بھینس کی قربانی ؛ جائز یا ناجائز ؟ فقہ کی روشنی میں
حمود دریابادی بن عبد السمیع المدنی
شیخ الحدیث مولانا محمد جعفر انوارالحق الھندی بھینس کی قربانی کے متعلق فرماتے ہیں کہ ” بھینس کی قربانی درست نہیں ہے کیوں کہ اسکی قربانی کا ثبوت قرآن و سنت اور تعامل صحابہ میں موجود نہیں ہے اس لئے اس کی قربانی کرنا غلط ہے، قربانی ایک عبادت ہے اور عبادت کے لئیے دلیل چاہئیے بغیر دلیل کے عبادت ثابت نہ ہوگی اور چونکہ بھینس کی قربانی کے لئیے کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے شریعت میں بھینس کی قربانی درست نہ ہوگی”
قاعدہ ہے اَلْأَصْلُ فِي الْعِبَادَاتِ اَلْبُطْلَانُ حَتَّى يَقُومَ دَلِيْلٌ عَلَى الْأَمْرِ
شرعی نقطئہ نظر سے جب تک کسی عبادت کے متعلق کوئی دلیل نہیں مل جاتی تب تک کسی بھی قسم کی عبادت کرنا بدعت، باطل اور فاسد ہے
قارئین :- سورۃ الانعام 142/143/144 میں جن جانوروں کی قربانی کرنے کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے اس میں بھینس شامل ہی نہیں ہے تو پھر ہمیں اسکی قربانی کرنے کا حق کہاں سے مل گیا؟
اس کی مشروعیت کا ثبوت کہاں سے مل گیا؟
ہمیں اس کی قربانی کرنے کی اجازت کس نے دی؟
کیا ہمارا دین ساڑھے چودہ سو سال پہلے مکمل نہیں ہوا تھا؟
یا نعوذباللہ اب بھی مسئلوں کے ایاب و ذہاب کا سلسلہ جاری و ساری ہے؟
بعض حضرات لغویوں کے اس قول ” *اَلْجَامُْوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ*” کے بناء پر کہتے ہیں کہ بھینس کی قربانی جائز ہے
شیخ الحدیث (جامعہ اسلامیہ دریاباد) اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں
کہ ایسے لوگوں کو” اہل لغت کے ان اقوال پر بھی غور کرنا چاہئیے ” * وَ یُقَالُ اَلثَّوْرُ الْوَحْشِیُّ ” شَاۃً” (تہذیب اللغۃ 6/191
اور: وَ قِیْلَ اَلشَّاۃُ تَکُوْنُ مِنَ الْضَأْنِ وَالْمَعْزِ وَالظَّبَاءِ وَالْبَقَرِ وَالنِّعَامِ وَ حِمْرِالْوَحْشِ (تہذیب اللغۃ4/402-403)
اور: وَالْشَّاۃُ: اَلْوَاحِدَۃُ مِنَ الْغَنَمِ تَکُوْنُ لِلذَّکَرِ وَالْأُنْثىَ وَقِیْلَ: اَلْشَّاۃُ تَکُوْنُ مِنَ الضَّأْنِ وَالْمَعْزِ وَالظَّبَاءِ وَالْبَقَرِ وَالِّنعَامِ وَ حِمْرِالْوَحْشِ (لسان العرب لابن منظور 13/509”
تو اب یہ بتائیے کیا لغت کے اعتبار سے یہ کہا جائے گا کہ ہرن، اور نیل گائے، بھیڑیا، اور جنگلی گدھے شاۃ کی قسم میں داخل ہونے کی وجہ سے ان کی قربانی جائز ہوگی؟ ان کی قربانی کرنا مشروع ہوگا؟
نیز
کہتے ہیں :- کہ بھینس کی قربانی اس لئیے جائز ہے کیوں کہ وہ جگالی کرتی ہے
حضور جگالی تو Sheep ( بھیڑیا)،
🦌 (Deer ہرن)،
Red Deer( لال ہرن 🦌)
Domestik Sheep ( گھریلو بھیڑیا)
Zingo
Bongos
یہ سب بھی کرتے ہیں تو ان کی بھی قربانی کو مشروع قرار دے دیجئیے
اسی لئیے قاعدہ بنایا گیا کہ ” *لا قیاس مع النص*” قرآن و سنت کے ہوتے ہوئے عقل کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا، اگر عقل کا اعتبار کریں گے تو ایسی صورت میں اِن جانوروں کی قربانی کو بھی مشروع قرار دینا پڑے گا-
اور رہ گئی بات بھینس کے گوشت اور دودھ کو کھانے پینے کے ناطے قربانئی بھینس کے جواز کی
تو اس متعلق شیخ الحدیث (جامعہ اسلامیہ دریاباد) فرماتے ہیں کہ ” شریعت نے اس کو حرام قرار نہیں دیا ہے، اور ماکولات میں جسے شریعت نے حرام قرار نہیں کیا ہے وہ بالاتفاق حلال ہے کیوں کہ حدیث میں ہے
…….. اَلْحَلاَلُ مَا أَحَلَّ اللّهُ وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ (ابوداؤد :380)
بھینس کا گوشت کھانا اور اس کا دودھ پینا عبادت نہیں ہے کہ اس کے لئیے دلیل کی ضرورت ہو بلکہ اس کا تعلق معاملات سے ہے جس میں اصل یہ ہے کہ ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہو اس لئیے بلا شک و شبہ بھینس کا گوشت حلال و مباح ہے قاعدہ ہے وَالْأَصْلُ فِي الْعِبَادَاتِ اَلْمَنَعُ وَالتَّوْقِيْفُ؛ وَ فِی الْعَادَاتِ اَلْإِبَاحَةُ وَالْإِذنُ؛ وَ فِي الْإِبْضَاعِ التَّحْرِيْمُ؛ وَ فِي الْأَمْوَالِ اَلْمَنَعُ
اب آئیے کتب احناف سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں
قارئین عظام وکرام:.
احناف کے نزدیک بھینس کی قربانی جائز ہے اور ان کا یہ جواز کسی آیت و حدیث سے ماخوذ نہیں، بلکہ بھینس کی قربانی کے جواز کی دلیل ” *ہدایہ*” کی یہ عبارت ہے :” وَيَدْخُلُ في الْبَقَرِ الْجَامُوْسُ لِأَنَّهُ مِنْ جِنْسِهِ” اور بھینس گائے کے حکم میں داخل ہے کیوں کہ بھینس گائے کی جنس ہے –
لیکن یہ استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے
1_ صاحب ہدایہ کی عبارت ہی دلیل ہے کہ بھینس اور گائے کی اجناس مختلف ہیں. کیوں کہ جو چیز حکماً کسی اور جنس میں داخل ہو. اسکی جنس اس چیز سے یقیناً مختلف ہوتی ہے –
2_ احناف کی عبارات اس بات کی گواہ ہیں کہ بھینس گائے کی جنس نہیں بلکہ بھینس اور گائے کی جنس مختلف ہیں. اس کے دلائل حسب ذیل ہیں
1_فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب در المختار میں مذکور ہے کہ ” وَلَا یَعُمُّ الْبَقَرُ الْجَامُوْسَ ” گائے بھینس کو عام نہیں (جنسِ گائے میں بھینس شامل نہیں) درالمختار :4/80
حاشیہ رد المختار کے مصنف اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں : ” وَلَا یَعُمُّ الْبَقَرُ الْجَامُوْسَ (گائے بھینس کو شامل نہیں) أَیْ فَلَوْ حَلَفَ لَا يَأْكُلُ لَحْمَ بَقَرٍ وَلَا يَحْنَثُ بِأَكْلِ الْجَامُوْسٍ كَعَكْسِهِ لِأَنَّ النَّاسَ يُفَرِّقُوْنَ بَيْنَهُمَا؛
قِيْلَ يَحْنَثُ لِأَنَّ الَبَقَرَ أعم
وَالصَّحِيْحُ الْاَوَّلُ كَمَا فِی النَّهْرِ التَّاتَرْخَانِيَةِ ”
یعنی اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا. تو بھینس کا گوشت کھانے سے اسکی قسم نہیں ٹوٹے گی.
اسی طرح کوئی بھینس کا گوشت نہ کھانے کی قَسم کھائے تو گائے کا گوشت کھانے سے اسکی قَسم نہیں ٹوٹے گی.
ایک ضعیف قول ہے کہ اِس عمل سے اسکی قَسم ٹوٹ جائےگی. کیوں کہ گائے عام ہے جس میں بھینس شامل ہے.
لیکن پہلا قول راجح ہے
جیسا کہ ” النھر” میں فتاویٰ ” تاتار خانیہ” سے منقول ہے- ( دیکھیں حاشیہ رد المختار :4/80)
”ہدایہ” کی معروف شرح ” فتح القدیر” میں منقول ہے : ” وَالْبَقَرُ لَا یَتَنَاوَلُ الْجَامُوْسَ لِلْعُرْفِ”
عرفِ عام میں بھینس گائے کی جنس میں شامل نہیں ہے- (دیکھیں فتح القدیر:11/267)
جب خود احناف بھینس کو گائے کی جنس تسلیم نہیں کرتے تو اِس مختلفُ الجنس چوپائے کو قربانی کے اُن چوپایوں میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے. جن کے بارے میں قرآن و سنت میں واضح نص ہوئی ہے
محترم قارئین :- جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ فقہ کی کتابوں میں خود اس بات کا ذکر موجود ہے کہ بھینس گائی کی جنس سے نہیں ہے
پھر بھی بعض علماء بھینس کو جبرا گائے کی جنس میں شامل کرتے ہیں
اللہ رب العالمین سے دعاء ہے کہ رب العالمین سب کو دین اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے
آمین
آپ کی راۓ