مولانا عبد الرب رحیمی رحمہ اللہ اور ان کی حیات کے چند اہم گوشے

کتبہ /  شمیم عرفانی 

7 جولائی, 2020
((يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (27) ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (29) وَادْخُلِي جَنَّتِي (30) ))سورة الفجر
موت سب سے بڑی سچائی اور سب سے تلخ ترین حقیقت ہے کسی عزیز اور محبوب شخص کی وفات پر صدمہ سے دوچار ہونا ایک ایسا تکلیف دِہ تجربہ ہے جس سے جلد یا بدیر ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے موت  کا اپنا  کوئی موسم نہیں ہوتا وہ دبے پاؤں آتی ہے اورچپکے سے  ہم سے ہمارے بہت پیاروں کو چھین کر لے جاتی ہے فرشتہء اجل ہمہ وقت اپنے شکار کے تعاقب میں  لگارہتا ہے وہ اپنے اس مشن سے کبھی  ایک پَل کیلئے بھی غافل نہیں ہوتا،حیرت موت کے آنے پر نہیں  یہ توالہی نظام ہے  جانے والے تو چلے جاتے ہیں ہاں مگر حیرت ہم انسانوں پر ہے جو جانے والوں کی یاد میں رسمی طور پر چندقطرے آنسو بہاکر کچھ وقت کیلئے سمجھتے ہیں کہ ہم نے وفات شدہ کا حق اَدا کردیا  حالانکہ معاملہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ کمال تو تب  ہے جب ہم اپنی رخ ِ حیات کو سنوارنے میں اپنے ان جانے والے عزیز ازجان صالح لوگوں  کے نقوش حیات اور ان کی راہنما روشن ہدایات کو مشعل راہ بناتے  کرب وبلا کی کیفیت میں ان کے پسماندگان واہل خانہ کے ساتھ مواساۃ وغمخواری کا   عملی مظاہرہ کرتے ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے.
رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر                   عمر   بھر   کا  جاگنے   والا    پڑا  سوتا   رہا
ماموں عبد الرب رحیمی رحمہ اللہ میرے لئے نہ صرف یہ کہ وہ ماموں تھے بلکہ آپ میرے لئےایک مخلص  رفیق، ہمدردبھائی ، کرم فرما مصاحب اور ایک  کرم گستر سچے محب اور دوست کی حیثیت بھی رکھتے تھے  اس عمر میں اور ایسی عزیز تر شخصیت کی وفات  یقینا ہم سبھوں کیلئے  نہایت ہی  جانگسل  اور حَد درجہ  صبر آزما ہے  میں خاکسار راقم السطور ذیابیطسس ، جگر ، گردہ  ، ضعف بصارت ،ہائی بلڈ پریشر دسیوں مہلک امراض میں مبتلا ہوں چند ماہ قبل علاج ومعالجہ کیلئے ہند ونیپال میں لکھنئو، بھیرہوا اور گوکھپور وغیرہ  متعدد مقامات کی خاک چھانتے ہوئے  ایام سفر  میں اپنے احباب ومتعلقین بالخصوص محب مکرم ماموں رحیمی صاحب رحمہ اللہ کی  طویل صحبت ورِ فاقت سے بھی مجھےمحظوظ  ہونے کا بھی حسین موقع ملا اس لئے  آپ کی  اس مفارقت کا ذاتی طور پر مجھے ہم وغم اور حزن وملال  غیر متوقع طور پر بہت زیادہ ہےاب جسمانی نقاہت وکمزوری کے ساتھ  ان دِگرگوں حالات میں  ماموں رحمہ اللہ کے تعلق سے کچھ لکھنا میرے لئے جوئے شیر لانے کے مترادِف ہے تاہم اللہ سے خیر کی توفیق کا طلبگار ہوں اور ان سب عوارض کے باوَصف لرزتے ہاتھوں سے اپنی کمزور یاد داشت کی رشنی میں یہ چند سطریں ماموں رحمہ اللہ کے معتقدین ومحبین  کی خدمت میں حوالہء قرطاس کرنا اپنا فریضہء منصبی سمجھتا ہوں ،بصورتِ دیگر ڈر ہے کہیں میں گنہ گار نہ ہوجاؤںاللہ ماموں رحمہ اللہ کو غریق رحمت فرمائے اورآپ کو  فردوس ِ اعلی کا مکین بنائے۔آمین ۔
نام ونسب اور سن ِولادت :
نام : ( مولانا) عبد الرب بن ( مولانا ) سید تجمل حسین  منگلپوری بن سید  رحمت علی بن سید  امیر علی ہے۔ رحمہم اللہ جمیعا۔آپ کے پردادا سید امیر علی  رحمہ اللہ  کے علی الترتیب کل پانچ بیٹے تھے
مولانا عبد الجبار رحمانی   (کاشت خیرا)    (2) عبد اللہ ( راقم السطور کے  پردادا )         (3) عبد الرحمن          ( 4) صادق علی                    (5) رحمت علی
عام طور سے گھر کے اکابر اور خویش واقارب آپ کو بابو کے لفظ سے یاد کرتے تھے، آپ کے بقول  آپ  1971 عیسوی کے موالید میں سے ہیں( جیسا کہ آپ نےامسال 2020  رمضان المبارک کے آخری عشرہ مجھ سے ایک طویل  گفتگو کے دوران میرے ایک استفسار کے جواب میں اس بات کی وضاحت کی تھی) جب کہ آپ کی تعلیمی دستاویزات  پر آپ کی تاریخ ِ پیدائش کچھ اور درج ہے۔
خاندانی پس منظر :
 میرے ممدوح مولانا عبد الرب رحیمی  کی  جائے پیدائش موضع منگلپور پوسٹ کشولی نزد کلہوئی ، مہراج گنج ،یوپی انڈیا ہے  اور اسی نسبت سے آپ اور آپ کے والد گرامی یعنی نانا محترم مولانا سید تجمل حسین منگلپوری رحمہ اللہ ( متوفی  2009عیسوی) کو شہرت حاصل ہے لیکن دراصل  حسب ِ سطور ذیل  آپ کا  آبائی وطن موضع ببھنی خرد  ہےنانا منگلپوری رحمہ اللہ کی چار اولاد دو بڑی بیٹیوں اور دو بیٹوں میں ماموں رحیمی رحمہ اللہ تیسرے نمبر پر ہیں اور آپ کے چوتھے اور آخری صاحبزادے مولانا عبد الحق اشرف منگلپوری حفظہ اللہ ہیں جو  تدریس وخطابت  سے منسلک  ہیں۔
واضح کردوں کہ آپ  دونوں حضرات میرے سگے ماموں جناب عبد القادراور مولانا عبد المالک اثری کے عم زاد بھائی ہیں حفظہم اللہ جمیعا۔لیکن اس  صاحب علم وفضل گھرانہ سے ہمیں یا ہمارے گھر کےکسی  فرد کو  کبھی بھی اور کسی سے  بھی ہرگز ہرگز سگے  نہ ہونے کا احساس  پیدانہیں ہونے پایا بلکہ اس مبارک گھرانہ سے تاہنوز  ہم تما م افرادِ خانہ کو توقعات سے بھی  بہت  زیادہ زندگی   کے ہر موڑ پر  تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ اپنائیت ومحبت   اور خلوص وپیار کی  بھی سدا سوغات ملتی رہی ہےفجزاھم اللہ خیرا۔
ماموں رحیمی رحمہ اللہ کی  ولادت معاشی طور پر ایک مفلوک الحال مگر نہایت ہی  صاحب ِ علم وفضل گھرانہ میں ہوئی آپ کے والد ِ محترم میرے نانا مولانا سید تجمل حسین منگلپوری رحمہ اللہ وقت کے عظیم مصلح وداعی ،خطیب یگانہ ،کہنہ مشق معلم و مربی ،نہایت زاہد وپاک طینت  ، درویش صفت اور مقبول خاص وعام اور مغتنم  شخصیت  تھے بلکہ بسا شرک وبدعات میں ڈوبے علاقہ اور اطراف وجوانب میں  آپ کی مجاہدانہ اور مخلصانہ دعوتی وتعلیمی خدمات کے تناظر میں  بسا اوقات بعض اصحاب علم سے  میں نے آپ کی بابت شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب اور شاہ اسمعاعیل دہلوی رحمہما اللہ کا خلف الرشید کہتے ہوئے سنا ہے آپ کسی دینی ادارہ سے فارغ التحصیل عالم نہیں تھے لیکن دعوت دین آپ کا صلابت شوق وذوق ،آہنی عزم ویقین اور اسلوب خطبات کو دیکھ کر فخر جماعت مولانا ڈاکٹر انجم جمال اثری رحمہ اللہ نے آپ کو "خطیب گورکھپور "اور موضع دولہا کے ایک اجتماع میں خطیب الاسلام مولانا جھنڈانگری رحمہ اللہ نے ” مولانا ” کے توصیفی لقب کا  اعزاز دیا تھا چنانچہ آج گورکھپور ، مہراجگنج  نیز نیپال  کے اطراف ومضافات  بلکہ سدھارتھ نگر  وغیرہ  کے اکثر علاقوں میں بھی جمعیت وجماعت اور منہج سلف کی جو خوبو قائم اور قال اللہ وقال الرسول کی جوصدائے باز گشت  سنائی دے رہی ہے وہ بفضلہ تعالی آپ ہی  کی  ہمہ جہت سعیء جمیل کی مرہون ِ منت ہے یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ہر کوئی معترف اور قائل ہے آپ کی حیات پر  کئی صفحات پر پھیلا ہوا میرا ایک طویل مضمون ہے جس میں کسی حدتک تفصیل سے اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ ( ولا نزكي على الله  أحدا).
  ایک تحقیق کے مطابق ماموں رحمہ اللہ کے پردادا  جناب سید  امیر علی غالبا جناب سید جعفر علی رحمہ اللہ کے فرزندوں  میں سے ہیں علاقہ  کے معروف مستند  عالم مولانا عبد اللہ عباس سلفی حفظہ اللہ    کی روایت کے مطابق جماعت کی متبحر ، محقق ،نامور اور معتبر علمی شخصیت مولانا ابوالعاص وحیدی  حفظہ اللہ کا  غالب گمان یہ ہے کہ”  سید جعفرعلی  تحریک شہیدین  کے نامور جیالوں اور اس مشن سے  وابستہ  سرکردہ شخصیات اور اس قافلہء حق کے ارکان میں سے ایک  اہم رکن تھےجو دعوت دین  کے جذبہ سے سرشار  دوردور تک  ملک کے اطراف واکناف میں  پھیلے ہوئے تھے  "۔
یقین کی حد تک تو نہیں لیکن ظن غالب یہی ہے کہ ڈومریا گنج سے متصل ایک گاؤں کوہڑا  کے معروف داعی ومبلغ علامہ  سید لیاقت حسین  رحمہ اللہ کے والدگرامی  جناب سید حسن علی رحمہ اللہ  اورہمارے ممدوح مولانا رحمہ اللہ کے پرداداسید  امیر علی غالبا دونوں ہی سید جعفر علی  رحمہ اللہ کی اولاد میں سے ہیں میرےناقص  علم کے مطابق  یہ خانوادہ  ء سید ( امیر علی اور حسن علی )بھی غالبا  اسی انبیائی مشن کو زندہ رکھنے  اور طلب ِ رزق کے قصد وارادہ   سے  فیض آباد سے ہجرت فرماکر ان دونوں میں سے ایک کوہڑا کی نواح میں اور دوسرا ضلع گورکھپور ( حالیہ مہراج گنج ) کے اس دور افتادہ علاقہ موضع ببھنی میں اقامت گزیں ہوگیا تھا ،شنید ہے کہ غالبا تین پشتوں پہلے  ہمارایہ خاندان تشیع زدہ تھا لیکن اللہ ذوالمنن کا فضل خاص ہوا کہ تحریک شہیدین  کے سِلک ِ گہر سے مربوط ہونے کےبعد  انہیں منہج اہل السنۃ والجماعت سے   شناسائی  ہوئی اور پھر اسی منہج کو  تادَمِ حیات انہوں نے اپنے  لئے حرزِ جان بنا لیا۔ واللہ اعلم۔
جناب رحمت علی کی دو نرینہ  اولاد میں  ایک محمد رضا رحمہ اللہ دوسرےمولانا سید تجمل حسین  منگلپوری  علیہ الرحمۃ ہیں اورمیرے سگے نانا جناب عبد الرزاق صاحب رحمہ اللہ سید منگلپوری رحمہ اللہ کے اخیافی بھائی ہیں،آپ کی ایک ہمشیرہ  ام شہزاد   رحمہا اللہ کالیدہ نیپال  میں تھیں جو چند ماہ قبل غالبا ماہ  نومبر 2019  کے اوئل میں اللہ کو پیاری ہوگئیں  ،ان کی صلاۃ جنازہ عین بارش کے موسم میں خاکسار راقم السطور نے پڑھائی تھی۔
ببھنی خرد : یہ سچ ہے کہ ماموں رحیمی رحمہ اللہ موضع منگلپور سے نسبت رکھتے تھے اور یہی آپ کے جائے پیدائش بھی ہے لیکن آپ کا اصل آبائی مسکن موضع ببھنی خرد ہے جو ضلع مہراج گنج کے معروف قصبہ کلہوئی سے متصل دو کلو میٹر کے فاصلہ پر پچھم میں واقع ہے  یہ گاؤں جماعتی سرگرمیوں بالخصوص مدرسہ دارالقرآن والحدیث کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت کا حامل تھا یہ گاؤں  اور یہاں کا  مدرسہ تقریبا تین دہائی قبل  تک ہند ونیپال میں پچاسوں کلو میٹر کی حدود میں اپنی ہمہ جہت جماعت سرگرمیوں کے باعث  لوگوں کی  توجہ کا مرکز ہوا کرتا تھا،اطراف میں واقع سبھی مواضعات مثلا نیپال میں ضلع روپندیہی کے ترائی اور مرچواروغیرہ  اور انڈیا میں نوگڈھ اور گورکھپور کی حدود میں واقع  تمام  دیہی علاقوں میں  ببھنی کا مدرسہ دار القرآن والحدیث ، مدرسہ دارالہدی یوسف پور کے بعد  ثانوی درجہ رکھتا تھا قابلِ ذکر بات  یہ ہے کہ  یہ گاؤں اپنی تعلیمی اور دعوتی  خدمات اور سرگرمیوں  کیلئے اس قدر معروف تھا  کہ آج سے 35 ، 40 سال قبل انتہائی دِگر گوں  اور نامساعد حالات  وظروف  کے باوجودمولانا مختار ندوی ، مولانا عبد الحمید رحمانی ، شیخ صفی الرحمن مبارکپوری ،مولانا عبد الوحید رحمانی ، مولانا  صلاح الدین مقبول ، مولانا عبد الجلیل رحمانی ، مولاناعبد القیوم رحمانی ،مولانا عبد الوحید سلفی وغیرہم جیسے اعاظم رجال اور عباقر شخصیات نے اس موضع ببھنی خرد کو اپنے قدوم ِ میمنت لزوم سے  شرف بخشا ہے اس مدرسہ کی تاسیس اور قیام کا عمل نانا محترم مولانا سید تجمل حسین منگلپوری رحمہ اللہ کے استاذ مولانا عبد الحق اسکاوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں عمل میں آیا مولانا اسکاوی نورانی تیل کی ایک معمولی سی تجارت سے وابستہ تھے اور چلتے پھرتے دعوت وتعلیم کا فریضہ بھی انجام  دیتےاس مدرسہ کو جھونپڑے کی شکل میں قائم کرنے کے بعد مولانا اسکاوی علیہ الرحمۃ نے اپنے خلف الرشید شاگرد نانا محترم  مولانا منگلپوری صاحب کو اس کا معلم خاص متعین کردیا بعد ازآں اس  مدرسہ نے نہوض وارتقاء کے خوب مدارج طے کئے تقریبا چار دہائی قبل تک یہاں جماعت رابعہ تک کی تعلیم ہوتی  غربت ومسکنت کے اس دور میں بھی لائق وفائق اساتذہ ومدرسین کا ایک بہتر اسٹاف موجودتھا  اس کے سنہرے ادوار میں نانا رحمہ اللہ کے علاوہ   مولانا محمد حنیف فیضی ، ماسٹر عبد اللہ خان، ماسٹر عبد الوحید ، مولانا خیر اللہ اثری  ، مولانا مجیب الدین ( کھیدوپورہ ) مولانا ڈاکٹر انجم جمال اثری ، مولانا سالک بستوی ، مولانا عبد الکریم فیضی ، مولانا محمد ایوب انصاری اور مولانا عبد اللہ عباس سلفی وغیرہم  جیسے اساتذہء علم وفن وقفہ وقفہ سے قدم رَنجہ ہوتے گئے  ابتدائی درجات کے طلبہ کے علاوہ  تقریبا 50 ، 60 کی تعداد میں مدرسہ میں داخلی طلبہ بھی   زیر تعلیم ہوا کرتے تھے  اسی کشت ِ ویراں سے زلہ ربائی کا ثمرہ تھا کہ یہاں سے مشاہیر  اساطین ِعلم وفضل پیدا ہوئے مدرسہ دار القرآن میں نانا رحمہ اللہ کے شاگردانِ خاص میں افاضل علمائے کرام مولانا عبد الحکیم ریاضی ، ( والد گرامی  )مولانا عرفان اللہ ریاضی ،مولانا خیر اللہ اثری ،مولانا  نیاز احمد سلفی ، مولانا عبد الواجد فیضی ،مولانا عزیز عمر سلفی ،مولاناجلال الدین سلفی ( خیرہوا ) ڈاکٹر عبد السلام علیگ ، مولانا عبد اللہ عباس سلفی( منگلپور)، مولانا عبد اللہ ( ببھنی ) مولانا عبد اللہ سلفی ( خیراکاشت)  ، مولانا عبد الرؤوف اثری، مولانا علاء الدین فیضی ،راقم السطور شمیم عرفانی نیز ہمارے ممدوح اورنانا کے فرزند ان ِمحترم   مولانا عبد الرب رحیمی اورمولانا عبد الحق اشرف وغیرہم قابل ذکر ہیں  لیکن :
                                          واحسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ                                                                     مجھ کو حریص ِ لذت آزار دیکھکر
  اب یہ موضع  اپنے اہالیان کی مفسدانہ حرکتوں ، دسیسہ کاریوں اور برادرانہ عصبیتوں کے دام کا شکار ہوچکا ہے جس کاایک منفی اثر یہ بھی ہوا کہ  یہ مدرسہ بھی رجعتِ قہقری کا شکار ہوگیا  بلکہ اب اپنا وجود بھی کھوچکا ہے فی الحال  اس وقت  میرے محترم ماموں مولانا عبد المالک اثری کے اشراف میں صرف ابتدائی تعلیم کا سلسلہ جاری وساری ہے۔
ببھنی جو ایک گاؤں تھا عالم میں انتخاب                                                    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگا ر کے
جس کو فلک نے لوٹ کے  برباد   کردیا                                        ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دِیار کے
( معمولی تبدیلی کے ساتھ)
خیر یہ درد بھری روداد کسی اور وقت ۔۔۔ان شاء اللہ ،یار زندہ صحبت باقی۔مختصر ،مولانا موصوف ؒ    کا آبائی اور اصلی   مسکن یہی گاؤں  موضع ببھنی خرد ہے۔ اوردو دہائیوں تک مختلف مواضعات اور مقامات سے نقل کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے  بالآخر فی الحال آپ  دو سال سے مع اہل و عیال ببھنی آزاد نگر میں دوبارہ  اقامت  گزیں تھے۔
 منگلپور : حالات کی کریختگی اور کچھ ناہمواریوں کے باعث آج سے تقریبا 65 سال قبل  نانامحترم رحمہ اللہ ببھنی گاؤں سے  موضع منگلپور میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے  یہ گاؤں دینی لحاظ سے یکسر بدعات وخرافات اور شرک کی آلودگی میں ڈوبا ہوا تھا  گاؤں میں ہجرت کے بعد نانا رحمہ اللہ نے حتی المقدور اپنی  پوری توجہ دعوت وتعلیم پر مرکوز کردی اور بڑے حکیمانہ انداز سے شرک وبدعات ، اوہام وخرافات اور باطل افکار ورسوم اور نظریات کے خلاف  محاذ قائم کردیا اسی خرمن ِ علم وفضل سے خوشہ چینی کا نتیجہ تھا کہ آپ کے شاگردان ِ خاص میں آپ کے ہر دلعزیز اور محب ِ خاص گاؤں کے ایک فرد جناب عباس علی  رحمہ اللہ کے فرزند  مولانا عبد اللہ عباس سلفی  منگلپوری حفظہ اللہ آپ کے اس انبیائی مشن میں بہ ہمہ وجوہ  معاون کار ثابت ہوئے،اللہ  رب ذوالمنن کے فضل خاص اور پھر نانا رحمہ اللہ کی  حد درجہ  جہد ِمسلسل، سعی ءِ پیہم اور تعلیمی و دعوتی خدمات جلیلہ   اور آپ کے شاگرد ِ خاص فضیلۃ الشیخ عبد اللہ عباس سلفی حفظہ اللہ  کی شبانہ روز انتھک کوششوں سے  آج سے تقریبا دو دہائی قبل یہاں ایک مدرسہ ومسجد کا قیام بھی ہوچکا ہے ۔جس میں ابتدائی درجات کی تعلیم ہوتی ہے اور یہ مدرسہ اپنے انوار وتجلیات سے  پورے گاؤں  اور اطراف کو منور کررہا ہے ۔
ماموں عبد الرب رحیمی علیہ الرحمہ نجیب الطرفین تھے دادھیال اور نانہیال دونوں طرف سے  علم وفضل میں رفعت وبلندی آپ کے خمیر میں شامل تھی دادھیال کی بابت کچھ باتیں عرض ہوچکی ہیں آپ کا نانہیال موضع اماری نیپال میں ہے  آپ کے نانا موضع اماری کے باشندہ جناب سیف اللہ صاحب  انصاری رحمہ اللہ تھے جو ناظم  صاحب کے نام سے زیادہ مشہور تھے نہایت ہی خدا ترس ، پاک طینت  اور زہد وتقوی کے حامل انسان ،انہی کی تربیت کا اثر نانی رحمہا اللہ کی سرشت میں بھی  یکسرظاہر وباہر تھا نانی رحمہا اللہ حد درجہ متقیہ ، زہد وورع سے متصف  ،علم واہل علم کی قدر شناس ، فرائض وسنن اور نوافل کی کا التزام ومواظبت نیز اذکار وظائف کی خوگر  اور بابصیرت  خاتون تھیں رحمہا اللہ ۔
طالبعلمی کا سفر :
ماموں رحمہ اللہ کے خاص اساتذہ میں :مولانا ڈاکٹر انجم ، مولانا محمد حنیف فیضی ،مولانا  عبد الکریم فیضی ، مولانا محمد ایوب انصاری ،مولانا ممتاز احمد سالک بستوی اورمولانا عبد السلام  یوسفی ( کالیدہ ) ،مولانا عبد اللہ عباس سلفی ،سید عبدالاول ( ریواں ) ، مولانا عبد السلام رحمانی ( اوسان کھوئیاں ) مولانا احمد علی شیر میوات  اور مدرسہ ریواں اور مدرسہ رحیمہ کے دیگر علماء وفضلاء شخصیات سر فہرست ہیں ۔موصوف  کاتعلیمی سفر موضع لبدہا سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ نے اپنے پِدر بزرگوارمولانا منگلپوری رحمہ اللہ  اور مولانا ساجد اللہ حفظہ اللہ کے زیر سایہ مکتب کی تعلیم حاصل کی،آپ کی بالکل  ابتدائی تعلیم موضع لبدَہا میں نانا رحمہ اللہ ہی کے ذریعہ ہوئی  تھی نانا رحمہ اللہ کچھ ماہ وسال تک اس مدرسہ سے منسلک  رہے بعد ازآں  مدرسہ دار القرآن ببھنی میں مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوگئے  میری ابتدائی تعلیم کا سلسلہ  بھی ببھنی ہی میں نانا رحمہ اللہ کے سایہ ء عاطفت میں جاری رہا انہی ایام میں  نانا رحمہ اللہ موضع لبدہا  میں دوبارہ پھر  منتقل ہوگئے تو مجھے بھی مدرسہ مفتاح العلوم گلہریا نیپال میں والد گرامی مولانا عرفان اللہ ریاضی رحمہ اللہ کے پاس منتقل کردیا گیا تقریبا ایک سال کے بعد جب دوبارہ ببھنی میں  نانا رحمہ اللہ کا ورود مسعود ہوا تو خاکسار راقم السطور بھی  1984 میں مفتاح العلوم گلہریا نیپال میں ایک سال کی تعلیمی مدت گزار کر  دار القرآن ببھنی میں آگیا اس وقت نانا رحمہ اللہ کے ساتھ ساتھ مولانا ڈاکٹر انجم ، مولانا محمد حنیف فیضی ،مولانا  عبد الکریم فیضی ، مولانا محمد ایوب انصاری ،مولانا ممتاز احمد سالک بستوی اورمولانا عبد السلام  یوسفی ( کالیدہ ) دار القرآن میں فریضہء تدریس کی ادئیگی  پر مامورتھے اور موصوف رحیمی  رحمہ اللہ ان افاضل  اور اجلہ علماء سے کسبِ فیض کررہے تھےمولانا رحمہ اللہ کو اسی سال میں نے دیکھا آپ عربی جماعت  اولی کے طالبعلم تھے اور ان ایام میں آپ کی زبان شیریں پر میں  فارسی کا یہ  مصرع  بارہا گنگناتے ہوئے سنتا جس سے   مجھے بھی  یہ شعرحفظ ہوگیا ۔
                                                  کریما  ببخشائ  بر   حال ِ  ما                   کہ    ہستیم    اسیر   کمند     ہوا
         نداریم غیر از تو فریاد رس                         توئی عاصیاں را خطا بخش و بس
 اس وقت آپ کے زملاء میں مولانا عبد اللہ سلفی بن مولانا عبد الحکیم ریاضی ، مولانا مقبول احمد ( دیو ا پور)   اور مولانا محمد عمر وغیرہ تھے انہی ایام میں ببھنی مدرسہ میں مولانا انجم رحمہ اللہ کے دو فرزند محترم مولانا  آصف ہلال  اور ڈاکٹر شمس کمال بھی بغرض تعلیم داخل ہوئے تھے،یہ ماموں رحمہ اللہ کی عربی جماعت اولی  کا مرحلہ تھا جس کو بخوبی میں  نے دیکھا اور سنا ہے  ،سال 1986 میں مولانا انجم اور نانا منگلپوری رحمہما اللہ کی ہدایت اور توجیہ پر میرے والد محترم مولانا عرفان اللہ ریاضی رحمہ اللہ نے جماعت ادنی کے بعد  میرا داخلہ معہد التعلیم الاسلامی نئی دہلی میں کرادیا اور ماموں مولانا رحیمی رحمہ اللہ مزید مزید دو سال کا عرصہ گزار کرجماعت رابعہ کے بعد  1988 میں ضلع بستی کی معروف ترین درسگاہ موضع ریواں میں  مولانا سید عبد الاول  رحمہ اللہ کے پاس چلے گئے،تقریبا 2سال تک وہاں  رہ کر آپ مولانا سید عبد الاول ، مولانا عبد السلام رحمانی  رحمہما اللہ اور دیگر   افاضل اساتذہ کرام سے اپنی علمی تشنگی بجھاتے رہے  اور مرحلہء  عالمیت مکمل کرنے کے بعد آپ 1990 میں مزید اعلی  تعلیم  کے حصول کیلئے   معہددہلی کی طرف رخت ِ سفر باندھا اس وقت معہد میں ،خاکسار ثانیہ ثانویہ کا طالبعلم تھا ، ان ایام  میں معہد دہلی  میں فراغت کے سالوں میں داخلہ ناممکن تھا  مجبورا ماموں رحمہ اللہ نے مدرسہ رحیمیہ مہندیان میں سال فراغت کے اندر داخلہ لیا دہلی میں دورانِ قیام آپ کے پاس مدرسہ رحیمیہ میں میری آمد ورفت اور آپ سے شرف باریابی کے حصول  کا سلسلہ جاری رہا ،یہ وہی مدرسہ رحیمیہ ہے جو خانوادہء ولی اللہی  کی علمی یادگار ہے جہاں شاہ عبد الحق ،شاہ عبد العزیز ، شاہ عبد الرحیم اور پھر ان کے تلمیذ ِ رشید سید نذیر حسین محدث دہلوی وغیرہم رحمہم اللہ جمیعا  نےقال اللہ اور قال الرسول کی صدائے رستخیز  بلند کی تھی،مدرسہ نذیر حسین  محدث دہلوی اس کے بہت بعد کی پیداوار ہے اس ایک سالہ تعلیمی مدت میں  ہفتہ  عشرہ میں تسلسل کے ساتھ ماموں سے  ملاقاتیں ہوتیں آپ کے ساتھ خورد  ونوش  ،نشست وبرخاست اور گفت وشنید کے بہتیرے سنہری مواقع میسر ہوئے ،آپ کی رفاقت میں مدرسہ رحیمیہ کے مضافات میں آصف علی روڈ ،  کستوربا اوراربَن  ہاسپٹل ،ایوان غالب ،مولانا آزاد میڈیکل کالج اور دریا گنج وغیرہ کی سیاحت کےبھی زریں لمحات  بہم ہوئے ،آپ نے مدرسہ رحیمیہ کے سرپرست اعلی شیر ِ میوات احمد علی سے بھی مجھے متعارف کرایا  شیر ِ میوات کا یہ جملہ آج بھی مجھے یاد ہے کہ "حضرت! اگر آپ کے صدر ِ مرکز مولانا رحمانی  صاحب ( رحمہ اللہ ) کو اس مدرسہ میں آپ کی آمد کا پتہ چلا تووہ جزبز ہوں گے” ، اسی تعلیمی سال میں مدرسہ رحیمیہ میں ماموں رحمہ اللہ کے بالکل  پڑوس مقیم میں ایک شب صبح فجر سے پہلے ایک طالبلعلم کے قتل کا وقوعہ بھی پیش آیا جس کاذکراخبارات کی سرخیوں میں ہوا ،ماموں رحمہ اللہ میری آمد پر خانوادہء شاہ ولی اللہی کے آبائی مقبرہ سے متصل رحیمیہ  کی جامع مسجد میں میرے لئے کھانےمیں اکثر بریانی اور زردہ وغیرہ کا اہتمام فرماتے۔۔جزاه الله خيرا و أكمله و أوفاه. یہ وہ  ناقابل  فراموش   لمحات  اور ایام  ہیں جو آج بھی میرے لوح ِ دل ودِماغ پر مرتسم ہیں ۔ قصہ مختصر،اس مدرسہ میں مولانا رحمہ اللہ کے تعلیمی سفر کا یہ سال اول وآخر تھا یہاں سے فراغت کے بعد ہم دونوں ویشالی ٹرین سےایک  ساتھ ہی اپنے وطن گورکھپور  واپس  آئے ۔
رشتہء ازدواج اور اولاد:
آپ کی زادواجی زندگی بڑی مبارک اور قابل ِ صد رشک رہی ،اس اعتبار سے بھی آپ  بڑے خوش نصیب تھے  آپ کی شادی خانہ آبادی غالبا 1989 عیسوی میں ضلع بستی ( حالیہ سدھاتھ نگر )  کے  قصبہ ڈومریا گنج ( بیدولہ چوراہا) کے معروف علمی گھرانہ  میں میرے خالو مولانا سید عبد الحنان رحمہ اللہ کی  دخترِ نیک اختر  سے ہوئی ،جو ضلع بستی  کے مشہور گاؤں کوہڑا کے معروف اور دیدہ وَر عالم   علامہ سید  لیاقت حسین بن سید حسن علی  رحمہما اللہ ( جوکسی حد تک جماعت اسلامی سے متاثر تھے اور اوپر جن کا ذکر خیر ہوچکا ہے ) کی پوتی ہیں موصوفہ بھی  اپنے خاندان کے دیگر افراد کی طرح الحمد للہ دینی تعلیم سے روشناس ،تہجد گزار ،دین پسند اور سادہ طبیعت کی مالک خاتون ہیں صبر وہمت کا پیکر ، مرضیء مولی از ہمہ اولی کی حریص ،یاوہ گوئی اور رکیک وبے ہودہ امور سے یکسر دور ، ضیافت اور حسن ِ اخلاق کا  مکمل سراپا ۔ رشتہء ازدِواج میں منسلک ہوجانے کے بعد  آغاز امر میں گاہے بگاہے ماموں سے آپ کے ازدواجی حالات کے بارے استفسار کرتا تو پورے اطمینان اور وثوق کے ساتھ لمبی سانس لیتے ،الحمد للہ کہتے،اللہ کاشکر بجا لاتے ، شریک حیات کی ستائش کرتے اور ان کے صبر وہمت ،خوش خلقی ،نرم خوئی اور خداترسی کا ذکر خیر فرماتے اللہ ان کو صبر وہمت اور عزیمت دے اور دونوں جہان کی سعادتوں سے  بہرہ یاب فرمائے۔آمین۔
اللہ ذوالمنن نے ماموں رحمہ اللہ  کو پانچ بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا ہے ،الحمد للہ اپ کی تمام اولاد( ذکور واناث )  لائق وفائق ،دینی تعلیم سے آراستہ ،حد درجہ با ادب ،خلیق اور ملنسار ہیں ۔ ان میں سے  علی الرتیب اپنی تین بیٹیوں  کی شادی کی ذمہ داری سے آپ فارغ ہوچکے تھے ،  الحمد للہ آپ کے داماد بھی دینی مدارس کے فارغ التحصیل ،خوش اطوار اور نیک سیرت وکردار کے حامل  ہیں  پہلی بیٹی فہیمہ   موضع بھرولیا نیپال کے عزیزم مولانا صفی الرحمن سے دوسری بیٹی حلیمہ موضع ببھنی انڈیا  میں مولانا رحیمی کے بھانجے عزیزم مولانا عبدالعلیم  عالی سے اور تیسری بیٹی ریحانہ موضع کالیدہ نیپال  میں دوسرے بھانجے مولاناسعید عالی سے منسوب ہیں اور بفضلہ تعالی سبھی صاحب ِ اولاد ہیں باقی دو بیٹیاں اوردو صاحبزادگان  عبد الحلیم اور عبد العظیم کا رشتہ ہنوز باقی ہے چھوٹے بیٹے فی الحال عزیزم عبد العظیم  جامعہ اسلامیہ سنابل میں مرحلہء ثانویہ میں زیر تعلیم ہیں  اللہ مولائے کریم آپ کے اہل خانہ کو سدا مبارک اور شاد رکھے ۔آمین۔
دعوتی اور تدریسی مصروفیات :
رحیمیہ دہلی سے فراغت کے بعد آپ کی پوری زندگی دین حنیف کی خدمت میں گزری آپ کا یہ مبارک سفر تقریبا تین دہائیوں کو محیط اور کئی مرحلوں پر مشتمل ہے آپ نے  شروعات میں موضع لَبدہا  اور موضع ببھنی میں  کچھ سالوں تک تدریسی خدمات انجام دی ،پھر کچھ دِ نوں تک آپ ضلعی جمعیت مہراجگنج  کے تابع  کلہوئی میں قائم  ایک کمرہ پر مشتمل آفس میں بحیثیت مبلغ اور ٹریزرر اپنا قیمتی وقت گزارا( ارباب ِ جمعیت کا یہ ایک وقتی جوش وجنون تھا جو کچھ ہی ماہ میں دَم توڑ گیا )،بعد ازآں آپ نے موضع کاشت خیرا میں مولانا مصباح الدین صاحب حفظہ اللہ کے ساتھ کئی سالوں تک مدرسہ سے منسلک ہوکر تدریس کے فرائض انجام دئیے اور پھر وہاں سے نیپال میں  سرحد پار موضع گنیش پور کے مکتب کو بھی آباد کیا ،پھر کچھ ماہ وسال کے بعد مدرسہ فرقانیہ بھینساگاہن  کی تعلیمی شاخ موضع سمرہنا  کے مدرسہ میں ایک طویل مدت تک تسلسل کے ساتھ اپنے اس انبیائی مشن کو زندہ رکھا قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ اس دوران آپ نے بڑی کسمپرسی اور مالی بے بضاعتی کے باوجود اپنے اہل وعیال  کو بھی  اپنے ساتھ رکھا جس کے پیچھے کئی مصالح کارفرماتھے غالبا بڑا مقصد یہ تھا کہ  بچوں سے ملاقات کیلئے ہر ہفتہ  سفر کی صعوبتوں  اور مزاحمتوں سے نجات حاصل ہو نیز بچوں کی تعلیم وتربیت اور نگہداشت پر قابل ِ اطمینان حدتک توجہ دی جاسکے  ،موجودہ دور میں بیشترنظمائے مدارس کے جور وجفا سے کون ناواقف ہے  چنانچہ برسہا برس  کم وبیش 13 سال کی  مدت  مدید کے بعد آپ اس مدرسہ کو بھی  الوداع کہنے پر مجبور ہوگئے اور کچھ ماہ  تک فارغ البال رہنے کے بعد نیپال ہی میں قصبہ بھیرہوا سے متصل بسڈیلیا کی جامع مسجد میں امامت وخطابت کے میدان سے  ہمرشتہ ہوگئےاسی درمیان  اپنے بچوں کوببھنی آزاد نگر میں  اقراء انٹرا کالج کے بالکل سامنے اپنی ایک  چھوٹی سی موروثی زمین میں  دو کمروں  کا چھوٹا سا مکان  بنواکر منتقل کردیا  اور پھرتقریبا دو سالوں سے  تادَم حیات آپ اپنے اسی پیشہء خطابت سے وابستہ رہے .و لله الحمد على ذلك.
سیرت وکردار        :
ہمارے ممدوح مولانا رحیمی قوم وملت کیلئے قدرت کا انمول عطیہ تھے،دیکھنے والا پہلی نظر میں آپ سے مانوس اورآپ کی شخصیت کا گرویدہ ہوجاتا شکل وصورت سے درمیانہ قد ،ہشاش وبشاش چہرہ،تبسم کی لکیریں خد وخال پر ہویدا،عالمانہ وجاہت ،پروقار نقوش مترنم آواز  نیزجذاب اور دلآویز شخصیت کے مالک،سیرت وکردار میں  خصائل حمیدہ کے اعلی  وارفع مقام سے متصف ،نرم خو ، خوش مزاج ، سادہ طبیعت ،جذباتیت سے بیزار ، دعوت ِ حق کےجذبہ سے سرشار ،تواضع وخاکساری کا نمونہ ، اعلی اخلاقی قدروں کامناد، اخاذ ذہن ، بصیرت، خلوص و محبت کا سراپا ، نیک عادات واطوار جیسی  ستودہ صفات کے حامل اور خلوص و محبت کا سراپا دینی پہلو سے فرائض ونوافل کا اہتمام،کتاب وسنت  سےقلبی لگاؤ ،خویش وبیگانہ سے خندہ جبینی سے ملاقاتیں ،بڑوں کا حد درجہ ادب ، چھوٹوں پر شفقت وپیار ، دلکش وجاذب انداز تکلم ،صبر و شکر اور قناعت  کا مرقع دعوت ِ دین سے شغف  وغیرہ قابل ِ صد رشک  جیسے اوصاف کا پیکر ایسے ہی ایک انسان کا نام تھا عبد الرب رحیمی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ۔ آپ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ اخلاقیات کے باب میں منفی امور سے گریزاں رہتے ،غیبت ، تعلی ولاف زنی ، کبر و رعونت ،یاوہ گوئی ، ، حرص وطمع ، شخصیات اور ذات  میں استخفاف ، تنقیص  وتضحیک  وغیرہ جیسی  خبیث اورفحش عادات واطوار سے کالے کوسوں دور ، ظاہر وباطن میں نفاست وپاکیزگی کے حریص ، زہد وورع ، تقوی اورخداترسی کے خوگر ،خوش مزاجی ، بذلہ سنجی اور مرنجاں مرنج شخصیت کا مرقع اور آئینہ دار تھے۔ دعوتی اجتماعات میں شرکت کیلئے پچاسوں کیلو میٹر دور جگہوں پر سائیکل کے ذریعہ پہونچنا  ان کا عام وطیرہ تھا  ۔آپ نے دعوت دین میں تدریس کے علاوہ خطابت ،دروس اور وعظ تذکیر کو بھی  اپنا وسیلہ بنایاآپ کی شستہ زبان ، عام فہم اسلوب بیان ،دلکش طرز تخاطب  اور تمثلی انداز سے کوئی بھی موضوع یا شرعی مسئلہ بڑے سہل انداز میں سامعین کے دلوں میں گھر کرجاتا،گاہے بگاہے دینی اجتماعات میں  اپ کی نظامت کا انداز بھی دلکش اور خوب سے خوب تر ہوتا والد ِ گرامی مولانا عرفان اللہ ریاضی رحمہ اللہ( متوفی 2007 عیسوی ) کی وفات کے  ہفتہ عشرہ ایام کے بعد دار السلام مڑلا میں منعقد ایک تعزیتی اجتماع میں مولانا امجد نیپالی رحمہ اللہ اور مولانا نسیم احمد مدنی وغیرہما کی موجودگی میں اسٹیج  کی نظامت آپ کو سپرد کی گئی  خاکسار ،والد رحمہ اللہ کے سانحہء ارتحال سےاس رقت  آمیز ماحول  کی تاب نہ لاکر بالکل  غمزدہ وافسردہ   نشستگاہ سے باہر مدرسہ کی فیلڈ میں غلطاں وپیچاںایک جگہ گوشہ نشین تھا کہ کچھ ہی دیر کے بعد مولانا ماموں رحمہ اللہ  کی پرتاثیر آواز پردہء سماعت سے ٹکرائی جس نے یکایک  مجھے اپنی طرف  یکسر جذب کرلیا میرے دل ودماغ کی دنیا  میں ایک فرحت بخش  تبدیلی پیدا ہوئی اور میں  بھر پور سکینت کے ساتھ اجتماع میں آبیٹھا ،ایسے ہی 6 ماہ قبل جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے شیخ الجامعہ مولانا خورشید احمد سلفی حفظہ اللہ جب میری عیادت کیلئے گھر پر تشریف لائے تو اس مناسبت سے بھی مدنی  جامع مسجد آزاد نگر میں ایک دعوتی نشست کا اہتمام کیا گیا آپ نے اس موقع پر بھی اپنی نظامت کے  علمی جواہر لٹائےاورخوب خوب  داد وستائش پائی،کچھ ہی ایام کے بعد صلاۃ فجر کے بعد میں نے درس قرآن کیلئے آپ سے گزارش کی اس موقع پر آپ نے مسحور کن  آواز اور رقت انگیز اسلوب  میں سورۃ الحاقۃ کی درمیانی آیات ( فيقول هاؤم اقرؤا كتابيه….)کی بڑی خوبصورت تفسیر اور تشریح فرمائی  وہ مبارک اور سحر آگیں سماں  شاید میں کبھی نہ بھول پاؤں ،مولانا رحمہ اللہ کی زندگی میں مختلف نشیب وفراز آئے ، حالات کی کریختگی ، مالی دشواریوں نے آپ کوکچوکے لگائے لیکن ان شوریدہ وآشفتہ  اور کربناک حالات میں بھی آپ نے کبھی کسی کے سامنے اپنے فقر واحتیاج کا رونا رویا اور نا ہی  کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کیا  بلکہ ہر حال میں صابر وشاکر ہوکر زندگی گزاری۔
                                      غم ہی چادر ہے غم ہی بستر ہے                                      غم ہی اب غمکسار ہوتا ہے                               ( شمیم عرفانی)
                             ہزاروں غم چھپے ہیں ایک آغوش تبسم میں                                    مرے احباب میری زندگی کا حال کیا جانیں
 اس کے باوصف میں نے کسی  قریب وبعید سے کبھی نہیں سنا کہ آپ کسی بھی شخص کے مقروض رہے ہوں إلا ما شاء الله.بحیثیت مدرس بھی آپ کی زندگی بڑی پرکشش اور قابل ِ صد ستائش تھی مجھے آپ کے زمانہء تدریس میں  کاشت خیرا  اور لبدہا میں بحیثیت ممتحن جانے کاشرف حاصل ہوا میں نے  آپ کے رفیق کار مولانا مصباح الدین   حفظہ اللہ اورناظم سعیدرحمہ اللہ  نیز   لبدَہا میں آپ کےمصاحب مولانا اکبر علی سے ملاقاتیں کیں اور ان  سے ماموں کی فرض شناسی ،طریقہء تدریس  نیز واجبات کی ادائیگی میں امانتداری کا پاس ولحاظ وغیرہ جیسی خوبیوں کی بابت جان کر بڑی خوشی ہوئی ،مکتب میں بچوں سے پیار وشفقت کا مظاہرہ فرماتے ، ان کی سہولیات اور مزاج وطبیعت  کا خاص خیال رکھتے،مختلف انداز سے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ان کے حق میں ناصحانہ وخیر خواہانہ رویہ اور موقف  اختیارکرتےطلباء کے تابناک مستقبل اور اس سے ہمرشتہ مفادات اور مصالح سے متعلق سرپرستوں کو خیر خواہانہ صلاح ومشورہ دیتے ۔آپ کی سیرت سے متعلق عجالہء نافعہ کے طور پر یہ ایک مختصر جھلک تھی  وگرنہ  خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں جا نے والے میں۔
سفر ِآخرت:
ماموں مولانا رحیمی رحمہ اللہ اپنی صحت وتوانائی کا خاص خیال فرماتے،زندگی  کی بھاگ دوڑ میں میں نشیب وفراز اور زیروبَم کا سلسلہ ہر کسی  کےساتھ لگا رہتا ہے  لیکن  ماموں رحمہ اللہ کے بارے میں  ان کی زندگی  کے  کسی بھی پڑاؤ میں کبھی نقاہت یا  جسمانی عارضہ  سننے یا دیکھنے میں نہیں آیا ہر آن اور ہرگام متحرک ، فعال  چاق وچوبند اور ہشاش وبشاش  نظر آئے ،امسال مابعد رمضان ،شوال کے ابتدائی ایام میں آپ کو تنفس ، سینے میں درد اور کھانسی کی شکایت پیدا ہوئی،احباب واقارب نے علاقہ میں موجود ڈاکٹرزصاحبان : ڈاکٹر اشرف ( خیرا) ، ڈاکٹر ارشد ( کلہوئی ) اور ڈاکٹر ابوالکلام ( برڈ پور ) سے علاج ومعالجہ کیلئے رجوع کیا تقریبا پچیس دن کا اچھا خاصا وقت گزر گیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دَوا کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق  آپ  کو تنفس وغیرہ کے ساتھ غیر معلوم مدت سے ہائی بلڈ  شوگر کا مرض بھی لاحق تھا بروقت جس کا علم نہ ہونے کی وجہ سے تدارک نہیں کیا جاسکا  جس کے باعث آپ کے گردے اور لیور دونوں متاثر ہوچکے تھے  وفات سے آخری  3 دن  قبل میرے خالہ زاد محترم سید عبید الرحمن (منا بھائی جان )سے میرا صلاح ومشورہ ہواچنانچہ میرے شدید اصرار پر نیز منا بھائی جان  کی  ذاتی کوششوں سے مورخہ 25 جون بروز جمعرات آپ  کو لکھنئوکے   ایک مشہور ہاسپٹل   میں ایڈمٹ کرایا گیا اس وقت آپ کی کیفیت ناگفتہ بہ ہوچکی تھی شوگر کا لیول ہزار سے بھی متجاوز ہوچکا تھا آپ کے ساتھ آپ کے سالے جناب  سید عبید الرحمن ،آپ کی زوجہ محترمہ ، چھوٹےصاحبزادے  عبد العظیم اور داماد عبد العلیم عالی  بھی تھے،جمعرات کو شام کے وقت ماموں سے ویڈیو کال کے ذریعہ ایک پَل   کیلئے میری سلام ودعا ہوئی  جس پر آپ نے اشاروں میں اپنی مسرت کا اظہار کیا ،ڈاکٹروں نے اپنی صوابدید سے خیر کی امید دِلائی  ،رات گزر گئی  تاہم جمعہ کے دن آپ امید وبیم کی کیفیت میں تھے  بالآخر ڈاکٹروں نے آپ کو آئی سی یو میں داخل کردیا سنیچر کےدن صبح کے وقت منا بھائی جان( سید عبید الرحمن)نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق دوران علاج مریض کو ایک بار ہارٹ اٹیک ہوچکا ہے اس لئے  انجکشن کے ذریعہ ڈاکٹرز کی  پوری کوشش ہے کہ انہیں بیہوشی کی حالت میں رکھا جائے تاکہ علاج ومعالجہ میں کوئی خلل پیدا نہ ہولیکن نوشتہء تقدیر کو کون ٹال سکتا ہے ،مورخہ 27 جون بروز سنیچر  دوپہر میں دوسری کال پر عزیزم عبد العظیم نے بتایا کہ محترم ابو کو مزید دو ہارٹ اٹیک ہوچکا ہے ڈاکٹرز صاحبان علاج میں مصروف ہیں تاہم کچھ ہی دیر کے  بعد  میری اہلیہ ام سلمان  نے بتایا کہ بابو عبد العظیم نےابھی ابھی یہ  جانکاہ خبر دی ہے  کہ  انڈین ٹائم کے مطابق چھ بجکر 45 منٹ پر   والد صاحب  ،اللہ کو پیارے ہوگئے رحمہ اللہ و غفر لہ۔
رات تقریبا  دو بجے عزیزان عبد العظیم وعبد العلیم عالی آپ کی نعش کو لکھنئو سے لیکر گھر پہونچے  ہرطرف فضا سوگوار ، ہر شخص حیران وششدر ،زبانوں پر استرجاع اور ترحم کے کلمات ، مغفرت کی دعائیں  تھیں،الغرض آپ کی نمازجنازہ کیلئے دوسرے دن اتوارکی صبح  نوبجےکےوقت کا تعین کیا گیا حسب ِاعلان عین موسلادھار بارش میں اقراء انٹر کالج کے وسیع وعریض میدان میں سوگوار اور کبیدہ طبیعت کے ساتھ عوام وخواص کی ایک  کثیر تعدادفوج ظفر موج نے مولانا رحمہ اللہ کے چھوٹے صاحبزادے عزیزی عبد العظیم کی اقتداء میں  آپ کی نماز جنازہ ادا کی اورپھر  ببھنی کے معروف قبرستان میں باچشم نم آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔اللهم اغفر له و ارحمه و عافه و اعف عنه …
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی                       اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
میری قوم کے روشن ضمیرو! موت برحق ہے  موت سے کسی کو رستگاری نہیں فرستادہء اَجل کہاں ،ہماری عمر کے کس پَل میں  اورنہ جانے کب رب کا بلاوا لیکر آجائے ہم نہیں جانتے ، رب لم  یزل ولایزال کوہماری موت کیلئے بظاہر  کسی سبب کی ضرورت نہیں  امراض وعوارض اور آفات وحوادث تو ایک حیلہ ہیں خوش نصیب ہے وہ،جو غلط افواہوں اور شیطانی واہموں  کاحصہ بننے کی بجائے اللہ کے قانون قدرت سے  عبرت اور پند وموعظت حاصل کرلے اور اپنی دنیا وعقبی کی اصلاح کرلے،ڈاکٹروں کی مصدقہ رپورٹ کے  مطابق ماموں رحمہ اللہ کی وفات کا سبب دو ٹوک جملوں میں صاف طور پر ہارٹ اٹیک  بتایاگیا  لیکن افسوس کچھ ناخلف لوگوں نے اس کو کسی اور رنگ میں پیش کرنے کی سعی نا مشکور کی ،الهم اهد قومي فإنهم لا يعلمون.
تعزیتی کلمات :   آپ کی وفات کی جانکاہ  واندوہناک خبر سنکر ہر خاص وعام محو حیرت  اور ششدرہوگیا 49 سال کی اس عمر میں ایسی محبوب شخصیت کی جدائی یقینا ہم سبھوں کیلئے سوہان ِ روح کا پیغام رکھتی ہے۔ماموں مولانا رحیمی رحمہ اللہ کے اساتذہ ، تلامذہ ،محبین  ومعتقدین اور خویش واقارِب  ہند ونیپال بلکہ بلاد عرب میں دور دور تک پھیلے ہوئے  غیر معتد بہ ہزاروں افراد آپ کی وفات پر اشکبار ،افسردہ  اور ملول ہوگئے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ سے لوگوں نے آپ کے حق میں مغفرت کی دعائیں کیں ، تعزیتی کلمات کہے ،آپ کے کئی چاہنے والوں نے نظم و نثر کی شکل  میں آپ کو خراج ِ عقیدت  پیش کیا اور اپنے ھم وغم کا اظہار کیا جن میں بالخصوص مولانا عاشق علی اثری اور شیخ محمد رحمانی  ( ذمہ داران  ابوالکلام آزاد  اسلامک اویکننگ سینٹر نئی دہلی ) ، ڈاکٹر عطاء اللہ سنابلی (دہلی )، مولانا عبد اللہ عباس سلفی ، ، ڈاکٹر شمس کمال انجم ( کشمیر )  ،شیخ شمس الدین سنابلی مدنی( قطر ) شیخ اشفاق احمد مدنی ( قطر )  ، عزیزان فضل کریم ( ڈومریا گنج ) و حافظ محمد طاہر( نیپال )اورمحمد خان( مدینہ منورہ )  وغیرہم نے اپنے حزن وملال اور قلبی تاثرات  کا اظہار فرمایا نیز شیخ سالک بستوی  ، سحر محمود اور خاکسار شمیم عرفانی وغیرہم نے منظوم تعزیتی کلمات  بھی پیش کئے میں اپنی ،مولانا رحمہ اللہ کے اہل خانہ اور  اپنے اقارب کی طرف سے ان تمام اکابر واصاغر کا صمیم قلب سے شکر بجالاتا ہوں اور دعا گوں کہ اللہ ہم سب کو ایک دوسروں کی دعاؤں اور محبتوں کا اہل بنائے اور دونوں جہان کی سعادتوں سے ہم سب کو شادکام فرمائے۔آمین ۔                         رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی                            تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
آخری بات :
ماموں رحمہ اللہ اس دار فانی سے دارا لبقاء کی طرف کوچ کرگئے  لیکن اپنی محبتوں ، یادوں اور اپنی زندگی کے  خوبصورت لمحات  ہمارےدھڑکتے دلوں پر مرتسم کرگئے آپ کی وفات پر یقینا ہم سب حزن وملا ل اور غم واندوہ میں ڈوبے ہوئے ہیں آنکھیں اشکبار اور دل رنجور ہیں لیکن  قضا وقدر  سے راضی برضا ہونا ہمارے ایمان کا حصہ ہے اس لئے  ہم وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے رب ذوالجلال کو خوش کرے  فإنا لله و إنا إليه راجعون, اللهم اغفر له وارحمه و عافه واعف عنه و نور قبره وارفع درجاته عندك في الجنية و ألهمنا و أهله وذويه ومحبيه الصبر والسلوان ولا تفتنا بعده يا رب.
پیارےماموں! آج آپ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے لیکن آپ کی زندگی کے تابناک نقوش آپ کو  زندہ رکھیں گی اور ہمیں  اللہ ذوالمن و العطاء   کی رحمت کاملہ سے واثق امید ہے کہ اس رب نے چاہا تو روز حشر  ہماری ملاقاتیں  ضرور فردوس اعلی میں ہونگی ۔ان شاء اللہ۔ دعا ہے کہ اللہ مولائے کریم آپ کی بشری لغزشوں کودر گزر فرمائے ،فردوس اعلی کا مکین بنائے، درجات کو بلند کرے ، آپ کی قبر کو انوار وتجلیات سے معمور فرمائے اور ہم سب پسماندگان  کو صبر و عزیمت اور حوصلہ  وہمت کی راہ اختیار کرنے  کی توفیق ارزانی بخشےَ آمین۔
ایں دعا از من وازجملہ جہاں آمین باد

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter