(تحریر عاطف شیرازی)
پاکستانی دارالحکومت کا ایچ ایٹ قبرستان، اسلام آباد کے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہے۔ کتنے ہی شاہ سوار اور کج کلاہ یہاں مدفون ہیں، جن کی قبروں سے حسرت ٹپک رہی ہے اور اس بات کا اعلان کر رہی ہیں کہ "ہر جان دار شے کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے”۔ بعض قبروں پر لگے کتبے انتہائی دل خراش ہیں۔ اس قبرستان میں اپنے دور کے معروف شاعر، ادیب احمد فراز، خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر، شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی، مولانا کوثر نیازی، ممتاز مفتی، بیگم ممتاز مفتی، قدر اللہ شہاب، کالم نگار بیگم سرفراز اقبال اور صحافی میر جمیل الرحمن کی قبروں پر لگے کتبوں کی تحریریں تو دل گداز ہیں ہی، مگر ایک ننھی سی قبر، ثوبان علی بٹ کی ہے، اس چھوٹی قبر کے کتبے پر تحریر ہے ۔
"پیدائش ۲۵ مارچ ۲۰۰۶ء، وفات ۳ مئی ۲۰۰۷ ء – ماما کی پری، پاپا کا جن یہاں سو رہا ہے۔”
قبرستان کے گیٹ سے دائیں ہاتھ تھوڑے فاصلے پر جنازہ گاہ ہے۔ جنازہ گاہ کے ساتھ ہی معروف شاعر، احمد فراز دفن ہیں، جن کے کتبے پر یہ خوبصورت شعر تحریر ہے،
میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
خوشبو کے سفر پر نکلے ہی تھے کہ خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کی قبر نظر آ گئی۔ انتہائی پیاری شاعرہ عین عالمِ شباب میں داغِ مفارقت دے گئیں۔ اس قبر نمبر ۴۸، پلاٹ ۵۷، کتبے کے دونوں طرف عبارت اور خوبصورت اشعار تحریر ہیں۔ عبارت کچھ اس طرح ہے۔
پروین شاکر بنتِ سید شاکر حسین
ولادت ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ ء، وفات ۲۶ دسمبر ۱۹۹۴ ء
اور پھر کچھ خوبصورت اشعار، جنھیں پڑھتے ہی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، مگر اس بات کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ یہ کیسے نابغہ افراد تھے جو اپنی زندگی ہی میں موت کی پیش گوئی کر گئے، مگر امر ہو گئے، وہ ایسے کہ کتبے کے پچھلی طرف یہ اشعار درج ہیں۔
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ہونے کی گواہی دیں گے
عکسِ خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
محبت سے کوئی شکایت ہے، نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے
اسی طرح کتبے کے اگلی جانب بھی چند خوبصورت اشعار تحریر ہیں۔
یارب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخم ہنر کو حوصلہ لب کُشائی دے
شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں، تو رستہ سجھائی دے
پروین شاکر کی قبر پر چند آنسو بہائے، پھر شاعرِ انقلاب، شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی کی قبر مل گئی اور "یادوں کی بارات” یاد آ گئی کہ کتنا دبنگ شخص بھی یہاں مدفون ہے اور وہی بانک پن اور مزاحمت آج بھی نظر آ رہی ہے، جس کا ثبوت کچھ مزاحمتی اشعار جو کتبے پر بھی تحریر ہیں۔
شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی ولد نواب بشیر احمد خان
تاریخ پیدائش ۵ دسمبر ۱۸۹۸ ء، وفات ۲۲ فروری ۱۹۸۲ ء
اور پھر نیچے یہ شعر درج ہے۔
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
کتبے کے دوسری جانب دو قطعات بھی تحریر ہیں۔
جب زیست پہ ہوتے ہیں ترانے ممنوع
تب کارِ سرود موت کرتی ہے شروع
ہر شاہ و گدا قبر میں ہوتا ہے غروب
شاعر افق لحد سے ہوتا ہے طلوع
اے شاعر دانا، خس و خاشاک نہ بن
اکسیر ہے تُو سر نہ جھکا خاک نہ بن
آئندہ زمانے کی امانت ہشیار
اٹھ لمحہ موجود کی خوراک نہ بن
جوش ملیح آبادی کی قبر، ابتدائی قبروں میں ہے۔ لیکن ایک انتہائی دلچسپ بات کہ ساری زندگی جوش صاحب، جو ملاؤں سے کتراتے تھے، آج دو ملاؤں ہی میں گھرے ہیں اور قبر کے سرہانے دو مولانا مدفون ہیں۔
رنگوں کا خرمن سوتا ہے
بن میں چمن سوتا ہے
کتنے خوابوں اور پھولوں کا
اک البیلا پن سوتا ہے
سالک راہ و رسمِ محبت
محرمِ اہلِ فن سوتا ہے
خاکِ وطن کی چادر اوڑھے
ایک شہیدِ فن سوتا ہے
(از ضمیر جعفری)
جوش صاحب کی قبر کے ساتھ ہی ایک پیر صاحب کی قبر ہے، جنہوں نے ۱۶۲ سال کی عمر میں رحلت فرمائی، جن کی قبر کے کتبے پر درج ہے "عمر ۱۶۲ سال”۔ ایک صاحب جو ایک نجی بینک کے سینئر نائب صدر رہے ہوں گے، ان کی قبر کی تختی پر تو باقاعدہ بینک کا مونوگرام بھی بنا ہوا ہے۔ اسی طرح اکثر فوجی افسران کی قبروں پر محکمانہ مونوگرام بھی بنے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا ء کے سیکرٹری اطلاعات، لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن بھی یہیں مدفون ہیں۔
پلاٹ نمبر ۶۲ میں ممتاز مفتی کی قبر ہے۔ کتبے پر جلی حروف سے ممتاز مفتی لکھا ہوا ہے۔ نیچے ولادت اور وفات کی تاریخیں درج ہیں۔
ان ہی قبروں کے ساتھ، کالم نگار بیگم سرفراز اقبال کی بھی قبر ہے۔ کتبے پر فیض کا بڑا خوبصورت شعر درج ہے،
رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
مولانا کوثر نیازی اور قدرت اللہ شہاب کی قبروں کی تلاش جاری تھی کہ ایک قبر پر نظر پڑی، قبر کسی نوجوان لڑکی کی ہے اور بڑی نفاست سے بنائی گئی ہے۔ کتبہ بھی جدید طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے۔ کتبے کے ایک کونے پر بڑی خوبصورتی سے بسم اللہ لکھی گئی ہے۔ درمیان میں انگریزی میں اس کا نام ux لکھا ہے اور نیچے اُداس کر دینے والا شعر درج ہے۔
محبت اوڑھ کر میں خوش نما ہوں
تم ہی تم ہو، بتاؤ میں کہاں ہوں
ایک قبر کے کتبے کی پچھلی جانب لکھا ہے، رابعہ ہاؤں اور نیچے یہ عبارت درج تھی "امی آپ نے کہا تھا، ماں بیٹا ساتھ رہیں گے، مگر آپ کا بیٹا ۔۔۔۔۔”
دو قدم ہی آگے بڑھے کہ شہاب نامہ کے خالق، قدرت اللہ شہاب کی قبر پر نگاہ پڑی۔ کتبے پر جلی حروف میں قدرت اللہ شہاب ولد محمد عبد اللہ لکھا ہے۔ قریب ہی قبروں میں ایک خاتون کی قبر پر ایک قطعہ لکھا ہے۔
مَر مَر کے مسافر نے بسایا ہے تجھے
منہ پھیر کے سب سے منہ دکھایا ہے تجھے
کیوں کہ نہ لپٹ کر سوؤں تجھ سے اے قبر
میں نے بھی تو جاں دے کے بسایا ہے تجھے
آخر میں مولانا کوثر نیازی مرحوم کی قبر پر گئے۔ قبر کی تختی پر نعتیہ شعر درج ہے۔
کوثر ہے، دل میں ایک ہی اعزاز کی ہوس
کہہ دیں وہ حشر میں کہ ہمارا غلام ہے
ایچ ایٹ قبرستان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ تمام قبریں خاص ترتیب سے بنائی گئی ہیں۔ قبروں کے درمیان راہ داری کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔ باقاعدہ مالی موجود ہیں، جو پودوں اور پھولوں وغیرہ کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ بعض قبروں کے ساتھ تو باقاعدہ بینچ بھی بنے ہوئے ہیں، تا کہ فاتحہ کے لیے آنے والوں کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بعض قبروں کے گرد جنگلا لگا دیا گیا ہے اور بعض قبروں کو مزار میں تبدیل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ ایک اور خاص بات کہ امرا ء نے اپنے مرحومین کی قبریں بھی بڑی قیمتی سنگِ مرمر سے تعمیر کرائی ہیں، جو ان قبروں کو، غریبوں کی قبروں سے ممتاز کرتی ہیں، لیکن پھر یہ تمیز ہی ہر کسی کی اپنے مرنے والے کے ساتھ خاص وابستگی، عقیدت اور مھبت کو بھی ظاہر کرتی ہے، لیکن قبرستان میں آ کر عدم کا ایک شعر بھی بہت یاد آتا ہے کہ، جب کسی ٹوٹی قبر پر کوئی ماہ جبیں روتی ہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے اس وقت اکثر خیال آتا ہے موت کتنی حسیں ہوتی ہے۔
آپ کی راۓ