عام کرنے اور میڈیا تک پہونچانے کی ضرورت ہے۔انہوں نےکہاکہ حکومت سے شائع ہونے والے اعلانات کو مقامی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔
اس کے کیئر ہیمن رائٹس کے صدر حضرت علی صاحب آئے اور انہوں نے قرآن کی آیت کنتم خیر امۃ اخرجت للناس کے ترجمہ سے خطاب کرنا شروع کیا۔ یہ مسلم قوم کا طرہءامتیاز ہے کہ وہ بھلائی کی حکم دیتی اور برائی سےروکتی ہے۔ انہوں نےکہ ملک کے دفعہ 18 میں مسلمانوں کے حقوق کی بات کی گئی ہے مگر جب دینے کی بات آتی ہے تو ان کی شمولیت صفر کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ آپ لوگوں کی مدد چاہئے مجھے ذمہ داری دی گئی ہے تو کما حقہ نبھاؤں گا ۔ اس لئے ہم اس قوم سے جو پیٹھ پھیر کر بھاگنے والی نہیں بلکہ اندلس پر 9 سو سال حکومت کی ہے۔
اس مجلس میں کیئر ایڈو کی بنیاد رکھی گئی اور رضیہ بانو کو صدر اور عبد اللہ انصاری اور صبرین کونائب صدر ، محمد نعیم انصاری کو ناظم ، مہتاب عالم کو نائب ناظم اور شمشاد عادل کو ترجمان قائم کیا گیا۔ ان کے علاوہ 5 ارکان اور دو مشیر ہیں ۔
اسی طرح اس موقع پر کیئر ہیومن رائٹس کے ذمہ دارو ں کی تشکیل کی گئی صدر میں حضرت علی اور نائب صدر صلاح الدین ناظم محمد ماجد اور وغیر ہ ہیں ۔
اس موقع پر معززین کی بڑی تعداد موجود تھی ، انور علی شاہ ، ثناء اللہ خان ، اسحاق کھریل ، جلال الدین، محمد ماجد ، تاج محمد ، سراج فاروقی،عالم خان سنتوشی ساہ ، امتیاز وفا، عقیل احمد ،عالم خان سلام الدین میاں، ڈاکٹر مختار عالم ، اختر حسین، رضیہ بانو، افروز، قمر الحق، ابوالکلام ، ذاکر حسین، احسان خان، مولانا علاء الدین ، سہیم انصاری، عبد الکلام سیڈیو ، امتیاز عالم ، شمشاد عادل وغیرہ۔
آپ کی راۓ