نیپال میں عربی مدارس کے ایشوز کو لیکر کافی دنوں سے ایک پیچیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے ، اس کو حل کرنے کیلئے کچھ لوگ اپنی اپنی سطح پر کاوشیں بھی کر رہے ہیں، مسلسل بحث و مباحثے اور ڈسکشن ہوتے رہتے ہیں ، اصحاب قلم کی جانب سے مختلف مضامین بھی لکھےجا چکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں دکھ رہا ہے۔
ابھی حال ہی میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے بعض خوش نصیب طلبہ کی منظوری آنے پر حکومت نیپال کی جانب سے "این او سی” (NOC) فراہم نہ کئے جانے پر طلبہ و دیگر حساس مسلمانوں کے اندر جو قلق و اضطراب اور بے چینی دیکھ رہا ہوں وہ انتہائی تشویشناک امر ہے ۔ سوشل میڈیا پر لوگ مختلف زاویوں سے تبصرے کر رہے ہیں کوئی جمیعت و جماعت کو کوس رہا ہے تو کوئی مدارس و جامعات کے ذمہ داران کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے تو کوئی مسلم لیڈران اور کبار علماء کو ذمہ دار ثابت کر رہا ہے تو کوئی حکومت کی تعصب و تنگ نظری سے جوڑ رہا ہے غرضیکہ جتنی منہ اتنی باتیں۔ اللہ نونہالان قوم کی روشن مستقبل کیلئے کوئی صورت جلد از جلد نکال دے۔ آمین ۔
قابل غور بات یہ ہیکہ آخر کیا وجہ ہے جسکو بنیاد بنا کر حکومت "این او سی” فراہم کرنے سے کتراتی ہے؟ آخر وہ کونسے اسباب و علل ہیں جو بیچ میں رکاوٹ بن رہے ہیں میرے سمجھ میں جو بات آتی ہے وہ یہ کہ اولا حکومت کا نظریہ ہمیشہ مسلمانوں کے تئیں غیر منصفانہ رہا ہے دوسرے اینکہ ہم مسلمان خود اسکے ذمہ دار ہیں جسکا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ظاہر سی بات ہیکہ ابھی تک مدارس کی اسناد و ڈگریاں حکومتی سطح پر غیر تسلیم شدہ ہیں ، مدارس و جامعات کسی یونیورسٹی یا بورڈ سے غیر ملحق ہیں تو آخر کس بیسیز پر ڈگریاں تصدیق کی جائیں اور "این او سی” پرووائڈ کی جائے !
اگر کسی طریقے سے بمشکل رشوت و توسط کے ذریعہ وقتی طور پر کام بن بھی جائے تو اس سے کیا ہونے والا ہے ؟ صعوبات و مشاکل کا مواجھہ تو طلبہ کو کرنا ہے ہر سال یہی مسائل درپیش ہونگے۔ آخر یہ دھکا پلیٹ کب تک چلے گا؟ ہم مسلمانوں کیلئے یہ ایک بہت بڑا چیلینج ہے جسکا حل بہرحال ارباب حل و عقد کو کرنا ہے ۔ اور یادرہے کہ یہ صرف ایک "این او سی” کا مسئلہ نہیں ہے جسے ہم جھیل رہے ہیں بلکہ مدارس کے کئی ایسے قضیے اور میجر ایشوز ہیں جنکو سولب (Solve) کرنا از حد ضروری ہے مثلا نصابی تعلیم میں اصلاح و ترمیم اور مین اسٹریم میں لانا، مسمیات اسناد و سرٹیفکیٹس میں تعدیلات ، مدارس کا بورڈ اور یونیورسٹیوں سے معادلہ و الحاق ، اسناد و ڈگریوں کا سرکاری اعتراف و تسلیم ، اسلامک یونیورسٹی کا قیام اور اساتذہ کی سرکاری تقرری و تعیین وغیرہ وغیرہ ۔ جنکو بالتفصیل ہم نے اپنے سابقہ مضامین و آرٹیکلس میں ذکر کیا ہے ۔
اگر مذکورہ امور پر پہلو تہی نہ کی گئی تو آئے دن طلبہ مدارس در در کی ٹھوکریں کھاتے نظر آئیں گے ، انکا مستقبل اور فیوچر تاریک نظر آئیگا ، کامیابی کے تمام ابواب و سبل مسدود نظر آئیں گے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے مدارس سے منسلک تقریبا تمام افراد کی دلی خواہش ہیکہ مدارس کے مسائل جلد سے جلد حل ہوں انکا کوئی متبادل اور Alternative آپشن نکلے مگر مشکل یہ ہیکہ حل کیسے ہو ، آگے کون بڑھے ، بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے ؟؟؟ حل کی کون کون سی صورتیں بروئے کار لائی جائیں-
قارئین کرام ! ویسے تو مدارس کے ایشوز کو مختلف اسٹیجوں اور پلیٹ فارم سے اٹھایا گیا حکومت سے مطالبات در مطالبات کئے گئے مگر نتیجہ لا حاصل ۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہیکہ ہمارے اندر کا حال کچھ ٹھیک نہیں ہے ہماری مسلم تنظیمیں اور کبار علماء كی جم غفیر آپسی خلفشار اور رشاکشی کی شکار ہے ہر کوئی اپنی دنیا میں مست نظر آرہا ہے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے، ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو اعتراف کرنے والا کوئی نہیں ہے ، کوئی عالمی سیاست پر اپنی پوری توانائی صرف کر رہا ہے تو کوئی اپنے جرائد و مجلات میں ہندوستان کے تمام پولیٹیکل ایشوز پر اداریہ پوک رہا ہے اور اپنے ملک میں مسلمانوں کی کیا درگت بنی ہوئی ہے اسکی ذرا بھی خبر نہیں ۔ قومی مفاد کیلئے ملی اتحاد کا دور دور تک کوئی تصور نہیں ہے ، مختلف مکاتب فکر کا مشترکہ طور پر کوئی منظم تعلیمی نصاب نہیں ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوگا حکومت کسی بھی صورت میں ٹس سے مس نہیں ہونے والی ہے۔
کیونکہ اس سے پہلے کچھ امور پر کوشیش تو ہوئیں مگر بیوروکریسی میں جاکر معاملہ پھنس گیا اور سبب آپسی اتحاد و یونائٹی کا فقدان تھا ۔ اسلئے اصحاب اثر و رسوخ اور ارباب حل و عقد سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اس سلسے میں پورے انہماک و جدیت اور ملی اتحاد کیساتھ کوشاں ہو جائیں تاکہ نونہالان قوم کی کشتی بھنور میں ہچکولے کھانے سے بچ جائے ۔
نصاب تعلیم کی بات آئی تو عرض کرتا چلوں کہ اس موضوع پر بات کرنے پر نہ جانے کچھ بھائیوں کو کیوں بہت تکلیف ہوتی ہے اور ایکدم سے بھڑک اٹھتے ہیں ، اناڑیوں کی طرح الٹے سیدھے سطحی تبصرے کرنے لگتے ہیں اور مدرسوں سے ڈاکٹر ، انجینئر اور سائنٹسٹ وغیرہ کے نکلنے کا بے بنیاد الزام لگانے لگتے ہیں ۔ جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے جب بھی عربی مدارس میں دینی و عصری علوم کے امتزاج کی بات کہی جائے تو یہاں مقصود صرف اور صرف انٹرمیڈیٹ تک کی ہوتی ہے یہاں سے من موافق شعبہ و کلیات میں ٹریک چینجینگ کے آپشن پر بحث ہوتی ہے اور عربی جامعات میں موجودہ شرعی علوم کے تخصصی شعبہ میں امتزاج (Combination ) کی بالکل بات نہیں ہوتی ہے وہ اپنی جگہ پر مسلم اور برقرار رہتا ہے ۔ یہ بنیادی اہم نکتہ ملحوظ رکھنا بیحد ضروری ہے ۔
میں نے اپنے سابقہ آرٹیکلس میں بارہا یہ بات کہی ہے کہ اگر انٹرمیڈیٹ (عالمیت) تک دینی وعصری امتزاج سے قوم کا بھلا ہو رہا ہے بچے دین کے اصول و مبادیات پر صحیح ڈھنگ سے دسترس حاصل کرنے کے بعد کہیں اور جاکر بعض ڈاکٹر بن کر قوم کی خدمت کر رہے ہیں بعض ایکنومسٹ بن رہے ہیں ، بعض انجینیر وغیرہ بن رہے ہیں یا عربی وشرعی شعبہ ہی میں رہکر 3/4 سالہ تخصصی کورس کرکے ایک بہترین عالم بن کر ابھر رہے ہیں تو اس میں برا کیا ہے؟ اور آج یہی چیز ہمارے یہاں مفقود ہے اسی لئے جن بچوں کو عالم کے علاوہ کسی اور فیلڈ کا ماہر بنانا ہوتا ہے تو انکو بچپن ہی میں دین کے بنیادی اصول و مبادیات سے محروم کرکے انگریزی اسکولوں میں ڈھکیل دیا جاتا ہے کیونکہ ہمارے پاس آپشن ہی نہیں ہے ۔ پھر ہم رونا روتے ہیں کہ آئے دن بچوں کا رجحان عربی مدارس سے ہٹتا کیوں جا رہا ہے ، حکومت نیپال ہمیں "NOC” کیوں نہیں دے رہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔
میرے بھائی! پہلے اپنے آپکو پروف تو کرو اپنے تعلیمی معیار اور اسٹنڈرڈ کو حکومت کے سامنے پیش تو کرو اسکے جو جائز ریکوائرمنٹس اور کمپلسری سبجیکٹ ہیں اسے فالو تو کرو مسئلہ خود بخود حل ہو جائیگا ۔ اگر آپ سعودی و دیگر خلیجی ممالک کے تعلیمی نصاب کو دیکھیں گے تو وہاں ثانویہ عامہ (انٹرمیڈیٹ ) تک باقاعدہ دینی و عصری علوم کا امتزاج ہے دین کا اچھا خاصہ علم حاصل کرنے کے بعد بچے ہر میدان کے شہسوار بن رہے ہیں کیونکہ انکے پاس ٹریک چینجینگ کا فل آپشن ہے اور ہمارے یہاں یہ ہے کہ بچوں کو پرائمری درجات ہی سے تخصص کرایا جاتا ہے ۔ یہ ہے بنیادی فرق جسے جاننا بیحد ضروری ہے ۔
میرے علم اور اسٹڈی کے مطابق اگر انٹرمیڈیٹ (12ویں) تک مسئلہ حل ہو جائے تو گریجویشن (فضیلت/بکالوریوس/لیسانس) کا مسئلہ آٹومیٹک حل ہو جائیگا کیوں کہ یہ شعبہ تخصص ہے اس میں دینی وعصری علوم کے امتزاج کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ کلیہ مان کر "بیچلر ان عربک اینڈ اسلامک اسٹڈییز” کی ڈگری حکومت کو باور کرایا جا سکتا ہے۔ مگر اس کیلئے مسلسل جد و جہد ، حکمت عملی اور متفقہ سپورٹ کی ضرورت ہے، خالی چیخنے چلانے اور مظلومیت کی داستان سنانے سے کام چلنے والا نہیں ہے –
آپ کی راۓ