کبھی شوخ شیریں کبھی ہیر لکھ دوں
تجھےاپنے خوابوں کی تعبیر لکھ دوں
اے جانِ غزل آج کل سوچتا ہوں
ترے مصحفِ رخ کی تفسیر لکھ دوں
یہ رِیت و رواج اور رسموں کا بندھن
اسے پاؤں کی اپنے زنجیر لکھ دوں
اجی عشق میں جانے کیا ہو گیا ہوں
تجاہل جو دیکھوں تو تعزیر لکھ دوں
تو بیٹی ہے انگور کی جانتا ہوں
ترا ذائقہ اور تاثیر لکھ دوں
یہ مانا تو اک خوشنما پھول سی ہے
ترے ضربِ نیناں کو شمشیر لکھ دوں
کہ جل جائے الحاد کا صفحہ صفحہ
میں جلتی ہوئی ایک تحریر لکھ دوں
یہ آہنگ ،صوتِ ہمالہ ہے ثاقب
کہو تو اسے غالب و میر لکھ دوں
آپ کی راۓ