انڈیا میں انسانی المیے پر بھی سیاست

شکیل اختر بی بی سی نامہ نگار، دلی

5 اگست, 2018

انڈیا کی ریاست آسام میں شہریوں اور غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کی شناخت کے لیے شہریوں کی فہرست کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ ابتدائی فہرست میں 40 لاکھ شہریوں کو شہریت سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔

فہرست تیار کرنے والے ادارے این آر سی کا کہنا ہے کہ یہ فہرست ابھی حتمی نہیں ہے اور ان بے دخل ہونے والے شہریوں کو اپنی شہریت کے دعوے کے ثبوت میں مزید دستاویزات یا وضاحتیں پیش کرنے کا ایک موقع اور دیا جائے گا لیکن اس فہرست سے آسام کے لاکھوں باشندوں کو باہر کرنے سے ریاست کے بنگالی نژاد لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا ہے۔

آسام ایک ایسی ریاست ہے جہاں مختلف نسلوں کے لوگ آباد ہیں۔ برطانوی دور میں مشرقی بنگال اور آزادی کے بعد مشرقی پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں بنگالی مسلم یہاں آ کر آباد ہوئے۔ سنہ 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد بڑی تعداد میں ہندو پناہ گزینوں نے یہاں پناہ لی اور بعد میں یہیں آباد ہو گئے۔

سنہ 1985 میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت 24 مارچ 1971 تک جو بھی ریاست میں سکونت پذیر تھا اسے ریاست کا شہری مانا جائے گا اور جو لوگ ریاست میں اس تاریخ کے بعد آئے انھیں غیر ملکی تصور کیا جائے گا۔

آسام میں مائیگریشن کے بارے میں جاننے والے اور بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ ریاست میں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن ضرور ہیں لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ اور جو بنگالی آباد ہیں وہ بیشترانڈین شہری ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر این آر سی نے ریاست کے شہریوں کی جو عبوری فہرست جاری کی ہے اس میں چالیس لاکھ باشندوں کو خارج کیوں کرنا پڑا؟

یہ فہرست سپریم کورٹ کی نگرانی میں بن رہی ہے۔ جن 40 لاکھ لوگوں کے نام فہرست میں نہیں آئے ہیں ان میں ہندو بھی شامل ہیں لیکن حکمراں بی جے پی پہلے ہی یہ وعدہ کر چکی ہے کہ وہ غیر قانونی ہندو بنگلہ دیشی تارکین وطن کو شہریت دے گی اور مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ اس کے لیے شہریت کا ایک ترمیمی بل پہلے ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جا چکا ہے۔

شہریوں کی فہرست ابھی تیاری کے درمیانی مرحلے میں ہے۔ آئندہ ہفتے سے لوگ یہ معلوم کر سکیں گے کہ ان کے نام فہرست میں کیوں نہیں آئے ہیں۔ 28 ستمبر تک وہ اپنا جواب داخل کر سکیں گے۔ حتمی فہرست اس کے بعد آئے گی۔

شہریت کی تفتیش کا عمل بہت پیچیدہ ہے اور اس سے بھی پیچیدہ لاکھوں ان پڑھ، ناخواندہ اور انتہائی افلاس زدہ لوگوں کے لیے ناموافق حالات میں اپنے آباوجداد کی رہائش کے 70-80 برس پرانے کاغذات حاصل کرنا ہے۔ آسام ایک زبردست انسانی بحران کی طرف بڑھ رہاہے۔

حکمراں بی جے پی اس انسانی المیے کو اپنی سیاسی فتح سے تعبیر کر رہی ہے۔ پارٹی کے صدر نے ایک نیوز کانفرنس میں اعلان کیا کہ جو 40 لاکھ باشندے فہرست میں نہیں آئے ہیں وہ سبھی غیر قانونی بنگلہ دیشی درانداز ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مٹھائی کھلا کر اس فہرست کی خوشی منائی۔

ریاست کی بنگالی نژاد آبادی خوف اور بے یقینی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ لاکھوں انسانوں کا مستقبل اور وجود داؤ پر لگا ہوا ہے۔ آئندہ چند مہینوں میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ وہ انڈین شہری ہیں یا برما کے روہنگیا کی طرح ان کا بھی کوئی وطن نہیں ہے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter