سن 1980سے 1990 کے درمیان جب میں جامعہ سلفیہ میں زیر تعلیم تھا اسوقت طلبائے مدارس کا عام تاثر یہ تھا کہ اب جو طلبہ ہندوستانی مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ان میں وہ پختگی نہیں ہوتی جو عرب جامعات کے فارغ التحصیل طلبہ میں ہوتی ہے لیکن استاد محترم #مولانا_علی_حسین_صاحب جو جامعہ سلفیہ سے 1981 میں فارغ ہوئے تھے وہ اس کے بالکل بر عکس تھے، علوم اصلیہ و علوم آلیہ دونوں میں ماہر تھے،
ہم ساتھیوں کو آپ نے عالم اول میں اصول فقہ کی مشھور کتاب اصول الشاشی پڑھائی تھی اور غالبا یہ آپ کی تدریس کا پہلا سال تھا، آپ کے پڑھانے کا انداز دل نشین تھا، آواز شیریں تھی، طبیعت کے آپ بہت نرم تھے، طلبا میں ہر دل عزیز تھے، میرے بعض ساتھی آپ کے درس کے دوران آپس میں شرارت کرتے تھے، آپ انگیز کرتے اور تنبیہ بھی، لیکن وہ باز نہ آتے، ایک روز آپ کی نظر ایک غیر مناسب حرکت پر پڑی اور بات آفس تک پہنچ گئی، ہم سارے ساتھیوں کو شیخ الجامعہ رحمہ اللہ نے آفس میں طلب کیا اور سرزنش کی۔
اس زمانہ میں تدریس کے بجائے آپ زیادہ تر تحقیق و تالیف کے کاموں میں مصروف رہتے تھے اور عموما آپ کو لائبریری میں یا ڈاکٹر مقتدی حسن صاحب ازیری یا مولانا صفی الرحمن صاحب مبارکپوری رحمھم اللہ کی آفس میں دیکھا جاتا تھا
جامعہ سے فراغت کے بعد میرا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہو گیا، چار سالہ تعلیمی مرحلہ مکمل کرکے واپس آیا اور دو تین سال کے بعد جامعہ کے شعبہ تالیف و ترجمہ سے اعزازی طور پر جڑ گیا، استاد محترم مولانا عبدالوہاب حجازی صاحب کے زیر نگرانی ماہانہ محدث کا کام دیکھنے لگا پھر ایک سال کے بعد تدریس میں بھی آگیا اور اپنے اساتذہ کے زیر شفقت اس عمل کو انجام دینے لگا
اسوقت استاد محترم مکمل تدریس کا کام انجام دیتے تھے اور حدیث و فقہ کی بڑی کتابیں آپ کے پاس تھیں، اگرچہ آپ شوگر کے مریض تھے اور اس کا اثر آپ کی بینائی اور سماعت پر دونوں پر تھا لیکن اس کے باوجود آپ اپنا فرض نبھاتے رہے درمیان میں کئی ایسے مواقع بھی آئے جب آپ کو خاصی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے بڑے صبر وتحمل سے کام لیا اور تقدیر پر راضی برضا رہے
استاد محترم تدریس کے ساتھ شعبہ افتاء سے بھی منسلک تھے، استاد محترم مولانا محمد رئیس ندوی اور استاد محترم مولانا عبدالسلام مدنی رحمھم اللہ کے بعد جامعہ کے مسند افتاء پر آپ ہی فائز تھےاور معاصر مسائل میں آپ کی رائے بڑی دانشمندانہ اور متوازن ہوا کرتی کرتی تھی
جب ماہنامہ محدث کا اصول فقہ نمبر شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تفصیلات طے کرنے کے لئےجن منتخب اساتذہ کے ساتھ اجتماعات کئے گئے ان میں آپ سرفہرست تھے، آپ کے صائب مشوروں سے اس کام کو انجام دینے میں بڑی مدد ملی
آپ ان چند اساتذہ میں سے ایک تھے جن کے تعلقات مدن پورہ اور علی پورہ کے بعض گھرانوں سے بہت اچھے تھے، آپ کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور چھوٹی بڑی ہر تقریب میں آپ کی شرکت ضروری سمجھی جاتی تھی، بلا شبہ یہ آپ کی نیکی، انکساری اور حسن اخلاق کا نیجہ تھا۔
آپ کے قابل ذکر کارناموں میں رقیہ شرعیہ بھی یے، گرچہ اساتذہ کی ایک بڑی جماعت آپ کے اس عمل کو ناپسند کرتی اور وقتا فوقتا ناراضگی کا اظہار بھی کرتی لیکن میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے اس کارخیر نے بہت سے لوگوں کو شرک و بدعت سے بچا لیا اور انہیں صحیح راستہ کی راہنمائی ملی۔
آپ قرآنی آیات پڑھ کر دم کیا کرتے، مریض اور اس کے گھر والوں کو نیک اعمال کی نصیحت کرتے، دعائیں سکھلاتے، حسب ضروت ہومیو پیتھ دوائیں بتلاتے اور اس بات کی تاکید کرتے کہ اب تم لوگ خود پڑھو گے، میں دوبارہ نہیں آوں گا۔
مجھے یاد ہے چند سال پیشتر ایک غیر اہل حدیث شخص کے گھر میری سفارش پر آپ تشریف لے گئے، اگرچہ ان دنوں آپ خود بیمار تھے لیکن اس کے باوجود آپ نے زحمت اٹھائی اور الحمد للہ، اللہ نے مریض کو صحت سے نوازا۔
آپ شہر کی مختلف مساجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے اور دعوتی پروگراموں میں بھی بڑے شوق سے شرکت فرماتے تھے۔
بسا اوقات گھریلو تنازعات میں بھی بحیثیت مشیر و حکم کے آپ سے مدد لی جاتی تھی اور آپ اپنی صواب دید سے جو فیصلہ کرتے اسے قبول کیا جاتا تھا،اس قسم کا ایک معاملہ آج بھی مجھے یاد ہے جس میں خاکسار آپ کے ساتھ تھا۔
پیوستہ سال جب ناچیز کو مادر علمی جامعہ رحمانیہ ( بنات ) کے فضیلت کے درجات میں صحیح بخاری کی تدریس کا مکلف کیا گیا تو میں اپنی کم علمی کے باوجود اس اعتبار سے مطمئن تھا کہ اگر جلد اول میں کوئی پریشانی ہوگی تو استاد محترم شیخ نعیم الدین صاحب جو جامعہ سلفیہ میں جلد اول پڑھاتے ہیں ان سے اور جلد ثانی میں ہوگی تو شیخ علی حسین صاحب جو جامعہ میں جلد ثانی پڑھاتے ہیں آپ سے مدد مل جائے گی اور الحمد للہ ثم الحمد للہ میں نے اپنے ان دونوں موقر اساتذہ سے دوران تدریس استفادہ بھی کیا لیکن کل 23 جولائی 2020 شیخ علی حسین صاحب سلفی کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ گیا فللہ ما اعطی و لہ ما اخذ ۔
حضرة الاستاد کے تعلق سے ایک لطف کی بات یہ یے جامعہ کے بعض طلبہ آپ کو بنگالی مولوی صاحب کہتے تھے اور اتفاق ایسا کہ آپ میرے محلہ میں بھی اسی لقب سے جانے پہچانے جاتے تھے۔
استاد محترم کم گو تھے، اساتذہ کرام کے ساتھ ٹیچرس روم میں بیٹھتے، سب کی باتیں سنتے، ہنسی مذاق کی باتوں سے لطف اندوز بھی ہوتے تھے لیکن اپنی زبان لا یعنی باتوں سے محفوظ رکھتے تھے اور اگر آپ سے کوئی بات پوچھ لی جاتی تو بالکل نپا تلا جواب دیتے تھے۔
تحقیق و تالیف کے میدان میں آپ کی مہارت کا اندازہ آپ کے علمی کارناموں سے لگایا جا سکتا ہے جو کم ہونے کے باوجود بہت سے اہل علم کے کاموں سے زیادہ وقیع ہیں اصول حدیث کی مشھور کتاب فتح المغیث کی تحقیق نے بلاد عربیہ کو آپ سے متعارف کرایا، اس کتاب کا پہلا ایڈیشن بہت جلد فروخت ہوگیا ، اس کے بعد اس کے کئی ایڈیشن عرب دنیا میں شائع ہوئے اور اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا، کہا جاتا ہے کہ علمی دنیا میں جامعہ سلفیہ کے اساتذہ کی تالیفات میں استاد محترم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی الرحیق المختوم کے بعد یہ سب سے مقبول کتاب یے۔
حدیث کی مشھور کتاب سنن ترمذی کی شرح جائزة الاحوذي کی تحقیق و تخریج بھی آپ نے استاد محترم مولانا عبدالوہاب حجازی صاحب کے ساتھ کیا اور اسے بھی علمی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی۰
اللہ تعالی استاد محترم کے جملہ حسنات کو قبول فرمائے آپ کی بشری لغزشوں کو درگذر فرمائے
آپ نے شاگردان اور تالیفات کی شکل میں جو علمی ورثہ اپنے پیچھے چھوڑا یے ان سب کو آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنادے اور آپ کے بعد آپ کی حقیقی اور روحانی اولاد کو آپ کا جانشین بنائے اور ہر شر و بلا سے انکی حفاظت فرمائے آمین یا رب العالمین
آپ کی راۓ