اگر ممکن ہو تو اس سلسلے میں آپ میری رہنمائی فرمائیں
آج ایک پرانے ندوی ساتھی سے ملاقات ہوئی،وہ خوب زرق برق پینٹ اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھا، گلے میں ٹائی بھی باندھ رکھی تھی،اس کے جوتے نئے
مگر گرد آلودھ شاید آفس سے آرہا ہو، برسوں بعد ملے تھے دیکھتے ہی ایک دوسرے سے چمٹ گئے۔خبر و خیریت دریافت کرنے کے بعد جیسا کہ مجھ جیسے طالب علموں کا طریقہ ہوتا ہے پوچھ بیٹھا” بھیا!!! آپ نے کرتے اور پاجامے کو کب خیرآباد کہا؟” شاید میرا سوال زیادہ مناسب نہیں تھا اس لئے اس کے چہرے کا رنگ فق پڑ گیا، ہوسکتا ہے اسے غصہ بھی آیا ہو لیکن پرانی یاری اور عرصہ دراز کے بعد ملاقات نے کوئی جواب دینے سے روک دیا،دبے ہونٹوں مسکراتے ہوئے موضوع گفتگو بدلنا چاہا۔لیکن میں بھی کہاں ماننے والا تھا دوبارہ یہی سوال تھوڑی ضد کے ساتھ پھر کیا، اب تو اس کی حالت ایسی ہو گئی مانو میں نے اس کا پرانا زخم کرید دیا ہو ،وہ جھلا کر جواب دیا: سنو! میں بھی مسلمان ہوں اور الحمد لله حافظ، قاری اور ندوی عالم و فاضل ہوں، الحمد لله صوم و صلوة کا پابند اور حق و حلال کی کمائی کھاتا ہوں ۔صرف کرتا پاجامہ اور ٹوپی نہ پہننے کی وجہ سے آپ کا انداز سوال اس طرف اشارہ کر رہا ہے گویا میں نے کفر کا ارتکاب کیا ہو، بلکہ شاید میں نعوذباللہ مرتد ہوچکا ہوں ۔
جناب ! میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں، میں بھی کسی زمانے میں آپ ہی جیسا سوچتا تھا، کرتا پاجامہ اور ٹوپی کو جزو ایمان سمجھتا تھا، لیکن یہ وہ مرحلہ تھا جب میں مدرسہ کی چہار دیواری کے اندر اور والد محترم کی کفالت میں تھا، جب مجھے رزق کی کوئی فکر نہیں تھی ۔لیکن جب میں نے مدرسے سے باہر عملی زندگی میں قدم رکھا تو میری حقیقت میرے سامنے کھل گئی ۔ چلو! میں تمہیں اپنی کتاب زندگی کا ایک ورق پڑھ کر سناتا ہوں :-
مدرسے سے سند فراغت لے کر امت مسلمہ کے بازار میں، میں نے اپنی قیمت جاننا چاہا، امت کے متعدد حلقوں کے دروازے کھٹکھٹائے،خدا خدا کر کے چھ ماہ کے بعد ایک مسجد میں امامت کی ذمہ داری ملی۔اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے شرعی وضع قطع(آپ کے مطابق)کے ساتھ میں اپنا کام بخوبی انجام دینے لگا، محلے والے دو وقت کا کھانا مسجد پہنچادیتے تھے، ناشتے کا انتظام میں خود کرتا تھا، امامت کے ساتھ ساتھ اللہ نے مجھ سے مکتب کی خدمت بھی لی، میں خوش تھا گرچہ میری تنخواہ پانچ ہزار سے کم تھی،لیکن میرا وقت اللہ کے گھر میں نماز اور مکتب کے فریضے انجام دینے میں گزر رہا تھا، مجھے اپنی کم آمدنی پر دکھ و تکلیف سے زیادہ اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کی خوشی تھی ۔ و اللہ میں اپنے عمل میں مخلص تھا ۔
ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ محلے سے آنے والے کھانے کا معیار بد سے بدتر ہوتا چلا گیا، نمازی حضرات کا رویہ بھی میرے تئیں کچھ اطمینان بخش نہیں رہا، مسجد میں صفائی کیوں نہیں ہوئی ؟ ٹنکی میں پانی کیوں نہیں ہے؟ استنجا خانے سے بو کیوں آرہی ہے؟ آج وقت پر اذان کیوں نہیں ہوئی؟ آج قراءت تھوڑی طویل کیوں ہو گئی؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات مجھ سے پوچھے جانے لگے۔ کچھ لوگوں نے تو حد ہی کردی کہ امام صاحب فلاں ہوٹل کے پاس کیا کر رہے تھے؟ آج کل ان کے کپڑے کا رنگ سفید کے بجائے بھورے نیلے کیوں ہوگئے؟ آج کل امام صاحب مسجد سے زیادہ چوک چوراہے میں کیوں نظر آرہے ہیں؟ الغرض ہر طرح کے سوالات کی مجھ پر بوچھاڑ ہوگئی، ہر مصلی مجھ سے غلاموں کی طرح برتاؤ کرنے لگا، لوگوں کے لئے میں صرف ایک مشین تھا جو ان کو وقت پر نماز پڑھا دیتا ہے اور بس ۔۔۔مسجد میرے لئے قید خانہ بن گئی جس سے باہر جھانکنا بھی جرم عظیم سمجھا جانے لگا ۔
جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو میں نے مسجد کو خیرآباد کہا اور مسجد ہی میں قسم کھائی کہ آج کے بعد اس امت کی کبھی امامت نہیں کروں گا ۔
اس کے بعد میں نے مدرسوں کا دروازہ کھٹکھٹایا، کئی مدرسوں کے چکر کاٹنے کے بعد ایک مدرسہ میں ثانوی درجے کے بچوں کو تعلیم دینے کی ملازمت ملی، اللہ کا نام لے کر اس مدرسے میں تدریسی خدمات انجام دینے لگا، الحمد لله اب بھی میں شرعی وضع قطع ہی میں تھا ۔اب میں نے مطالعہ بھی شروع کردیا تھا، پوری تیاری اور حتی الامکان دیانت داری کا ثبوت بھی دیا، لیکن اس مدرسے کے مہتمم نے میرے ہاتھوں میں رسیدوں کی ایک گٹھری تھما دی اور کہا ” جاؤ ان سے چندہ کرکے اپنی تنخواہ نکال لینا”۔
نا چاہتے ہوئے بھی مجھے یہ کام کرنا پڑا، اب میں انہی لوگوں کے گھر جاجاکر چندہ کرنے لگا جن کی وجہ میں نے امامت چھوڑی تھی، چندے کے دوران کبھی تو کچھ مل جاتا لیکن اکثر خالی ہاتھ ہی واپس ہونا پڑتا۔اب میں نے فرض نمازوں کے بعد مسجد میں کھڑے ہوکر اعلان کرنا شروع کردیا تاکہ گھر واپس ہوتے ہوئے نمازی حضرات کچھ چندہ دیتے ہوئے جائیں۔لیکن جب میں کھڑا ہوتا تو لوگ مجھے نفرت بھری حقیر نگاہوں سے گھورتے، ایسا لگتا جیسے کہ میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہو جو ناقابل معافی ہو اور میں عفو و درگزر کی امید میں کھڑا ہوا ہوں اور لوگ مجھ پر قہقہے لگا رہے ہوں ۔کچھ لوگ تو کھڑے ہو کر سب کے سامنے مجھے ڈانٹ دیتے، کچھ لوگ احادیث اور اقوال صحابہ سنا کر میرے اعلان کرنے کو غیر شرعی بتاتے، پھر مجھ سے ان کا بتاؤ حرام کے مرتکب جیسا ہوتا ۔ان سب ذلتوں کے باوجود جب سنتوں کے بعد میں رومال پھیلا کر مسجد کے دروازے پر بیٹھتا تو آدھے ایک گھنٹے بعد بمشکل دس یا بیس روپے حاصل ہوتے۔
شام کو جب تھکا ہارا مدرسہ پہنچتا تو مہتمم صاحب مجھے سست اور کاہل ہونے اور صحیح سے چندہ نہ کرنے کے طعنے دیتے۔ یہی سلسلہ تقریباً ایک سال تک چلتا رہا آخر کار مدرسہ سے تنگ آکر اسے بھی چھوڑ دیا ۔
اس کے بعد امت مسلمہ کے مختلف اداروں اور حلقوں کا چکر کاٹتا رہا تاکہ شرعی وضع قطع میں رہتے ہوئے معاشی مسائل حل کرسکوں، لیکن مجھے سارے راستے بند نظر آئے ، کوئی بھی مسلم ادارہ یا مسلم سماج مجھے با وقار اور مہذب کام دینے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ لہذا میں نے اسی بے روزگاری کے عالم میں ادھر ادھر بھٹکتے دو سال گزار دیے ۔
آخر کار ابھی تین مہینے پہلے ہی میرے ایک عزیز کے واسطے سے دہلی آیا اور ایک ہاسپٹل میں عربی ترجمان کے لئے انٹرویو دیا، الحمد لله اس عہدے کے لئے میرا انتخاب ہوگیا، اس کی ابتداء تنخواہ30 ہزار تھی، لیکن ایک شرط تھی کہ میں کرتا پاجامہ اور ٹوپی پہن کر یہ نوکری نہیں کر سکتا ۔میں اب تذبذب اور شش و پنج میں مبتلا ہو گیا کہ کیا کروں، ایک طرف سالوں بعد 30 ہزار کی نوکری ملی ہے تو دوسری طرف شرعی وضع قطع!!! پھر مجھے میرے تئیں امت مسلمہ کا رویہ اور برتاؤ یاد آنے لگا، آخر کار میں نے طے کیا کہ مجھے نوکری ہی کرنی ہے ۔لیکن دل میں اللہ کا خوف تھا اس لئے میں نے قرآن پاک میں اسلامی لباس کو تلاش کرنا شروع کیا، لیکن وہاں ستر عورت کو چھپانے کے علاوہ کوئی تفصیل نہیں ملی، پھر میں نے سنت کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن وہ بھی خاموش نظر آئی، بلکہ اس وقت میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل و ابولہب سب ایک ہی طرح کے کپڑے پہنے ہوئے نظر آئے۔مجھے کرتا پاجامہ بحیثیت اسلامی لباس کہیں نظر نہیں آیا ۔
لہذا میں نے کرتا پاجامہ اور ٹوپی کو اپنے سے الگ کیا اور پینٹ شرٹ پہن کر، داڑھی رکھتے ہوئے اور صوم و صلوة کی پابندی کے ساتھ نوکری کرنا شروع دیا۔الحمد لله جس دن سے میں نے نوکری کرنا شروع کیا اس دن سے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے جھکنا نہیں پڑا۔الحمد لله اب میں حق حلال اور عزت کی روٹی کھاتا ہوں۔
اس کی کہانی سننے کے بعد میری زبان گویا گنگ ہو گئی۔ سلام مصافحہ کرکے اسے رخصت کیا اور چپ چاپ اپنا روم آگیا ۔لیکن میں اب تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا ہوں کہ اس میں غلط کون ہے وہ لڑکا جو متعدد مصیبتوں اور آزمائشوں سے گزر کر اس مقام تک پہنچا؟ یا پھر وہ امت مسلمہ جس نے متعدد مصیبتوں اور آزمائشوں سے گزار کر اسے اس مقام تک پہنچایا ۔
اگر ممکن ہو تو اس سلسلے میں آپ میری رہنمائی فرمائیں ۔
آپ کی راۓ