امریکا نے جمعة کے روز سوڈان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے سے متعلق بات چیت معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پیش رفت سوڈانی فوج کی جانب سے صدر عمر البشیر کا تختہ الٹے جانے اور دو برس تک ملک کے انتظامی امور چلانے کے اعلان کے بعد سامنے آئی ہے۔
واشنگٹن کے مطابق وہ سوڈان میں جمہوریت اور امن کو سپورٹ کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ سوڈانی عوام کے سامنے عبوری مرحلہ دو سال سے کم ہونا چاہیے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان روبرٹ بیلاڈینو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ "یہ فیصلہ سوڈانی عوام کو کرنا چاہیے کہ مستقبل میں ان کی قیادت کون کے گا”۔
امریکا اور سوڈان کے درمیان بات چیت کا دوسرا مرحلہ اُس وقت شروع ہوا تھا جب سابق صدر باراک اوباما خرطوم پر 20 برس سے عائد تجارتی پابندی ختم کرنے کے واسطے حرکت میں آئے۔ یہ پیش رفت داعش تنظیم کے خلاف لڑائی میں سوڈان کی جانب سے امریکا کی سپورٹ اور سوڈان میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورت حال بہتر ہونے کا اعتراف تھا۔
امریکا نے 1997 میں سوڈان پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے تجارتی پابندی لگا دی تھی۔ علاوہ ازیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دہشت گردی سے متعلق اندیشوں کے سبب سوڈانی حکومت کے اثاثوں کو منجمد کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں دارفور صوبے میں پرتشدد کارروائیوں کے سبب 2006 میں مزید پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
دارفور میں جرائم کے ارتکاب کے سبب عمر البشیر کے خلاف عدالتی کارروائی سے متعلق سوال کے جواب میں بیلاڈینو کا کہنا تھا کہ "ہم سجھتے ہیں کہ دارفور میں نشانہ بننے والے افراد انصاف کے مستحق ہیں۔ دارفور میں امن کو یقینی بنانے کے لیے احتساب ضوری ہے”۔
آپ کی راۓ