اتحاد واتفاق ایک ایسی چیز ہے جو جماعتوں اور قوموں کو انحطاط وزوال سے نکال کر عروج وترقی کامیابی وکامرانی عطا کرتی ہے.تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ جن قوموں جماعتوں نےترقی وعروج حاصل کیا تو آپس کے اتحاد واتفاق سے آپس کے میل جول الفت ومحبت سے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتحاد پر زور دیا اور فر مایا کہ پکا سچا مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں مطلب کسی کو گالی نہ دے کسی کو ناحق ذدوکوب نہ کرے.لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کی آج ملت کے اندر انتشار وافتراق پایا جارہا ہے. ملی انتشار میں مسلکی اختلافات آپسی جھگڑوں تعصب و تنگ نظری کا زبر دست عمل دخل ہے. اہل علم ومسلکی قائدین کو اسٹیج پر لڑتے جھگڑتے چیختے چلاتے اور مغلظات بکتے ہوئے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں وبہتان لگاتے ہوئے دیکھا اور سنا گیا ہے.
مسلمان کٹ رہے ہیں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں. لیکن مسلکی اختلافات جاری ہیں . بنت حوا کی عصمتیں لٹ رہی ہیں مسلمان ذبح کئے جارہے ہیں.مسجدوں کی جگہ مندر بنایا جارہا ہے.مسلمانوں ہر عرصہء حیات تنگ کیا جارہا ہے. ہمارے بقاء و وجود کا سوال ہے لیکن اسٹیج سجا کر ایک مسلک والا دوسرے مسلک والوں کو گالی گلوج دے رہا ہے.مسلک مسلک کا کھیل کھیلا جارہا ہے حنفی، شافعی ،مالکی ،حنبلی دیوبندی، اور بریلوی کے نام پر لوگ لڑ رہے ہیں اور اپنے کو اعلیٰ وافضل ثابت بھی کر نے کی پوری طاقت وقوت صرف صرف کر دیتے ہیں. دیوبند اور بریلی شہروں نے مسلکی روپ اپنا لیا ہے. اسلام کسی شہر ملک علاقہ قصبہ کا نام نہیں مذہب اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے. صرف انڈیا کے لئیے نہیں ہے کی اسے میڈ ان انڈیا کر کے اپنے ذاتی مفاد حاصل کئے جائیں.ہندستان میں کروڑوں روپئیے ایک مسلک والا دوسرے مسلک کو غلط ٹھہرانے اور باطل جہنمی کہنے میں خرچ کر دیتا ہے.جبکہ قرآن وحدیث ہی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہیں یہ ہر مسلک والے کو سمجھنا چاہئیے.
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا پنپنے کی زمانے میں یہی باتیں ہیں.
مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کا سرچشمہ قرآن وحدیث ہیں جو لوگ اس کو بنیاد بناکر ملی اتحاد کے لئے کوشاں ہیں وہی کامیاب ہیں .قرآن وسنت کی ترویج وتبلیغ ہی ہمارا مقصد حیات ہونا چاہئیےجو اسلام کے داعی ومبلغ ہی اصل اسلام ہی پیش کرنا چاہئیے.
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرےعطا ہوتجھ کو جدت کردار.
ملک کے سر برآوردہ لوگ ملت کے غم میں آنسو بہاتے ہیں ملی اختلاف وانتشار کو ختم کرنے کے لئے کوشاں بھی ہیں. اتحاد ملت کے موضوع پر کانفرنسیں ہوتی ہیں جلسے منعقد کئے جاتے ہیں ہفتہ واری، ماہانہ اجتماعات ہوتے ہیں جمعہ کے خطبےہوتے ہیں ہر نماز میں نماز بعد بھی دین وایمان کی باتیں کی جاتی ہیں. ملی مسائل پر اور اٹھنے والے فتنے اور ان کے تدارک پر بحث ومباحثے بھی ہوتےہیں لیکن مسائل ختم ہونے یا حل ہونے کے بجائے مزید اور سنگین بنتے جارے ہیں. اور نت نئے مسائل اژدھا کی طرح منہ کھولے تن کر کھڑے ہیں ملت کو کب نگل جائیں. ملی مسائل کو حل کرنے میں یہی علماء ودانشواران ملت اگر واقعی میں ایماندار ہیں تو مسائل حل ہونے میں مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں. ملت کے مسائل میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے اور مذہب کے نام پر وہ خرافات بدعات بد اعمالیاں ہوتی ہیں جن کا اسلام جیسے پاکیزہ دین فطرت سے دور دور کا رشتہ نہیں ہے. اسلام کی صحیح تعلیما ت پر مسلکی چھاپ چھوڑ دی جاتی ہے.اور اسے حق کہا جاتا ہے. حقیقت پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے تاکہ انہیں مصنوعی فرضی باتوں میں پوری ملت کو الجھائے رکھا جائے اور سچائ سامنے نہ آسکے.
مسجدیں اللہ کا گھر ہوتی ہیں جو عبادت کے لئیے بنائ جاتی ہیں بلا روک ٹوک ہر کلمہ گو مسجدوں میں سجدہ ریز ہونے کے لئیے آتا ہے تو وہاں بھی مسلکی تشدد کا غلبہ ہوتا ہے.ایک مسلک والا دوسرے مسلک والے کو مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے. بعض مسلک کے لوگ دوسرے مسلک والوں کو مسجدوں سے بھی بے عزت کرکے نکال بھی دیتے ہیں. بعض مسجدوں میں ایسے دل آزار بورڈ لگے ہیں کی پڑھکر آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں دل تڑپ اٹھتا ہے.مسجدوں میں بورڈ آویزاں ہوتے ہیں "مسجد میں تبلیغی ،جماعت اسلامی،اہل حدیث، دیوبندی کا داخلہ سخت ممنوع ہے اگر کوئ آگیا تو اپنی بے عزتی کا خود ذمہ دار ہوگا” ایسے بورڈ زیادہ تر ناسک مہاراشٹرا کی مسجدوں میں اور کہیں کہیں ممبئ ودیگر شہروں میں دکھائ دیتے ہیں. انتظامیہ کتنی متعصب تنگ نظر اور جاہل ہوگی کہ نماز کے لئیے” مسلکی غنڈہ گردی” زبردست پابندی اور سختی سامراجیت وبرہمنیت جیسے قانون کانفاذ ہو. برہمن صفت ملا ومولوی کی ریشہ دوانیاں ان کی زیادتیاں برہمن سے کم نہیں ہیں. اگر برہمن دلتوں اور نیچی ذات وبرادری کو مندروں میں گھسنے اور پوجا پاٹ کی اجازت نہیں دیتا ہے تو مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی اسی برہمن واد کاشکار ہے.جو کسی اور مسلک والوں کو مسجدوں میں آنے سے روکتا ہے اور اسے عاشق رسول ہونے کا دعویٰ بھی ہے.اسے مسلکی غنڈہ گردی اور دہشت گردی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے.
حالات بدل رہے ہیں اب برہمنوں کی طرف سے سختی کم ہوگئ ہے. دلت مندروں میں جانے لگے ہیں. لیکن نام و نہاد مسلمان ابھی بھی اپنے بنائے ہوئے اصولوں ومصنوعی مسلکوں پر چل رہا ہے. اگر کوئ بھول سے مسجد میں چلاجائے تو مسجد کو دھلائ جاتی ہے.صاف کیا جاتاہے.کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ بریلوی کے علاوہ "سب نجس” ہیں اور نجس چیز کا داخلہ ممنوع ہے.
سابق مرکزی وزیر دلت لیڈر لوک سبھا کی سابق اسپیکر میرا کمار کے والد جگجیون رام ڈاکٹر امبیڈکر کے بعد سب سے زیادہ مقبول ترین دلت لیڈر تھے انہوں نے بھی ذات پات چھو چھات سے نجات دلانے اور سماج میں انسانی سماج پھیلی ہوئ طبقاتی کشمکش کو دور کرنے میں کافی محنت کی .ملک کے نائب وزیر اعظم اور مرکزی وزیر بھی تھے. بنارس کے ایک مندر میں چلے گئے تھےتو برہمنوں نے زبردست احتجاج کیاتھا اور مندر کو "گنگا جل”سے دھلا یا گیا پھرگاؤ متر چھڑکا گیا پھر دودھ سے دھلا گیا اور گلاب پانی چھڑ کاؤ کیاگیا تھا.جب جاکر ان کا مندر پوتر ہوا تھا.
افسوس صد افسوس برہمن واد مسلمانوں کے ایک طبقہ میں آگیا ہے.اور وہ بھی دوسروں کو نجس سمجھ کر مسجدوں کو دھلتااور دھلاتا ہے.
یہ امت خرافات میں کھو گئ.
دل سے بے ساختہ نکل آتاہے اقبال کا شعر ترمیم کے ساتھ.
کہ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں ہنود.
مسجدوں سے ایسی دل آزار تقریریں ہوتی ہیں اور زہر افشانیاں کی جاتی ہہیں کہ سنگھ پریوار کے لوگ بھی کہنے کی ہمت نہ جٹا پائیں گے.
مسجدوں میں جمعہ کے خطبات کی اہمیت وافادیت اتنی زیادہ ہے کہ اس سے قطعی انکار نہیں کیا سکتا ہے.مسلمانوں کو سیاسی سماجی تعلیمی مثبت پیغام دئے جاسکتے ہیں. اصلاحی تقریریں وخطبے ہو سکتے ہیں. لیکن آج کچھ مسجدوں میں تقریریں و خطبات نہایت ہی جاہلانہ وجارحانہ ہوتے ہیں. ایک مسلک والا دوسرے مسلک والوں کے خلاف زہر افشانیاں کرتا ہے جنت جہنم کی سرٹیفکٹ بھی دی جاتی ہے .اللہ کی پناہ. !!
شرمناک بات یہ ہے کہ کچھ مسلمانوں کو جنازے کی صف سے نکلوادیا گیا ہے.کہا گیا نکل جائیں ورنہ خود بے عزتی کے ذمہ دار ہوں گےجن لوگوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے انہوں نے خود بیان کیا ہے. جری مری قبرستان ممبئ کا واقعہ ہے. مسلکی غنڈہ گردی بھی ہے اور دہشت گردی بھی ہے آئے دن ہمارے سامنے ایسے واقعات دیکھنے سننے کو ملتے ہیں. ایک حاجی صاحب نے بیان کیا کہ ہمارے پڑوس میں ایک مسلک والے تھے ان کا انتقال ہوا ہم لوگوں نے جنازے اور مٹی میں شرکت کی جسکی وجہ سے ہمارے بریوی مسلک کے مولانا صاحب سخت نالاں ہوئے اور سب کو بلاکر کہا کی آپ لوگ کلمہ پڑھئے آپ لوگوں کا دوبارہ نکاح ہوگا. حاجی صاحب نے جواب دیا اور کہا کہ آپ کے حساب سے غلطی ہم نے کی ہے بیویوں کا قصور کیا ہے؟ مولانا صاحب خاموش ہوگئے کئ لوگوں نے دوبارہ کلمہ پڑھا میں نے نہ کلمہ پڑھا اور نہ دوبارہ نکاح پڑھوایا ناراض مولا نانے مجھ سے کلام سلام بند کر دیا.
جب اتنا تعصب بغض وحسد کینہ و کپٹ عناد و دشمنی کا ایک عالم سبق دیتا ہے تو اتحاد ملت کیسے ہوگاً
عام ذہن باالعوم یہ بن گیا ہے کہ نذرانے اور بخشش تحفے وتحائف انہیں علماء کو زیادہ ملتے ہیں جو اپنے مصنوعی مسلک کے تحفظ وبقاء کے لئے دوسرے مسلک والوں کو جتنی زیادہ گالیاں دیں . یا مغلظات بک لیں اور چرچا بھی خوب ا نہیں علماء کا ہوتا ہےجو مصنوعی مسلک خودساختہ مذہب کی دعوت دیتے ہیں جن کا تعلق مذہب اسلام سے نہیں خود ساختہ مسلک سے ہے. یہ "علماء سو” ہیں جن کے سوء سے نہ.ملت محفوظ رہ سکتی ہے اور نہ ملک میں امن وامان قائم رہ سکتا ہے.ساراشرو فساد بگاڑ انہیں علماء سو سے ہے.ان کو صرف نذرانے اور بخشش سے مطلب ہے.
لیکن علماء حق اسلام کی صحیح وسچی تعلیمات کو عام کرنے میں پوری طاقت وقوت صرف کرنا اپنا دینی وملی فرضہ سمجھکر یہ کہتےہیں جان دی دی ہوئ سی کی تھی.
حق تو یہ ہے کی حق ادا نہ ہوا.ان کوذاتی مفادات سے زیادہ ملی مفادات عزیز ہیں جو شب وروز ملی اتحاد واتفاق کے لئیے کوشاں رہتے ہیں جنکی تمام تر کوششوں میں یہ شامل ہوتا ہے کی مسلمان آپس میں شیر وشکر ہو کر رہیں اور آپسی اختلافات سے دور رہیں. یہ علماء حق مسلکی غنڈہ گردی کو ہوا نہیں دیتے صرف قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عام کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں.
مذہبی امور کو انجام دینا اور اسلام کی صحیح تعلیمات کو عام کرنا اور اس فتنے کے دور میں وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے.
کتاب اللہ وسنت رسو اللہ ہی ہماری ہدایت کامیابی وکامرانی فلاح وبہوبود کا ذریعہ ہیں دنیوی واخروی ترقی اسی میں مضمر ہے.ملی مسائل میں دن بدن جو اضافہ ہوتا جارہا ہے اور مسلمان اغیار کے ظلم وستم کے شکار ہیں. اس میں غیرو ں سے زیادہ اپنوں کا قصور ہے بعض لوگ مسلکی غنڈہ گردی کا مجرمانہ رہکارڈ بھی رکھتے ہیں. ہم نے مسلمانوں کو مسلک کے نام پر خود تقسیم کردیا ہے جدید نام بھی دئے گئے ہیں تمسخر ومزاق کے طور ہر ان کو نمبرات میں ڈال دیا گیا ہے. یہ فلاں نمبری ہے وہ فلاں نمبری ہے اس طرح امت محمدیہ کو مسلکوں کے حدود وقیود میں جکڑ دیا گیا ہے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملت کے بہی خواہ افراد بھی اس فتنے سے آزاد نہیں ہو پارہے ہیں سیدھے سادے لوگ مسلکی علماء کی سحر میں مبتلاء ہیں.
امت محمدیہ کی حالت دیکھئے ان میں مسلکی لباس بھی بن گئے ہیں. کرتا پائجامہ ٹوپی تک مسلکی شناخت بن گئ ہے لباس زیب تن کر کے نکلیں ان کی پہچان ہو جائےگی کی کس مسلک کے ہیں.
گمراہ کن عقیدوں سے باہر نکلنا ہوگااللہ اکر کی صدائیں سن کر مسجدوں میں جانے والے (کسی بھی مکتبہء فکر کے ہوں) مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دینی ہوگی . جنازہ کی صفحوں سے کسی کو نکالنے سے باز آنا ہوگا. ورنہ ہم کو مٹنے میں دیر نہیں لگے گی.ملت کے ہر فرد ہو ملی اتحاد کے لئیے سوچنا ہوگا اور عملی اقدام کرنا ہوگا.علامہ اقبال نے ملی اتحاد ہر زور دیا ہے اور ہر فرد کو ذمہ دار ٹھرایا ہے.
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر.
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ.
اگر ہماری ملی تنظیمیں ان کے ذمہ داران علماء کرام مخلص بن جائیں صرف قرآن وحدیث کو اپنا آئیڈلاور فیصل بنا لیں تو مصنوعی مسلکوں کے جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں. ذاتی مفاد کو قومی وملی مفاد پر قربان کرنے کاجذبہء صادق ہمارے دل میں پیدا ہوجائے تو ہمارے مسائل بڑی آسانی سے حل ہوسکتے ہیں.اور مسلکی اختلافات بھی ختم ہوسکتے ہیں.
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے.
مضمون نگار.المصباح کےایڈیٹر ہیں. 9892375177faisalkhan 98923@gmail.com
آپ کی راۓ