مشرقی نیپال کے ضلع مورنگ کے ایک چھوٹا سا مگر مشہور و معروف گاؤں ڈائنیاں کے ایک دیندار خاندان جسے لوگ حاجی خاندان کے نام سے جانتے ہیں، جہاں آپ کی ولادت ہوئی،
آپ صرف ایک عظیم داعی ہی نہیں، بلکہ ایک جید عالم ،مفکر ،خطیب،مصلح، تربیت کار اور اصلاح پسند انسان بھی تھے۔ آپکی شخصیت ایک انقلابی شخصیت تھی،آپ نے کئی محاذوں پر دین کا کام انجام دیا۔ آپ نے اصلاح معاشرہ کے امور میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور آپ نے صرف مشرقی نیپال ہی میں نہیں بلکہ نیپال کے ایک گوشے سے لیکر دوسرے گوشے تک پہاڑی سے لیکر ترائی تک اور مشرق سے لیکر معرب تک ہر جگہ آپ نے إعلاء کلمة الله کا فریضہ انجام دیا، اور آسمان وزمین آفتاب و مہتاب سب آپکے اعلی کارہائے نمایاں کے گواہ ہیں۔آپ نے پورے ملک کو اپنی بصیرت و بصارت اور داعیانہ صفات سے روشن کیا، آپ کی ذات ایک انجمن تھی، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن میں حاصل کیا، اسکے بعد اعلی تعلیم کی غرض سے ہندوستان کا ایک عظیم عالمی شہرت یافتہ ادارہ دارلعلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں سے آپ نے عالمیت کی ڈگری حاصل کیا، فراغت کے بعد آپ نے چند سال بلند شہر کے کسی ادارہ میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا۔
مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا سفر درس تدریس سے شروع ہو کر دعوت و تبلیغ کے اہم فریضہ تک پہنچتا ہے۔ ان کی قربانیوں و محنتوں اور کاوشوں کا ہی ثمرہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام مورنگ ضلع میں شباب پر ہے، آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام کو صرف اور صرف دعوت وتبلیغ کے لئے ہی وقف کردیا تھا۔ آپ نے مورنگ ضلع میں تبلیغی کام کو ایک نیا موڑ عطا کیا، تبلیغ کا کام آپکی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا، آپ نے پوری زندگی قال اللہ و قال الرسول کی صداء میں گزار دیا۔
آپ کے کارناموں کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ جسکو سمیٹنے کےلئے درجنوں صفحات درکار ہیں، جسے چند صفحات میں بیان کرنا گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنا ہے۔ اللہ نے آپ کو بصیرت و بصارت کی دولت سے نوازا تھا، اگر آپکی زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ آپ نے صرف دعوت وتبلیغ کو ہی کام کا میدان نہیں بنایا تھا، بلکہ تعلیم وتعلم اور اصلاح معاشرہ کو بھی اپنی زندگی کا ہدف بنایا تھا۔ آپ نے بیک وقت تین محاذوں پر انقلابی کام انجام دیا اور اس میں کلیدی رول بھی اداء کیا۔
1۔تعلیم وتعلم
2۔اصلاح معاشرہ
3-دعوت وتبلیغ
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے تعلیم وتعلم کو اپنے مشن کا حصہ بنایا تھا ، قرآن مجید کی سب سے پہلی آیت تعلیم کے بارے میں ہی نازل ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "أقرأ باسم ربك الذي خلق ، خلق إلإنسان من علق الآية.
اور جنگ بدر کے بعد سب سے پہلے جو movement چھیڑا گیا تھا وہ موبھمنٹ تعلیم کا ہی تھا، یعنی education for all "تعلیم سب کے لئے”۔
تعلیم کے میدان کا یہ دو کلیدی اور اہم بنیاد کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا رحمہ اللہ نے مشرقی نیپال میں education for all کا نعرہ slogan دیا، اور اس مشن کو تیزگام کرنے کے لئے اپنے ہم عصروں (جنمیں میں خاص طور سے مولانا الیاس قاسمی رحمہ اللہ اور مولانا جلال الدین صاحب سونا پوری اللہ ان کی عمر دراز کرے اور انھیں صحت وتندرستی عطا کرے) کے ساتھ مل کر تعلیم کے میدان میں قدم رکھا اور علاقے میں درجنوں مدارس و مکاتب کا جال بچھایا، یہاں تک کہ خود اپنی جائیداد کا کچھ حصہ وقف کر کے ڈائنیا گاؤں میں ” *مدرسہ اسلامیہ حسینہ ڈائنیا* ” کے نام سے ایک عظیم الشان ادارہ کی سنگ بنیاد رکھا، جہاں پر ہزاروں علم کے شہسوار قرآن وحدیث کی روشنی سے اب تک فیضیاب ہورہے ہیں۔(الحمدللہ میری بھی ابتدائی تعلیم اسی ادارہ میں ہوئی ہے).
آپ نے اسی پر ہی بس نہیں کیا بلکہ اصلاح معاشرہ کے امور کی انجام دہی کے لئے ” *اصلاح المسلمین* ” کے نام سے ایک فعال اور متحرک تنظیم کی داغ بیل ڈالا، جس کے ذریعے سے آپ نے علاقے میں اصلاح معاشرہ کا بغل بجایا۔ اور ایک دیندار مسلم معاشرہ کی بنیاد رکھنے کے لئے جہد مسلسل شروع کردیا۔ اس تنظیم کے ذریعہ سے آپ نے برائیوں کا خاتمہ کیا اور معاشرہ کو ایک نیا رخ عطا کیا اور معاشرہ کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے education for all کا نعرہ بلند کیا، interest free loan کی تھیوری theory پیش کیا، بیت المال کا تعرف اور اسکی افادیت پر روشنی ڈالا، interest free loan کے عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے Islamic banking system کا نفاذ عمل میں لایا۔
ان تمام مشغولیات کے باوجود آپ تبلیغی امور سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے، وہی جوش، وہی امنگ کے ساتھ آپ نے دعوت و تبلیغ کے مشن کو بھی جاری وساری رکھا۔ دعوت کا مشن آپکی زندگی کا مقصد تھا آپ ہرلمحہ اس فکر میں رہتے تھے کہ کیسے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہوجائے، کیسے ہر کس وناکس کی زندگی میں سوفیصد دین زندہ ہوجائے، کیسے لوگ اسلام کے پانچ بنیادی ارکانوں پر عمل پیرا ہو جائیں۔ مورنگ ضلع کا کوئی بھی گاؤں ایسا نہیں ہے جہاں آپ اللہ کے دین کو لیکر تشریف نہ لے گئے ہوں ۔ اللہ نے آپ کے ذریعے سے ہزاروں زندگیوں میں نئی روح پھونکا، ہزاروں بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقیم کا راستہ دکھایا۔ آپ دنوں میں گلیوں اور کوچوں میں پھرتے تھے ، لوگوں کو اللہ کے دین اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے تھے اور راتوں کو سربسجود ہو کر اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے، اللہ رب العزت نے آپ کی قربانیوں کے طفیل ڈائنیا بستی کو دعوت کے کام کے لئے قبول کیا، اور اسے مرکزی حیثیت بھی عطا کیا۔
مجھے یاد ہے کہ میں دارلعلوم ہدایت الاسلام انروا بازار سنسری نیپال میں زیر تعلیم تھا، مولانا اپنے دعوتی ساتھیوں کے ہمراہ ہمارے یہاں تشریف لائے تقریباً دو یا تین بج رہا تھا ناچیر اپنے دیگر دوستوں اور خاص طور سے انظر چچا کے ساتھ ملکر انکی ضیافت کی، تھوڑی دیر گفتگو ہوئی پھر وہ سپتری ضلع کے دعوتی سفر کے لئے روانہ ہوگئے، ( ڈائنیا سے سپتری تقریباً 80 یا 90 کیلومیٹر کا سفر ہے جسکو آپ نے سائکل سے طے کیا). سادگی آپ کی زندگی کا حصہ تھا، اللہ نے آپ کو مال ودولت سے بھی نوازا تھا لیکن آپ کی سادگی کو دیکھ کر کوئی نہیں کہتا کہ آپ کسی خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ نے اپنی دولت کو دنیا نہیں بلکہ آخرت سنوارنے کے لئے خوب خرچ کیا کرتے تھے۔
فجر کی نماز کے بعد سن 2010 میں تقریباً مئی یا جون کا مہینہ تھا اس عظیم داعی نے اپنی زندگی کا آخری سانس لیا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے اللّٰہ کے پیارے ہوگئے۔ بدقسمتی سے احقر ان کا آخری دیدار نہ کرسکا، کیونکہ احقر اسوقت کانپور میں زیر تعلیم تھا مدرسہ میں چھٹی ہوگئی تھی، دعوت وتبلیغ سے جڑے کچھ ساتھیوں کی ضد پر پندرہ دنوں کے لئے جماعت میں جانا طے ہوا، ظہر کی نماز کے بعد اپنے دوستوں کے ہمراہ کانپور مرکز کی طرف روانہ ہوا اور وہاں پہونچنے کے بعد ذمہ داروں سے ملاقات ہوئی اور مشورہ ہوا اور مشورہ میں یہ طے ہوا کہ ہماری جماعت کو ایک دن وہیں قیام کرنا ہے۔ شام کا وقت تھا مغرب کی نماز کے بعد چھت پر گیا تاکہ والدہ سے فون پر بات کروں ،فون لگا یا اور والدہ سے گفتگو شروع کردی اثناء گفتگو والدہ نے بتایا کہ حاجی اسلام صاحب کا انتقال ہوگیا یہ خبر سننا تھا کہ میرے بدن میں کپکپی طاری ہو گئی، چشم نم ہوگیا، اور سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آج ایک عالم کی نہیں بلکہ ایک عالم کی موت ہوئی ہے۔
آپکی زندگی کے کارناموں کے تمام پہلوؤں کو ایک مضمون میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اس کے لئے مستقل کتاب کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایک پہلو پر سیر بحث گفتگو کی جائے، یہ تو ایک سرسری تمہید ہے۔۔
آج ضرورت ہے کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے انقلابی کاموں کو نئی زندگی عطا کی جائے، اور انکے انقلابی مش کو پھر سے زندہ و تابندہ کیا جائے، انکی کی فکر کو، ان کی شخصیت کو، ان کے کارناموں کو نئی نسل کے سامنے اجاگر کیا جائے تاکہ پھر سے نئے انداز میں ان کے انقلابی تحریک کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مولانا کے مشن کو لیکر کھڑے ہونے توفیق دے۔
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کو نہیں نایاب ہیں ہم
آپ کی راۓ