قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، جسے امت مسلمہ ہر سال عید الاضحی کے موقع سے انجام دیتے ہیں- انبیاء کی سنت زندہ کرنا اور اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنا دنیا وآخرت میں شادکامی کا شاہکار ذریعہ ہے- کیوں کہ قرآن مجید میں واضح طور پر کندہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے آخری نبی تاج دار مدینہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے-حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانی سے عبارت ہے- ان کی زندگی میں رونما ہوئی آزمائشیں اور امتحانات ہمارے لیے عبرت اور بہترین سیکھ کا مرقع ہیں- لیکن ہنوز ہم بنی نوع انسان انبیاء کرام کی زندگیوں کے نشیب وفراز اور قربانیوں کو لطف اندوزی اور لذت کوشی کا سامان سمجھ بیٹھے ہیں- جیسے موسمی پھلوں کو لذت کی خاطر بڑے شوق سے کھا کر ہضم کرجاتے ہیں، اسی طرح انبیاء کرام کے واقعات وحادثات کو موسمی لذت کا سامان سمجھ کر فراموش کردیتے ہیں- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کا حکم بجالانے میں کبھی بھی ذرا سا تامل نہیں کیا، اور اپنی پوری زندگی اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر قربان کردی- یہی مومن کی شان ہونی چاہیے، نہ کہ ہدف لذت اور دکھاوا- آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری عبادتوں اور قربانیوں میں اخلاص وللاہیت کا فقدان ہے- مساجد پنج وقتہ نمازیوں کے انتظار میں آنسو بہا رہی ہیں، اور ہم ریاکاری اور دکھاوا کے لیے سنت ابراہیمی زندہ کررہے ہیں- افسوس صد افسوس کہ اس کی انجام دہی میں بھی اللہ کی رضا دکھائی نہیں دیتی-
بعض لوگ تو صرف اپنے موٹا فربہ جانوروں کی تعریف کے بھوکے ہوتے ہیں اور بعض صرف اس مقصد سے قربانی کرتے ہیں کہ ہم ببانگ دہل کہہ سکیں کہ ہم ہر سال چار سے پانچ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں- حالاں کہ ڈھنڈورا پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں- قربانی کا اصل مقصد رضائے الہی ہے- اس لیے اس کی مقصدیت اور معنویت کا خاص خیال رکھیں، کیوں کہ کوئی بھی عبادت وبندگی بغیر اخلاص کے نفع بخش اور کارگر نہیں ہوتی-
اللہ ہم سب کو حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے نیز ریا ونمود سے کوسوں دور رکھے-آمین
آپ کی راۓ