نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر حملے کو ایک ہفتہ مکمل ہونے پر جمعے کو مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ٹی وی اور ریڈیو پر براہِ راست اذان نشر کی گئی جب کہ ملک بھر میں لوگوں نے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
سانحے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے سب سے بڑا اجتماع حملے کا نشانہ بننے والی کرائسٹ چرچ کی النور مسجد کے سامنے واقع ہیگلے پارک میں ہوا جہاں ملک بھر سے آئے مسلمانوں نے جمعے کی نماز ادا کی۔
ہیگلے پارک میں نمازِ جمعہ کا اجتماع اور اذان ملک بھر میں ٹی وی اور ریڈیو پر براہِ راست نشر کیے گئے۔
پارک میں مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن، ان کی کابینہ کے ارکان، اعلیٰ حکام اور عام شہریوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔
پارک میں موجود 20 ہزار سے زائد افراد سے اپنے مختصر خطاب میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ نیوزی لینڈ متحد ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے غم میں شریک ہے۔
وزیرِ اعظم کے خطاب کے بعد پارک میں موجود ہزاروں افراد نے بھی پورے ملک کی طرح ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
ہیگلے پارک میں نمازِ جمعہ کی امامت النور مسجد کے امام جمال فودا نے کی جن کی مسجد کے 42 نمازی گزشتہ جمعے کی نماز کے دوران ایک سفید فام نسل پرست کی فائرنگ سے مارے گئے تھے۔
اپنے خطبے میں امام فودا نے کہا کہ ہمارے دل ضرور ٹوٹے ہیں لیکن ہمارا عزم سلامت ہے اور ہمیں تقسیم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔
اپنے 20 منٹ طویل خطبے میں امام فودا کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کی روح سلامت ہے اور وہ نفرت کو شکست دے کر رہے گا۔
انہوں نے مسلمانوں کی طرف سے وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن کا شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے سانحے کے بعد جس ردِ عمل کا اظہار کیا ہے وہ دنیا بھر کے رہنماؤں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
ہیگلے پارک میں ہونے والے اجتماع میں وزیرِ اعظم آرڈرن سمیت بیشتر غیر مسلم سانحے پر سوگ کے اظہار میں سیاہ لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھے جب کہ وزیرِ اعظم نے اسکارف بھی پہن رکھا تھا۔
پارک میں تعینات خواتین پولیس اہلکاروں نے بھی اسکارف پہن رکھے تھے جب کہ انہوں نے اپنے یونیفام پر سرخ گلاب لگا رکھے تھے۔
ہیگلے پارک کے علاوہ نیوزی لینڈ بھر میں جمعے کو عوامی مقامات کے علاوہ دفاتر، اسکولوں اور ریستورانوں میں بھی تعزیتی اجتماعات منعقد ہوئے اور لوگوں نے سانحے سے متاثرہ افراد کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
کئی شہروں میں عام لوگوں نے مساجد کے سامنے ہاتھوں کی زنجیر بنائی جب کہ عام خواتین نے مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر اسکارف پہنے۔
آپ کی راۓ