’’واہ بھئی،آج تو حسن نے کتنی پیاری گھڑی پہنی ہے، یقیناً بابا نے دلائی ہوگی۔‘‘مَیں نے روتے ہوئےحسن کو پچکار کے اُس کا موڈ بدلنے کی کوشش کی۔‘‘ ’’ہرگز نہیں…یہ تو میری ماما نے مجھے گفٹ کی ہے۔‘‘اس نے سختی سے تردید کی، تو مَیں کچھ چونک سی گئی، ’’کیوں حسن بیٹا! کیا بابا جانی آپ کو کچھ نہیں دلاتے؟‘‘ مَیں نے پیار سے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے پوچھا، ’’نہیں…مِس! وہ تو ہمارے پاس رہتے ہی نہیں۔بس، کبھی کبھار ملنے آجاتے ہیں، وہ بھی تب، جب مَیں فون پر بہت ضد کرتا ہوں۔کل بابا نے اس ویک اینڈ پر آنے کا وعدہ کیا ہے۔ پھر ہم خُوب باتیں کریں گے اور آئس کریم بھی کھانے جائیں گے۔‘‘یہ کہتے ہوئے حسن کے معصوم چہرے پر اُمید کے ننّھے ننّھے جگنو چمکنے لگے، اور میری آنکھوں میں آنسو۔
’’علی! آپ تو شیلف انچارج ہیں ناں! اس کے باوجود آپ ہی کا شیلف کتنا بکھرا ہوا ہے۔ جائیے ،جاکر درست کریں۔‘‘ مَیں نے ذرا سخت لہجے میں علی کو ہدایت دی، تو وہ ضد کرتے ہوئے بولا،’’نو مَس! مَیں نہیں جائوں گا، ہرگز نہیں۔ عاشر نے شیلف خراب کیا ہے،وہ ہی اسے ٹھیک کرے گا، ورنہ…ورنہ مَیں اُسے…‘‘اکثر علی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایسے ہی غصّے میں آجاتا تھا۔ مجھے تو کبھی کبھی اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر خوف آنے لگتا کہ کہیں تنہائی میں کسی دوسرے بچّے کو نقصان نہ پہنچا دے۔ پھر مَیں نے اسے انفرادی توجّہ دینی شروع کی۔ شروع مَیں تو اس نے میرے ہر محبّت بَھرے اور تعریفی جملے نہ صرف رَد کیا،بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے بے حد پریشان بھی کرتا۔ لیکن آخر بچّہ تھا،جو ہوتا ہی محبّت و پیار کا متلاشی ہے۔پھر جوں جوں دِن گزرتے گئے، مجھے اس کی نفسیات اور معاملات جاننے میں کچھ زیادہ دشواری نہ پیش آئی۔ آٹھ سال کا معصوم سا یہ بچّہ اس چھوٹی سی عُمر میں انتہائی کرب ناک حالات کا سامنا کرچُکا تھا اور آج اپنے سگے والدین سے دُور، خاندان کے کسی بے اولاد جوڑے کی زیرِ سرپرستی تھا۔
’’احمد بیٹا! سب بچّوں نے مضمون لکھ لیا، آپ نے کیوں نہیں لکھا؟ آپ تو بہت اچھا لکھتے ہیں۔‘‘ مَیں نے حیرت سے پوچھا کہ عنوان بھی’’میری امّی‘‘بہت دِل چسپ تھا اور سب بچّے بہت خوشی خوشی اپنی اپنی امّیوں کے بارے میں خُوب صُورت جملوں سے مزیّن مضمون لکھ رہے تھے۔لیکن احمد بدستور کسی سوچ میں ڈوبا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ ’’شاباش، لکھیے ناں احمد بیٹا! آپ کی امّی تو آپ کی طرح بہت پیاری سی ہوں گی ناں۔‘‘ مَیں نے ترغیب دلاتے ہوئے کہا، تو احمد کا جواب میرے لیے انتہائی غیرمتوقع تھا۔’’کون سی والی امّی پر لکھوں مِس! میری تو تین تین امیّاں ہیں۔‘‘ مَیں سٹپٹا سی گئی۔ موقعے کی نزاکت سمجھتے ہوئے مَیں نے بڑے پیار سے اُس کے سَر پر ہاتھ پھیرا، ’’احمد! جو امّی سب سے زیادہ پیار کرتی ہیں، آپ ان کے بارے میں لکھ دیں۔‘‘’’مگر مِس…مجھے تو لگتا ہے کہ اب مَیں اُن کی شکل بھی بھول گیا ہوں۔ وہ نئی ماما ہیں ناں، وہ مجھے اُن سے ملنے ہی نہیں دیتیں…اور بابا کے پاس تو بالکل بھی وقت نہیں ہوتا کہ مجھے اُن سے ملوانے لے جائیں۔‘‘سات سالہ احمد نے تاسف بَھرے لہجے میں کہا، تو میرے پورے وجود میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔
حسن کا اسکول آتے ہی خوف زدہ ہوکر ہچکیوں سے رونا، علی کا خطرناک غصّہ اور ننّھے احمد کا ہر وقت کسی گہری سوچ میں ڈوبے رہنا…ان تمام حالات کی ایک ہی بنیادی وجہ گھروں کا ٹوٹنا اور خاندانوں کا بکھرنا ہے۔والدین کی اناپرستی، ایسی معصوم کلیوں کو بن کِھلے ہی مُرجھانے پر مجبور کردیتی ہے۔ ان کے غلط فیصلے جو اکثر جذبات کی رَو میں بہہ کر کیے جاتے ہیں،اُن کا تاوان یہ معصوم بچّےپھر پوری زندگی ادا کرتے رہتے ہیں۔ بچپن تو برباد ہوتا ہی ہے، بڑے ہوکر بھی ایسے بچّے نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔خدارا…ان معصوم پھولوں کو اپنے غلط فیصلوں کی بھینٹ نہ چڑھائیں اور کوئی بھی سخت قدم اُٹھانے سے قبل چند لمحوں کے لیے صرف اتنا سوچ لیں کہ اگر آپ کے والدین نے بھی آپ کے ساتھ ایسا کیا ہوتا، تو آج آپ زندگی کے کس مقام پر کھڑے ہوتے؟مانا کہ دینِ اسلام نے چار چار شادیوں کی اجازت دی ہے اور عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے، تو خلع لے سکتی ہے، مگر بہ حیثیت والدین بھی آپ کے کچھ حقوق و فرائض ہیں، کم از کم اُن ہی کا خیال کرلیا جائے۔نیز، ہم سب کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اگر کسی کا گھرٹوٹ رہا ہو، تو جلتی پر تیل کا کام یا پھر اِدھر اُدھر بیٹھ کر چہ مگوئیاں کرنے کی بجائے، اُسے ٹوٹنے، بکھرنے سے بچانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں کہ یہ بچّے تو گلشن کے تروتازہ پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ان ہی کے دَم سے ساری بہاریں،خُوب صُورتیاں ہیں۔یہ کملا، مرجھا گئے،تو پھر گلشن بھی کہاں ہرا بھرا رہ پائے گا۔
آپ کی راۓ