مولانا عبد المعید سلفی – علی گڑھ
کل رات کو اطلاع ملی کہ مولانا عبدالمنان سلفی شدید بیمار ہیں کچھ ہی گھنٹوں کے بعد اطلاع آیی کہ وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوگیے
اناللہ وانا الیہ راجعون
مولانا کاشماربھارت کے اھل حدیث علماء کے اعلی طبقے میں ہوتا تھا ۔وہ متنوع صلاحیتوں کے مالک تھےوہ مدرس بھی تھے خطیب بھی تھے صحافی بھی تھےمصنف بھی تھے اچھے منتظم کار بھی تھے ۔سراج العلوم جھنڈانگر کے روح رواں تھے۔ باشعوراور بالغ نظر
بھی تھے ۔خطے کی سماجی سیاسی دعوتی تعلیمی سرگرمیوں سے آگاھی رکھتے تھےاور ایک رایے بھی رکھتے تھے
ایک باخبر اور ذمہ دار عالم کی حیثیت سے انھوں نے
زندگی گذاری،اور بہتوں کے لیے مشعل راہ رہے ۔انکے نمایاں علمی دعوتی صحافتی تدریسی اورسماجی کام
ہیں ۔اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمایے ان کی لغزشوں
کو در گزر کرے اور ان کو نیکوں کے زمرے میں شامل
کرے آمین
ابو عمار شمس الدین مدنی – جیزان
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے (ان الله لايقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء) آنکھیں اشکبار دل رنج وغم سے پریشان شیخ عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ رحمة واسعة کلیجہ پھٹتا ہے علمی گوشہ کا ایک بہت بڑا خلا ہے لیکن قضایے الہی کے آگے ہم سب بےبس ہیں سوائے صبر ورضا کے کربھی کیاکرسکتے (ان العين لتدمع وإن القلب ليحزن وان على فراقك ياشيخ عبدالمنان لمحزونون ولانقول الامايرضى به ربنا لله ماأخذ وله ماأعطى وكل شئي عنده لأجل مسمى فلنصبر ولنحتسب وإنا لله وانا اليه راجعون اللہ شیخ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین یارب العالمین شيخ اپنے پیچھے کثیرالعائلة چھوڑ کر گئے ہیں اللہ ان کے بچوں کا حامی. وناصر ہو شیخ کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ خلیق وملنسار ہمیشہ مسکراہٹ دعوت سلف کے بہت بڑے شہسوار آپ مسلسل لاک ڈاؤن میں بہت سارے موضوعات پر فیدیو نشر کرتے تھے ابھی عیدالاضحٰی کے تعلق سے آپ کی بہت سی تقریریں منظرعام پر آئیں اس سے آپ کے دعوتی تڑپ کا پتہ چلتا ہے اللہ رب العالمین سے دعاگوں ہوں اللہ آپ کے درجات کو بلند کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین میں اس موقع پر شیخ کے اہل خانہ کے ساتھ ہمیشہ کھڑا رہنے کا یقین بھی دلانا چاہونگا
صفی اللہ محمد انصاری – قطر
شیخ عبد المنان سلفی رحمہ اللہ نے 60/61 سال کی عمر پائی اور اس قلیل مدت میں آپ نے جو خدمات انجام دیا وہ قابل رشک ہے ، آپ کی شخصیت علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، آپ بیک وقت کئی چیزوں میں مہارت تامہ رکھتے تھے، ایک ممتاز داعی و مدرس، قابل صحافی، کہنہ مشق خطیب، کامیاب منتظم ، گرانقدر مصنف و مؤلف۔ آپ علوم شریعت میں تخصص کے ساتھ ساتھ لکھنئو یونیورسٹی سے عربی ادب میں پوسٹ گریجویٹ [ماجستیر] تھے۔
آپ انتہائی متحمس ، باغیرت ، نیک اور مخلص تھے ، آپ کا تعلق علمی خانوادے سے تھا آپ کے والد شیخ عبد الحنان فیضی اور دادا رحمانی رحمہما اللہ نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ ، نیپال میں علم و عرفاں کی موتی بکھیرنے میں گذار دیا اسی طرح سے موصوف رحمہ اللہ کی حیات مستعار کا اکثر لمحہ وطن عزیز نیپال میں دینی امور میں صرف ہوا، حتی کہ بیماری کے دوران یہیں علاج و معالجہ ہوا اور یہیں سپرد خاک بھی ہوئے۔ آپ شہریت کے اعتبار سے گرچہ ہندوستانی تھے مگر نیپال میں تادم حیات انکے اسقدر خدمات تھے کہ ہمیں کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ آپ کا تعلق نیپال سے نہیں ہے ۔
ابھی حال ہی میں نیپال میں پھر سے قادیانیت کے سر اٹھانے کی خبر جب سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی اسوقت آپ بڑے فکر مند ہوئے، ایک مختصر تحریر بھی لکھا اور یہ ارادہ ظاہر کیا کہ حالات سازگار ہونے کے بعد تمام مکاتب فکر کی مشترکہ میٹنگ ہو اور قادیانیت کی سرکوبی کیلئے منظم منصوبہ بندی کی جائے۔ انھوں نے تحریر میں اپنی ایک تأليف ” فتنئہ قایانیت ایک جائزہ” کا بھی ذکر کیا جو انھوں نے نیپال ہی کے پس منظر میں ایک جامع مقالہ کی شکل میں تیار کیا تھا بعد میں کتابی شکل میں مرتب کیا۔ اور نیپالی ترجمہ بھی ہوا ۔
شیخ رحمہ اللہ نے اس کتاب میں کچھ حذف و اضافے کیساتھ نئے سرے سے طباعت کیلئے شیخ افضال سلفی حفظہ اللہ مؤسس جمعیت السلام للخدمات الإنسانية، نيپال سے درخواست کیا تھا اور انھوں نے اس ذمہ داری کو قبول بھی کیا تھا شيخ افضال کے بقول کتاب کی ترتیب و تنسیق آخری مرحلے میں چل رہی تھی اللہ کرے کسی طرح سے یہ اہم کام پایہ تکمیل کو پہونچے۔ گذشتہ شب سلفی رحمہ اللہ کے متعلق شیخ افضال صاحب سے ٹیلیفون پر گفتگو ہوئی انھوں نے بتایا کہ جمعیت السلام میں شیخ کے کافی خدمات ہیں ریڈیو پروگرام ” روشنی” پر شیخ نے مسلسل تین سال تک درس دیا اور اشراف بھی کیا۔ خیر اس سلسلے میں شیخ افضال صاحب ہی اپنے مضمون میں ان شاء الله تفصیلی ذکر کریں گے۔ اللہ انھیں توفیق دے۔
شیخ رحمہ اللہ کی گوناگوں خدمات اور غیر معمولی شخصیت کا مجھ جیسا کم شناس احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ انکی اولاد، قریبی رشتے دار ، ہم عصر رفقاء اور تلامذہ ہی کما حقہ انکی شخصیت کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ مولا انکے قبر کو نور سے بھر دے ، جنت کی خوشبوں سے معطر کر دے، کوتاہیوں کو درگذر فرمائے ، اعلی علیین میں جگہ دے ، انکا نعم البدل عطا فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔
علم و ادب کا سپاہی،مسندخطابت کا شہسوار، بیباک صحافی،دین حمیدکا بے لوث خدمت گزار، کہنہ مشق مربی ومدرس ،داعی الی اللہ موت کےجام کو نوش فرماکر مختصر علالت کے بعد مالک حقیقی سے جاملا۔(إنا لله وإنا إليه راجعون.)
شیخ / عبدالمنان عبدالحنان سلفی رحمہ اللہ محتاج تعارف شخصیت نہیں تھی کہ انکے ہر گوشے کے بارے میں قدر تفصیل ذکر کیاجائے، کیونکہ آپ نے اللہ جل شانہ کے عطا کردہ عمر کو دعوت وتبلیغ،درس وتدریس،تالیف و ترجمہ میں گزار دی، جن کے دروس،وعظ و نصیحت سے بلا تفریق امت مسلمہ فیضیاب ہوتی رہی اور ان شاءاللہ تا قیامت اس کا اجر اللہ تعالی انکے میزان حسنات میں لکھتا رہےگا۔
آپ کی اہلیت،صلاحیت اورجذبے کی قدر کرتے ہوئے مختلف دعوتی تنظیموں نے مناصب فراہم کئے جس کو آپ نے حسب استطاعت بحسن و خوبی فرائض انجام دیئے،آپ کی شخصیت ھندونیپال کے لئے یکساں اہمیت کا حامل تھی،متواضع،خلیق،ملنسار،شمایل حمیدہ کے مالک تھے،آپ کی رحلت سے ھندونیپال ویران سا ہوگیا،دین متین کا بے لوث خدمت گزار نے جہاں پوری دنیا عالمی وبائی مرض مہلک کا شکار تھی،گھروں سے نکلنا،مسجدوں میں جانا،عام جلسہ جلوس سے قال اللہ قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائیں عوام تک پہنچانے میں سد راہ تھیں وہیں آپ مکمل رمضان یو ٹیوب کے ذریعہ دروس کا اھتمام کرتے رہے جس سے امت محمدیہ نے کسب فیض حاصل کی، اور یہ سلسلہ آپ کی بیماری تک چلتارہا،اللهم اغفر له وارحمه
جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر کرشنانگر نیپال سے شائع ہونے والا ماہنامہ السراج کے ایڈیٹر،جامعہ کے استاذ اور ریکٹر تھے،تاحیات ماہنامہ اور دیگر اخبارات وجرائد میں صحافتی خدمات انجام دیتے رہے،ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کے ناظم بھی تھے ،
نیپال کے مشہور ضلع روپندیہی کے پرسا مضافات میں جب احمدیت نے اپنے پر کھولے تو وہاں کے علماء اسلام نے جم کر مقابلہ کیا بالآخر اسے ناکامی اور نامرادی حاصل ہوئی ایسے موقع اور حالت کی نزاکت کو سمجھتےہوئےاحمدیہ فرقہ ضالہ سے امت کو بچانے کےلئے قادیانیت پر آپ نے مدلل کتاب لکھی جو زیور طبع ہوکر مفت تقسیم بھی ہوئی،اب جبکہ دوبارہ نیپال میں امت محمدیہ کو احمدیت سے خطرہ لاحق ہوا تو دوبارہ آپ نے اس کتاب کو اردو اور نیپالی میں طبع کرنے کی ذمہ داری جمعیت السلام للخدمات الانسانیہ کوسونپی،امید کہ کتاب کی طباعت آخری مرحلے میں ہوگی،اسی طرح جب جب باطل طاقتوں نے اسلام کے صاف ستھرے چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش کی تو آپ نے اپنے قلم سے دندان شکن جواب دیا، اللہ غریق رحمت کرے خدمات کو شرف قبولیت بخشے آمین۔اسی طرح رمضان کے فضائل و مسائل پر تیس دروس اور سینکڑوں مضامین صدقہ جاریہ ہونگے ان شاءاللہ
آپ ٹائی فائیڈ جیسی بیماری کے شکار ہوئے علاج و معالجہ کا سلسلہ تاوقت وفات جاری تھا لیکن موت ایک اٹل فیصلہ ہے جس پر کسی کا بھی اختیار نہیں، ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اس سے کسی کو مفر نہیں، کوئی کہیں بھی ہو،موت اسے آ دبوچے گی۔ خلاق دو عالم کے فیصلے پر ہم سب راضی ہیں جوکہ ایک مومن کی صفت ہے جو کچھ ہے اسی نے عطاکیاہے اور وہی اسکو لے لےگا۔
اللہ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق دے، امت کو نعم البدل عطا فرمائے دینی خدمات کو شرف قبولیت بخشے آمین
ہند ونیپال ہی نہیں بلکہ عالم اسلام اپنے ایک عظیم قائد سے محروم
الموت قدح کل نفس شاربه
والقبر باب کل نفس داخله
استاد محترم جناب عبد المنان بن عبدالحنان سلفی رحمہ اللہ کی وفات پوری ملت وجماعت کے لئے ایک عظیم خسارہ اور ایک عظیم دلدوز سانحہ ہے، میرا قلم بار بار آپ کی حیات وخدمات پر لکھنے پر مجبور کر رہا ہے مگر ذاتی طور پر میرا ذہن و دماغ و دل اس طرح صدموں سے چور چور ہے کہ بروقت میں کچھ بھی ابھی لکھنے سے قاصر ہوں، خود کو اس پوزیشن میں نہیں پاتا ہوں کہ ابھی کچھ لکھ سکوں اور حالات ایسے ہیں کہ ممبئی سے نماز جنازہ میں شرکت سےبھی قاصر ہوں،میری طرح اور بھی بےشمار افراد،علماء و مشائخ چاہتے ہوۓ بھی نماز جنازہ میں شرکت کرنے سے قاصر ہیں،آپ کی نماز جنازہ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کی وسیع مسجد میں بعد نمازِ ظہر دو بجے ہوگی اور اگر کوئی باقی رہ گیا یا کسی کی نماز جنازہ کسی وجہ سے چھوٹ گئی تو جھنڈا نگر قبرستان کے پاس ادا کی جائے گی۔
خیر اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کی قبر کو نور سے بھر دے، اعلیٰ علیین میں آپ کو جگہ نصیب فرمائے اور مزید آپ کے حسنات کو قبول فرمائے ہوئے آپ کے سئیات کو درگزر فرمائےاور آپ کی خدمات کو قبول فرماتے ہوئے آپ کے شاگردوں اور آپ کی کتابوں کو آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے جملہ اہل خانہ اعزہ و اقارب واساتذہ وطلبہ وجمعیت وجماعت کے ذمہ داران کو صبر جمیل کی توفیق دے اور جمعیت وجماعت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے آمین تقبل یا رب العالمین
علیم الله سعيدالسلفی سمرا-ریاض سعودی عرب
موت صرف ہم انسانوں ہی کےلئے نہیں بلکہ اس کائنات کےہرشئ کےلئے ایک مقدر اورنظام الہی ہے یہ اور بات ہے کہ بعض اموات ہمارےلئے گہرےصدمےکاباعث بن جاتی ہیں رات ایک بجے کے قریب مولاناعبدالمنان عبدالحنان السلفی رحمہ اللہ کی موت علم سے وابستہ ہرایک لئے باعث تکلیف ورنج ہے۔ کیونکہ آپ دورطالبعلمی ہی سے اپنے اردگرد ایساماحول بناکےرکھنےوالے تھے کہ ہرشناسا آپ کامداح رہتاتھا آپ ضلع سدھارتھ نگرکےایک مردم خیزگاوں انتری بازار کےباشندےکم اورپڑوسی ملک نیپال سرحدسےمتصل جھنڈانگرکی شان زیادہ تھے۔غالبا1980ء میں جامعہ سلفیہ سے سندفراغ حاصل کئےاوراسی وقت سے تاوفات اپنی زندگی علم کی تشہیرو تبلیغ اور جماعت کی تنظیم وترتیب میں وقف کردی ہمیں یادہے اکتوبر 89ءمیں منظررحمہ اللہ کےوفات کےبعد سمرامیں منظراکیڈمی کےقیام کی مناسبت سے افتتاحی پروگرام میں آپ ایک ابھرتےہوئے نوجوان خطیب کی حیثیت سےہمارےگاوں تشریف لائےتھے اس تعارفی حلقہ کےبعدتاحال آپ ہمارے محسن کی طرح ملتے رہے۔
اللہ نے آپ کو ایک ساتھ بہت ساری خوبیوں سے نوازاتھا۔جن میں سے اخلاق وملنساری کاعطیہ الہی آپ کی بڑی نمایاں اوصاف شمار کی جائیں گیں خطابت؛ اندازدرس؛ قلم کااستعمال؛ اورتنظیمی امور؛کی سوغات ہمیشہ آپ کو یاد دلاتی رہیں گی۔
اللہ آپ کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے جنت الفردوس سے نوازے جملہ لواحقین وپسماندگان کےساتھ آپ سےجڑےہردل کوصبردے
محمد ابراھیم مدنی امیر جمعیت اہل حدیث ضلع سدھارتھ نگر یوپی
تعلیم و دعوت تحریر و خطابت کا ایک روشن ستارہ ڈوب گیا.
انتہائی رنج و الم اور حزن و ملال میں غرقاب ہوکر یہ خبر دی جارہی ہے کہ جمعیت اہل حدیث ضلع سدھارتھ نگر کے ناظم اعلی جناب محترم شیخ عبدالمنان سلفی صاحب رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ اب ہمارے درمیان نہیں رہے رات کے تقريبا ایک بجے کے قریب وقت موعود آپہونچا اور آپ راہ دار البقا کی طرف کوچ کرگئے اور ہزار و ہزار سوگواروں کو سسکتا بلکتا چھوڑ گئے آنکھیں اشکبار ہیں کلیجہ منھ کو آتا ہے دل انتہائی غمگین ہے لیکن زبان پر وہی کلمات جاری ہیں جو نبی نے سکھایا ہے . إن العين تدمع والقلب يحزن ولا نقول إلا ما يرضى به ربنا تبارك وتعالى وإنا بفراق أخينا و حبيبنا لمحزونون . إنا لله وإنا إليه راجعون . أللهم اجرني في مصيبتي وأخلف لي خيرا منه. اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس وابدله دارا خيرا من داره و أهلا خيرا من أهله و زوجا خيرا من زوجه و ادخله الجنه و اعذه من عذاب القبر وعذاب النار.
ہفتہ عشرہ قبل آپ کو بخار آیا اور مسلسل آتا رہا جانچ سے معلوم ہوا کہ ٹائیفائڈ ہے کمزوری بے حد بڑھ گئی اور بڑھتی چلی گئی . 20 اگست کو جمعیت کی میٹنگ کی تاریخ باہمی مشورہ سے آپ ہی نے طے کی تھی مگر علالت شرکت سے مانع رہی. ہم سب کو کیا پتہ تھا کہ اب ہماری ملاقات نہیں ہوپائے گی. ہزار چاہت اور کوشش کے باوجود سرحد پر سختی کی وجہ سے ملاقات نہ کرسکا .جس کا حد درجہ افسوس ہے.
اللہ تعالیٰ آپ کی بشری لغزشوں کو معاف فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ضلعی جمعیت اہل حدیث کو نعم البدل عطا فرمائے. آمین یارب العالمین
عبد الرحیم امینی-جامعہ دارالہدیٰ یوسف پور سدھا رتھ نگر
قا ئد جماعت کی یاد میں
تہے اور غم پر انکا جانا
عجب اک حادثہ سا ہو گیا ہے
علامہ صلاح الدین یوسف کی وفات حسرت آیات سے عبقریا ت جماعت کی رحلتوں کا جو ایک سلسلہ شروع ہوا رکنے کا نام نہیں لیتا ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی شیخ محمد مقیم فیضی شیخ علی حسین سلفی رحمہم اللہ کی جدائیوں کا زخم ابھی تازہ اور ہرا ھے مندمل ہونے کا نام نہیں لیتا ایک اور کرارا جھٹکا شیخ عبدالمنان سلفی کی اچانک وفات سے ایسا لگ گیا کہ جماعت وجمعیت احباب واقربا کا کلیجہ صد لخت ہو کر رہ گیا سراج العلوم اپنے ریکٹر سے محروم ہوگیا ماہنامہ السراج کا مدیر چل بسا ضلعی جمعیت اہلحدیث سدھا رتھ نگر اپنے فعال و سخت کوش مدبر و حکیم سکریٹری جنرل کی دور اندیشیوں سے ہاتھ دھو بیٹھی اللہم اغفر لہ وارحمہ
جب بھی بستی وگونڈہ بلرامپور مہراج گنج اور سدھا رتھ نگر اضلاع کے مسلمانوں کے سامنے دینی فقہی اور اجتہادی مسائل سامنے آۓ فی الفور آپ رحمہ اللہ نے کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل و مبرہن حل پیش فرمایا لاک ڈاؤن میں صلاۃ جمعہ کا مسٔلہ ہو یا گھروں میں صلاۃ عیدین کا ایشو آپ کی بر وقت رہنمائیوں سےجماعت کے لیے عمل کی راہ آسان ہو گئ اور قوم اختلاف و انتشار سے بچ گئ اسی طرح ملی وسیاسی مسائل پر مثبت و تعمیری مشورے اور صحیح سمتوں کی تعئین فرما کر اپنی دور اندیشی ا اور عقاب نظری کا ثبوت بہم پہنچا یا اللہم اغسل خطایاہ بالماء والثلج والبرد
آپ رحمہ اللہ راسخ العزم دھن کے پکے اور عمل پیہم پر یقین رکھتے تھے سراج العلوم کی جامع مسجد میں خطبات جمعہ کا سلسلہ شروع ہوا اور تک جاری رہا انتری بازار میں عید ین کے مستقل امام رہے مجلہ السرا ج
کو اپنے مخصو ص مضامین ومقالات کے ذریعہ نہ صرف ایک رنگ و آہنگ بخشا بلکہ
نئی بلندیوں اوربے پناہ رفعتوں تک پہونچا نے کے لۓ کوئ دقیقہ فروگزاشت نہیں فرمایا الہم
اکرم نزلہ ووسع مدخلہ
آپکی زبان ستھری نتھری قلم سیال گل ریزاورحساس تھا تعزیتوں کے لیے وفیات کا مخصوص کالم قارئین کے دل کی دھڑکن اور طلب و جستجو کا مرکز بن گیا تھا کون جانتا
تھا کہ اچانک نقاش جہاں نقش بر دیوار بن جائے گا
شیخ کی رحلت نہ صرف سراج العلوم اور اسکے کنبے کا نقصان ھے بلکہ پوری ملت کا عظیم خسارہ ہے اور ذاتی طور پر میں تو سکتے میں آگیا اب رہنمائیوں مشوروں مواخذوں اور احتسابات کا سلسلہ موقوف ہوتا دکھائی دیتا ہے دلبر ودلرباچارہ ساز وغمگسارسینے کا داغ بن گیا پیکر تحمل احسان مجسم کہاں ملے گا ؟
دروس کے نت نئے پھول گلدستوں میں سجا کر کون سامعین وقارئین کے حضور پیش فرماۓگا ؟
یادوں باتوں کا ہجوم ہے سمجھ میں نہیں آتا کیا تحریر کی جایئں اورکیاحوالہ فردا کر دی جائیں اس زخم کی ٹیس مدتوں اٹھتی رہے گی
وما کان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیاد قوم تھدما
کہتے لوگ ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
سلیم ساجد مدنی- ریاض
ایک عظیم حادثہ
بقضائے الہی فضیلة الشیخ مولانا عبد المنان سلفي رحمه الله تعالى وکیل جامعہ سراج العلوم جهنڈانگر نیپال ، ایڈیٹر ماہنامہ السراج گذشتہ رات ایک بجے کے قریب اللہ کو پیارے ہوگئے. إنا لله وإنا إليه راجعون. ان کی رحلت قوم و ملت کے لئے عظیم خسارہ ہے.
احباب سے دعائے مغفرت کی درخواست ہےأحسن الله عزاءكم وعظم أجركم في وفاة الراحل فضيلة الشيخ عبد المنان السلفي رحمه الله تعالى رحمة واسعة و أدخله فسيح جناته و الهمكم الصبر و السلوان و إنا لله وإنا إليه راجعون
محمد مستقیم مدنی-دھنوشا نیپال.
شیخ عبد المنان السلفی رحمہ اللہ؛ کچھ یادیں کچھ باتیں
=================
کسی نے سچ کہا ہے ” موت العالم موت العالم ” یعنی ایک عالم کی موت گویا کہ دنیا کی موت ہے-
ویسے ہر آنے والے کو ایک دن جانا ہے، لیکن کچھ جانے والے ایسے ہوتے ہیں جن کے فراق میں لوگ مدت تک افسردہ و غمزدہ رہتے ہیں-
انہیں جانے والوں میں سے ایک عبقری شخصیت، نابغئہ روزگار، بے باک خطیب، بے لوث صحافی و مؤلف، مشفق استاذ و مربی، مخلص قائد اور صاف ستھری ذھنیت کے مالک فضیلة الشيخ عبد المنان السلفی رحمہ اللہ رحمة واسعة تھے، جو اپنی بے لوث تدریسی و دینی خدمات سے طلاب و اہل علم کے درمیان ایک اھم مقام رکھتے تھے، کسی بھی اجتماع و کانفرنس کی کامیابی کا سہرا آپ کی نظامت پر منحصر رہتا، لیکن بقضاء الہی ” کل نفس ذائقة الموت ” (ہر جاندار کو ایک نہ ایک دن موت آنی ہے)
اور بقول عربی شاعر
کل ابن انثی و ان طالت سلامته
یوما علی آلة حدباء محمول
ہر انسان گرچہ اس کی سلامتی زمانہ مدید تک رہے ایک دن لکڑی کے تخت پر سوار ہونا ہی ہے-
ہمارے درمیان اب فضیلة الشيخ عبد المنان السلفی رحمہ اللہ نہیں رہے-
لیکن ان کی کچھ یادیں ہمیشہ ذہن میں تازہ رہیں گی:-
* طلاب اور اہل علم کے ساتھ ان کی محبت دیکھئے، میری طبیعت تقریبا پندرہ دنوں سے ناساز ہے (اور الحمد للہ ابھی پہلے سے بہت افاقہ ہے) جب شیخ محترم کو میری ناسازئی طبیعت کی خبر ملی تو شیخ نے بڑا پیار بھرا پیغام میرے واٹساپ پر 15 اگست کو کیا جو من و عن قارئین کی خدمت میں پیش ہے،
” السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ کرے آپ بخیر و عافیت ہوں
شیخ محمد مستقیم مدنی حفظہ اللہ کی صحت کیسی ہے ؟ باخبر فرمائیں ، اللہ تعالی شیخ موصوف کو اپنے فضل و کرم سے صحت کاملہ و عاجلہ نصیب فرمائے آمین
ممکن ہو تو انھیں میرا سلام بھی عرض کریں
عبد المنان سلفی جھنڈا نگر ”
میں نے جوابا عرض کیا تھا
” و علیکم السلام و رحمہ اللہ و برکاتہ
جی شیخ پہلے سے بہت افاقہ ہے، اللہ تعالی آپ لوگوں کو جزائے خیر سے نوازے ”
تب شیخ نے لکھا :-
” ما شاء اللہ، اللہ مکمل صحت و عافیت عطا فرمائے آمین شکریہ و جزاکم اللہ خیرا ”
پھر رابطہ منقطع ہوگیا، پھر شیخ کے علیل ہونے کی خبر گروپس میں آنے لگی اور کس کو کیا پتہ شیخ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوجائیں گے،رحمہ اللہ
* آج سے تقریبا چار یا پانچ سال قبل جامعہ سراج العلوم السلفیہ، جھنڈانگر، نیپال کے زیر اہتمام اور فضیلة الشيخ فهد الغامدي الریاض حفظه الله کے زیر اشراف ایک ہفتہ کے لئے جامعہ کے پرآنگن میں دورہ تدریبیہ للدعاة عمل میں آیا تھا، میں ایک دو دن تاخیر سے دورہ میں شریک ہوا، شیخ خورشید حفظہ اللہ کے قیام گاہ میں مختصر ناشتہ اور چائے کے بعد جامعہ کی نئی عمارت میں گیا جہاں دورہ ہورہا تھا، بہت سارے علماء و دعاة و طلاب سے ملاقات ہوئی، بڑی خوشی ہوئی- شیخ محترم رحمہ اللہ سے بعد نماز مغرب ملاقات ہوئی، نیپال اور خصوصا مشرقی نیپال میں دعوت و تبلیغ، رفاھی کاموں کے بارے میں مفصل گفتگو ہوئی اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا-
قابل ذکر بات یہ ہے کہ دو دن بعد حفلہ ختامیہ تھا، علاقے کے نامور سیاسی لوگ بھی مدعو تھے، عرب کے شیوخ کے ساتھ جمیعت اہل حدیث نیپال کے مسؤلین، جامعہ سراج العلوم السلفیہ کے اساتذہ کرام اور دیگر علمی شخصیات کی موجودگی بھی تھی-
چند علماء و شیوخ کے تبصرے ہوچکے تھے؛ نظامت کی ذمہ داری شیخ محترم رحمہ اللہ فرمارہے تھے اچانک انہوں نے اعلان کیا کہ اب میں دعوت دے رہا ہوں مشرقی نیپال کے ابھرتے ہوئے داعی کو ۔۔۔۔۔ (میں بھی دوسرے کا منہہ تکنے لگا کہ مجھ سے بڑے اور سینیر لوگوں کو دعوت دیں گے) لیکن انہوں نے فرمایا : شیخ محمد مستقیم مدنی کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اسٹیج پر تشریف لاکر اپنا تبصرہ پیش کریں-
میں اپنا نام سن کر ہکا بکا رہ گیا میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھ جیسے کو بھی دو باتیں رکھنے کے لئے دعوت ملے گی، اس وقت میرے پاس ٹوپی بھی نہیں تھی کسی ساتھی سے ٹوپی لی اور اسٹیج پر پہچ گیا، شیخ محترم رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ عربی میں بولوں یا اردو میں، شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا اردو میں، چند منٹ میں نے دورہ کے سلسلے میں اپنی بات رکھی، بعد میں شیخ نے بہت سراہا اور دعائیں دیں-
یہی سب باتیں یاد آتی ہیں تو کلیجہ منہہ کو آتا ہے، لیکن صبر کے علاوہ ہم کچھ کربھی نہیں سکتے ہیں-
اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه ووسع مدخله واكرم نزله و أبدل بيته خيرا من بيته و الهم ذويه الصبر و السلوان امين يارب العالمين
ابو محمد افضال احمد شمیم سلفی- قطر
پھوپھاشیخ عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ
میرے مربی میرے سرپرست
23 اگست 2020 ء کی شام ہمارے لئے بڑی کربناک تھی،پھوپھا شیخ عبدالمنان سلفی کی شدید علالت کے باعث انہیں بٹول لیجانے کی خبر سے بےچینی پھیلی ہوئی تھی، ہم سبھی ان کی صحت اور درازی عمر کے لئے دعائیں کر رہے تھے کہ رات ساڑھے دس بجےفون کی گھنٹی بجی ، فون رسیو کیا تو برادرم حافظ اشفاق احمد سنابلی سلمہ نے یہ دلدوز خبرسنائی کہ شیخ عبدالمنان سلفی اس دارفانی سے رحلت فرما گئے۔ إنالله وإنا إليه راجعون،ورحمه اللہ رحمة واسعة وادخله فسیح جناته۔ اپنی ازحد محبوب اور مشفق شخصیت کی یوں اچانک رحلت کی خبر ملتے ہی دل کوجیسے شکنجے میں جکڑ لیاتھا، آنکھیں اشک ریز اور سانسیں ڈوبتی جا رہی تھیں، اہلیہ اور بچے غم سے نڈھال ہوگئے۔
بلاشبہ آپ کو اللہ تعالی نے گوناگوں صلاحیتوں سے نوازا تھا، آپ ایک بلند پایہ مدرس، بےباک داعی ، فصیح البیان خطیب، فقیدالمثال مصلح ومربی اور کہنہ مشق مصنف اور منجھے ہوئے قلمکار اور کامیاب منتظم تھے۔
آپ نے ضلع سدھارتھ نگر یوپی کی ایک مردم خیز بستی ” محمودوا گرانٹ ،انتری بازار کے ایک عظیم علمی گھرانے میں دسمبر 1959ء میں آنکھ کھولی، اوراپنے جدامجد مولانا محمد زماں رحمانی رحمہ اللہ جو جامعہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے فارغ التحصیل ایک جید عالم دین تھے، اور اپنے والد محترم شیخ الحدیث ومفتی عبدالحنان فیضی رحمہ اللہ جن کاشمار ہند ونیپال کے کبار علماء وفقہاء میں ہوتاتھا کے زیر تربیت پلے ،بڑھے اور پروان چڑھے، پھر اپنے گاؤں کے مدرسہ بحرالعلوم وجامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر سے اپنی علمی تشنگی بجھاتے ہوئے ہندوستان میں جماعت کی مایہ ناز مرکزی درسگاہ جامعہ سلفیہ میں مسلسل آٹھ برس اسلامی علوم وفنون میں ماہر اور اپنے عہد کے عظیم وجلیل القدر اساتذۂ علم سے فیض و اکتساب کیا، اور سن 1982ء میں وہاں سے فراغت کے بعد بطور مدرس”مدرسہ عربیہ قاسم العلوم ” گلرہا، ضلع گونڈہ میں سلسلۂ تدریس کا آغازکیا، پھر وہاں سے مرکز ابو الکلام آزاد ایوکننگ سینٹر کے تحت چلنے والے ادارے ” معہد التعلیم الاسلامی” نئی دہلی چلے گئے،بعد ازاں مرکز التوحید کے تحت چلنے والے ادارے "مدرسہ خدیجۃ الکبری للبنات” کرشنانگر، نیپال منتقل ہوگئےیہاں سات سال تک تدریسی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ مرکز کے ادارتی وانتظامی امور بھی مکمل طور پر سنبھالتے رہے، پھر سن 1996ء میں جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال سے منسلک ہوگئے اورمسند تدریس کو زینت بخشنے کے ساتھ ساتھ جامعہ کی حفاظت،تعمیرو ترقی اوراستحکام کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کئے رکھیں اور اسے معراج ترقی تک پہونچانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
بلاشبہ آپ گوناگوں خصوصیات کے حامل تھے، جس شعبہ میں قدم رکھا اپنی پہچان بنائی ، آپ کی38 سالہ طویل تدریسی خدمات سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں، آپ قلم سے سطح قرطاس پر علم وحکمت کے موتی بکھیرنے کا خاص ملکہ رکھتے تھے، اسی لئے آپ کا شمار برصغیر ہندوپاک کے ممتاز مصنفین وقلمکاروں میں ہوتا تھا ،مختلف جماعتی جرائد ورسائل اورسرزمین جھنڈا نگر سے شائع ہونے والے دو میگزین "نورتوحید” اور” السراج "کی ادارت کے تقریبا چوبیس سالوں میں آپ کےتحریر کردہ اداریے، تبصرے، وفیات ، متنوع عنوانات پرعلمی و تحقیقی مقالات اور سوانحی مضامین کے علاوہ آپ کی مطبوعہ وغیر مطبوعہ بلند پایہ تصنیفات ، اور علمی سمینار میں پیش کئے گئے سیکڑوں پر مغز علمی مقالات اس پر شاہد ہیں۔
آپ ایک عظیم داعی ومبلغ اور بلندپایہ خطیب تھے، آپ جہاں بھی رہے خطبہ جمعہ ودروس کا سلسلہ برابر جاری رکھا، جامع سراج العلوم سے وابستگی کے بعد آپ جامعہ کی مرکزی مسجد میں مستقل خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے،آپ کے خطبات جمعہ کی سماعت کے لئے جھنڈانگر وبڑھنی کے علاوہ قرب وجوار کے لوگ بھی ذوق وشوق سے آیا کرتے تھے، ہند ونیپال میں بطورخطیب ومقرر آپ کی بڑی شہرت ومقبولیت تھی، ہند ونیپال کے دور دراز علاقوں کے تبلیغی ودعوتی کانفرنسوں اور اجتماعات میں بطورخطیب وناظم اجلاس شرکت کے لئے تشریف لے جاتے اور خطاب فرماتے ،آپ کے خطابات وتقریریں قرآن وحدیث کے دلائل وبراہین سے مزین اور نہایت مؤثر اور دلنشیں ہوا کرتے تھے ، اور آپ کے لب ولہجے میں بے پناہ اعتماد اور انداز تکلم میں وقار اور ایک خاص جلال پایا جاتا تھا۔
اسی طرح آپ کی جماعتی ومسلکی خدمات بھی قابل تحسین ہیں ، صوبائی جمعیت اہلحدیث یوپی کی مجلس عاملہ وشوری کے ممبر اور ضلعی جمعیت اہلحدیث سدھارتھ نگر کے دو مرتبہ عہدۂ نظامت پر فائز ہوئے، اورجمعیت کے ساتھ اپنے تعلق کو اپنی وفات تک قائم رکھا۔
مولانا موصوف کواللہ تعالی نے ہمہ قسم صفات حمیدہ اور خصائل رشیدہ سے نوازا تھاآپ نے اس پر آشوب دور میں نہایت پاکیزہ اور آلائشوں سے مبرا زندگی گزاری ہے جو قابل رشک ہے،آپ علم وفضل کے مقام عالی پر فائز ہونے کے باوجود سادہ مزاج، حلیم الطبع، وسیع القلب، اورخود نمائی اور تکبر سے کوسوں دور تھے،گھریلوضروریات میں خود کام کرتے اور افراد خانہ کے ساتھ مل کر ان کا ہاتھ بٹانا معیوب نہیں سمجھتے تھے، اپنے گھرانے ، خاندان اور رشتہ داروں سے مکمل طور پر جڑے ہوئے تھے، ہر خوشی وغمی میں شرکت کیا کرتے تھے کبھی وقت اور مصروفیات کا بہانہ بنا کر پہلوتہی کرنے کی کوشش نہیں کی،اسی طرح اپنے خاندان اور اعزہ واقارب کے علاوہ اپنے ساتھیوں کے مسائل اور ان کے حل میں ان کی دلچسپی یکساں نوعیت کی تھی، اور علم دوست احباب کی ترقی کے خواہاں اور ان کی صلاحیتوں کو نکھرتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے اور شاہراہ علم دین پہ گامزن لوگوں کی خوب حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
مولانا رحمہ اللہ سے میری غائبانہ واقفیت ان کی بلندپایہ کتب اور دینی مجلات وجرائد میں شائع شدہ گرانقدر مقالات ومضامین کے ذریعہ زمانہ طالب علمی ہی سےتھی مگر بالمشافہ ملاقات اور گفتگو کا موقع کبھی نہیں ملا تھا، ماہ اکتوبر 2001ء میں مولانا رحمہ اللہ کے پھوپھی زاد بھائی اوران کے برادر نسبتی محترم ڈاکٹر سعیداحمد اثری – متعنا اللہ بطول حیاتہ – کی صاحبزادی کے ساتھ میری شادی طے کرنے کے لئے خانوادۂ میاں زکریا رحمہ اللہ کے دیگر بزرگوں کے ساتھ میرے گھر موضع مڑلا ، ضلع روپندیہی ، نیپال تشریف لائے، یہیں پہلی بار ان کے ساتھ براہ راست ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اور ان کی کمال شفقت ، انس ومحبت کے سبب ان سےقربت و تعلق بڑھتا ہی چلا گيا۔
کتنے حسین لوگ تھے جو مل کے ایک با ر آنکھوں میں جذب ہو گئے دل میں سما گئے
شادی کے بعد جھنڈا نگر مسلسل آمد ورفت کی وجہ سے آپ کی مجالس میں بکثرت حاضری کا شرف حاصل ہوتا، اور ان کی التفات وعنایات سے سرفراز ہوتا،مجھے آپ کی صحبتوں اور مجلسوں سے بہت فیض حاصل ہوا ۔
مولانا میرے لئے بہترین نگراں، اتالیق اور اخلاقی محتسب وناصح کی حیثیت رکھتے تھے، آپ کی تربیت کا نہایت حکیمانہ انداز تھا، مجھے ہمیشہ مضمون نگاری کی ترغیب دیتے، جب کوئی مضمون ان کےسامنے اصلاح ونظرثانی کے لئے پیش کرتا تو خوشی خوشی اس کی اصلاح اور نوک پلک درست فرماتے اور تلقین کرتے کہ اسے اپنے پاس رکھنے کے بجائے کسی مجلہ میں اشاعت کے لئے بھیج دوتاکہ محفوظ ہو جائے اور لوگ اس سے مستفید ہو سکیں، کبھی کسی جلسے میں آپ کی معیت حاصل ہوتی تو خطاب کے لئے کہتے، جب میں نے تعلیمی فراغت کے بعد میدان عمل میں قدم رکھاتو آپ کی خواہش تھی کہ میں مرکز امام ابن قیم کولہوئی بازار، ضلع مہراج گنج میں بطور مدرس اپنی عملی زندگی کا آغاز کروں، مگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکا،اور المرکزالاسلامی للدعوۃ والارشاد بسالت پور میں بطور مدیر تنفیذی میری تقرری عمل میں آئی توآپ نے ناراضگی کے اظہار کے بجائے دعوتی امور کی انجام دہی سے متعلق مجھے مفید اور موثر نصیحت فرمائی ،اور آپ جب بھی اس علاقہ میں دعوتی مقاصد کے تحت جاتےتو مرکز ضرور تشریف لاتےاور مرکز کی تمام سرگرمیوں کا جائزہ لیتے اور مرکز کی تعمیر وترقی کے لئے مفید مشوروں سے نوازتے۔
17 نومبر 2008 ء میں قطر کی دعوتی تنظیم موسسہ عید الخیریہ کے دعوتی ادارہ مرکز ضیوف قطر میں بحیثیت داعی ومترجم میری وابستگی کے بعد آپ بذریعہ ٹیلیفون برابر احوال پرسی فرماتے، جامعہ سراج العلوم سلفیہ جھنڈا نگر کی مالی تعاون کے حصول کے لئے آپ دو مرتبہ قطر تشریف لائے، اور ہمیں اپنی خدمت اور علمی استفادہ کاسنہری موقع عنا یت فرمایا، اور اپنی گرانقدر نصیحتوں اور دعاؤں سے نوازا۔
سن 2010 ء میں جب میں نے ادارہ جمعیۃ السلام للخدمات الانسانیہ کے قیام کا منصوبہ بنایا تو آپ نےنہ صرف انتہائی خوشی ومسرت کا اظہار کیابلکہ حوصلہ افزائی فرمائی اور ہماری خواہش پر اس کی سرپرستی قبول فرمائی، جمعیت کے معاملات میں ہمیں جب بھی کوئی الجھن پیش آتی توہم آپ سے مشورہ و رہنمائی کے طالب ہوتےاور ان کے تدبر وفراست اور بلندنظری ہمارے کام آتی، آپ کو جمعیت سے بیحد محبت تھی ، جمعیت کے شعبہ تعمیر مساجد کے تحت بنائی جانے والی اکثرمساجد کی سنگ بنیاد اورتکمیل کے بعد افتتاحی خطبہ جمعہ کے لئےآپ سے درخواست کی جاتی تو آپ بطیب خاطرتشریف لاتے، اور معہد ابی بن کعب لتحفیظ القرآن الکریم کے سالانہ اجلاس وجلسۂدستار بندی میں بالالتزام شرکت فرمایا کرتے تھے،مرکزی خطاب آپ ہی کا ہوتا، قرآن وسنت اور اسلامی تاریخ کے واقعات سے مزین ان کا مدلل وموثر خطاب سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیتا، اور وہ ہمہ تن گوش ہوکر ان کی تقریر دلپذیر سنتے۔
جمعیت کے ساتھ آپ کے قلبی لگاؤ کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ جب جمعیت نےاپنے شعبہ دعوت وتبلیغ کی جانب سے ہفت ریڈیو پروگرام شروع کرنے کے منصوبے سے آپ کو باخبر کیااور اس کے لئے مناسب نام تجویز کرنے کی درخواست کی تو آپ نے بیحد خوشی کا اظہار کیا اور آپ نے اس کا نام” روشنی”تجویز کیا اور اس پروگرام کی نگرانی اور اسےچلانے کی مکمل ذمہ داری اپنے سر لے لی ، چنا نچہ آپ اپنی تمام تعلیمی، تنظیمی، علمی مصروفیات اور گھریلو مشاغل کے باوجود ہفت روزہ ریڈیو پروگرام "روشنی "کی ریکارڈنگ کے لئے ہر ماہ اپنے صاحبزادے برادرم سعود اختر سلفی حفظہ اللہ کے ساتھ شہر "بھیرہوا ” تشریف لاتے اور سدھارتھ ایف ایم کے اسٹوڈیو میں اپنی تقاریر اورعوام الناس کی جانب سے بذریعہ ڈاک وٹیلیفون موصولہ سوالات کے تشفی بخش جوابات ریکارڈ کرواتے، جو ہر ہفتہ بروز جمعہ شام ساڑھے چھ بجے نیپالی ٹائم سے نشر ہوتا تھا ، 23دسمبر2011ء سے 07 دسمبر 2012ء تک آپ نے اس پروگرام کو نہایت مہتم بالشان طریقے سے چلایا،پھر کثرت مشاغل کی وجہ سے خود آنا بند کردیا مگر مسلسل ہدایات دیتے رہے،اس پروگرام میں نشر شدہ آپ کی تمام تقاریر کی سی ڈیز محفوظ ہیں جنہیں لکھ کر کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ ہے۔
اور ادارے کے شعبہ ترجمہ وتالیف کی جانب سے نشرواشاعت کے لئے اپنی گرانقدر تالیفات اور مقالات عنایت فرماتے، چنانچہ جمعیۃ السلام کوجون 2011ء میں آپ کی کتاب ” تحفہ رمضان المبارک” اور دوسری کتاب ” عظمت صحابہ رضی اللہ عنہم ” کی طباعت واشاعت کا شرف حاصل ہوا، جبکہ ملک نیپال میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیش نظر ان کی حقیقت اور ان کےباطل عقائد وافکار سے امت مسلمہ کو آگاہ کرنے کےلئے ادارہ جمعیۃ السلام للخدمات الانسانیہ نے سن2019ء میں آپ کی بلند پایہ کتاب بنام” فتنہ قادیانیت ” کا آپ کے حکم پر برادرم محمد شریف تیمی حفظہ اللہ کے ذریعے نیپالی زبان میں منتقل کروا کے زیور طبع سے آراستہ کرکے مفت تقسیم کیا ، اپنی وفات سے چند ماہ قبل آپ نے مجھ سے اس کتاب کے اردو اضافہ شدہ ایڈیشن کے دوبارہ شائع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا میں نے کہا میں تیار ہوں ، آپ اپنی نگرانی میں کتاب کی کمپوزنگ ، ڈیزائننگ اور ٹائٹل تیار کروا کے مجھے دیں میں اس کی طباعت کا انتظام کرتا ہوں، بحمداللہ آپ کے زیر نگرانی کتاب کی کمپوزنگ،ڈیزائننگ، ٹائیٹل اور پروف ریڈنگ کا کام مکمل ہوچکا تھا، چند روز قبل 15/08/2020 کو جب میری ان سے بات ہوئی تو آپ نے کہا کہ میں اس کتاب کی نظرثانی کر لوں پھرآپ کو بھیجتا ہوں، مگر مشیت الہی انسانی ارادے پر غالب آئی اور موت اچانک آئی اور انہیں ہم سے اچک کر لے گئی، اور یوں یہ کام ان کی زندگی میں تشنہ تکمیل رہ گيا۔
بلاشبہ جمعیۃ السلام کی تعمیر وترقی اور استحکام میں آپ کی سرپرستی، گراں قدر مشوروں اور رہنمائی کا بہت بڑا دخل ہے،جو یقینا یہ ان کے لئے صدقہ جاریہ ہوں گی ،ان شاء اللہ۔
آپ کی وفات صرف آپ کے اہل خانہ ، اعزہ واقارب اور جامعہ سراج العلوم السلفیہ ہی کے لئے نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے یہ ایک عظیم سانحہ اور شدید ترین خسارہ ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی دینی ، علمی ، تدریسی ، صحافتی ، دعوتی اور تنظیمی بیش بہا خدمات کو شرف قبولیت بخشے،ان کی مغفرت فرمائے، اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، اور پسماندگان بالخصوص برادرم سعود اختر سلفی اور جملہ اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ ہم سب کی دعا ہے یہی ہاتھوں کو اٹھا کر= یارب انہیں جنت فردوس عطا کر
شمیم عرفانی ( ابرار احمد سنابلی مدنی ) عفیف – سعودی عرب
فخر ِجماعت مولاناعبد المنان سلفی رحمہ اللہ کا سانحہء ارتحال
گذشتہ کئی دنوں سے میں اپنے گھر کے پانچ افراد کے ساتھ کورنٹائن میں ہوں اور اس وقت یہاں عفیف ، سعودی عرب میں امید وبیم کی عجیب کیفیت میں مبتلا ہم سب ابھی بھی زیر علاج ہیں۔ فی الحال صحت بفضلہ تعالی قدرے غنیمت ہے فللہ الحمد والشکر اولا وآخرا، علالت کے انہیں ایام میں عزیزی سلمان عرفانی سلمہ اللہ کے ذریعہ جماعت کے ممتاز ومعروف ترین ربانی عالم اور جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے متبحر ،مقتدر اور باوقار استاذفضیلۃ الشیخ عبد المنان سلفی رحمہ اللہ کی خرابئ صحت کی ناگہانی خبر ملی ،چنانچہ بارگاہ ِ رب لم یزل ویزال میں گھرپرمولانا رحمہ اللہ کی صحتیابی کیلئے خصوصی طور پر دعاؤں کا کثرت سے اہتمام کیا گیا تاہم کاتب ِ تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ مورخہ22 اگست کو عزیز القدر سلمان سلمہ اللہ نے میری جسمانی حالت زار کو دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی بڑی ہمت کے ساتھ غم واندوہ میں ڈوبی یکایک یہ جانگسل اور دل خراش خبر سنائی کہ ہمارے ممدوح مولانا رحمہ اللہ علاج ومعالجہ کے باوصف جانبر نہ ہوسکے اورابھی ابھی داعئ اجل کو لبیک کو کہہ گئے ، إنا لله و إنا إليه راجعون ، یہ اندوہناک خبر ذہن ودماغ پر ایک صاعقہ بن کر گری ،یقین کرنامشکل ہورہا تھا ابھی ہفتہ عشرہ قبل شیخ محترم نے خود میری صحت یابی کیلئے دعائیں کی تھیں بلکہ کچھ دنوں قبل ہی میں اپنے آفس میں مولانا خیر اللہ اثری رحمہ اللہ کی وفات پرمولانا سلفی رحمہ اللہ کا ایک خصوصی مضمون بھی باصرہ نوازز ہوا تھا لیکن شومئ قسمت کہ آج مولانا رحمہ اللہ خود ہمیں داغِ مفارقت دے گئے سچ ہے کہ ” تقدیر کے لکھے کا مٹانامحال ہے اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وارفع درجاتہ عندک فی الجنۃ )َ۔
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کیلئے ،کس کس کا ماتم کیجئے
تقریبا نو ماہ قبل 7 ستمبر 2019 کو مولانا رحمہ اللہ سے شہر نوگڈھ کے ایک اسپتال میں فضیلۃ الشیخ عبد الواجد فیضی حفظہ اللہ کی عیادت کے موقع پر میری تفصیلی ملاقات ہوئی تھی اس وقت آپ کے ساتھ آپ کے دیرینہ رفیق مولانا اصغر علی اثری رحمہ اللہ بھی موجود تھے مولانا سلفی رحمہ اللہ نے بڑی خوش خلقی اورخندہ جبینی کا مظاہرہ فرمایا اور اس ذرہء بے مقدار کو چندقیمتی نصائح سے بھی بہرہ مند فرمایا ، لیکن کیا خبر تھی کہ یہی ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوگی، والد گرامی مولانا عرفان اللہ ریاضی رحمہ اللہ سے آپ کے گہرے مراسم اور دیرینہ تعلقات تھے موصوف رحمہ اللہ نے خاکسار کے دو مضامین ایک بدعت : حقیقت اسباب اثرات اور علاج ، اور دوسرا رسول اکرم ﷺ کی عائلی زندگی کے عنوان سے کئی قسطوں میں میری طالبعلمی کے ایام میں ہی مجلہ نور توحید میں شائع کیا تھا ، آپ رحمہ اللہ متنوع الجہات شخصیت کے مالک اور گوناگوں ستودہ صفات کے حامل انسان تھے ،آپ اپنی زبان وقلم سے مسلک حق کے دفاع میں ہر محاذ پر نظر آتے ،جذباتیت سے بیزار اور جذبہ سے سرشار دین ِ حنیف کی خدمت میں آپ نے اپنی حیات ِمستعار کے شب وروز کو یکسرتج دیا ،آپ اضطراب وسیمابیت کا سراپا ،آہنی عزم ویقین کا نمونہ اور صلابت ِ شوق وذوق کا آئینہ دار تھے ،مجلہ نور توحید اور ماہنامہ السراج کے صفحات آپ کے اشہبِ قلم کی جولانی اور شوخئ تحریر کا بہترین مرقع ہیں مولانا رحمہ اللہ کی رحلت یقیناملک و ملت اور جماعت کیلئے ایک نا قابل تلافی عظیم خسارہ ہے دعا ہے کہ اللہ مولائے کریم ہمارے شیخ محترم کی بشری لغزشوں کو در گزر فرمائے ،آپ کی ہمہ جہت مساعئ جمیلہ کو شرف قبول بخشے ،آپ کو فردوسِ اعلی کا مکین بنائے ،درجات کو بلند کرے شیخ رحمہ اللہ کے پسماندگان ،محبین ،تلامذہ نیز جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر اور مرکز التوحید کے تمام معززذمہ داران و منسوبین کو صبر ِ جمیل اور عزیمت کی توفیق ارزانی بخشے اور جمعیت وجماعت اور جامعہ کو ان کا نعم البدل عطا کرے آمین ، مرکز السلام کے ذمہ اداران اور اس کی ذیلی تعلیمی ودعوتی شاخوں کے تمام اساتذہ ومنسوبین مولانا رحمہ اللہ کے خانوادہ اور جامعہ سراج العلوم السلفیہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور ان حضرات سے بھر پور اظہار تعزیت کرتے ہیں ۔۔فأحسن الله عزاءناو عزاءكم جميعااللہ ہم سب کو ہر قسم کے ناگوار امور اور شرور وفتن سے اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔آمین۔
عبدالمبین بن عنایت اللہ مدنی مدرس جمعیة التوحيد الخيرية،بجوا کپل وستو نیپال
23/اگست 2020 دن اتوار کی صبح بڑے ہی رنج و الم کے ساتھ یہ خبر سنی گئی کہ محترم المقام جناب مولانا عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ کا انتقال رات میں تقریبا ایک بجے ہوگیا ،آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ، مختصر یہ کہ آپ کا نسبی تعلق ایک ایسے خانوادہ علم سے تھا جو نیپال کی قدیم ترین بڑی اسلامی و سلفی درسگاہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر کپل وستو میں تقریبا چار پستوں سے تدریسی و دعوتی خدمات کرتا چلا آرہا ہے ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
ان چار پستوں میں آپ کی شخصیت بڑی نمایاں نظر آتی ہے ، آپ ایک ماہر مدرس ، خطیب، مصنف صحافی، فعال و متحرک منتظم کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے ، اس کے باوجود تکلفات سے بہت دور ، سادگی اور تواضع آپ کی شان و پہچان تھی، آپ کے وجود سے جامعہ کا استحکام اور ناظم جامعہ _ حفظہ اللہ _ کا بوجھ ہلکا تھا ، جیسا کہ حاضرین جنازہ نے ناظم صاحب کی زبانی کرب و الم سے بھری ہوئی آواز میں سنا تھا ، آپ نے ضلع جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر یوپی کو بھی اپنی دعوت کا کچھ حصہ دے رکھا تھا جو آپ کے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہوگا ۔ ان شاء اللہ تعالٰی
جنازہ میں حاضرین کی کثرت اللہ تعالٰی کے خاص بندوں کی نشانی ہوا کرتی ہے اس لاک ڈاؤن اور خرابی موسم کے باوجود لوگوں کی کثرت تعداد دیکھ کر امام أهل السنة والجماعة امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول یاد آرہا تھا ” بيننا وبينهم يوم الجنائز ” یعنی ہمارے درمیان اور ان اہل بدعت کے درمیان جنازے کے دن فیصلہ کا دن ہوگا
اللہ تعالٰی حاضرین کی دعاؤں کو قبول فرمائے اور مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور مسلمانوں، جامعہ و جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور پسماندگان خصوصا ان کے اہل خانہ اور ناظم و ذمہ داران و افراد جامعہ کو صبر جمیل کی توفیق بخشے آمین ثم آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم آفشانی کرے # سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
عزيزالرحمن شفيق الرحمن سلفی -بھیرھوا ،نیپال-
فضیلۃ الشیخ عبدالمنان السلفی وکیل الجامعہ "جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر” ، ضلعی جمعیت اہلحدیث سدھارتھ نگر کے ناظم اعلیٰ اور ماہنامہ السراج کے ایڈیٹر کی وفات پوری امت اسلامیہ اور خاص طور سے جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کیلئے ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سب کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے! آمین
آپ کی شخصیت علمی دنیا کی ایک ممتاز ومعروف شخصیت تھی، آپ کے اندر دینی حمیت اور مسلکی ومنہجی غیرت بدرجہ اتم موجود تھی، آپ فن خطابت کے شہسوار اور فن صحافت کے کہنہ مشق قلمکار تھے۔ خلیق و ملنسار، متواضع ومنکسر المزاج اور عالی ظرف انسان تھے۔ آپ ایک بلند پایہ مصنف، مؤلف، کامیاب مدرس نیز دعوت و تبلیغ کے میدان میں پیش-پیش تھے۔
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو اپنی رحمت و مغفرت کے سایے میں جگہ نصیب فرمائے! اور ان کے تمام بشری لغزشوں اور کوتاہیوں کو عفو درگذر کرے۔ انکے حسنات کو شرف قبولیت بخشے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے! انکے اہل و عیال کو صبر جمیل کی توفیق مرحمت فرمائے! اور جامعہ سراج العلوم کو انکا نعم البدل عطا فرمائے! آمین یارب العالمین
وصی اللہ عبدالحکیم مدنی-جھنڈا نگر
محمد زاہد حسین سعیدی- کپل وستو
گل وبلبل کا ترجماں نہ رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ چند مہینوں میں علماءِ سلفیت کے متعدد بیش بہا لعل و گہر(ڈاکٹر محمد لقمان سلفی ،ڈاکٹرضیاءالرحمن أعظمی، مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف، شیخ الحدیث مولانا علی حسین سلفی،ڈاکٹر عبدالباری ،شیخ محمد مقیم فیضی،/رحمہم الله تعالي أجمعين)کی وفات کاغم ابھی تازہ ہی تھا،اور سلفیانِ عالم ان پیہم صدموں سے ابھر بھی نہ پائے تھے کہ جماعت کی ایک اور اہم ترین شخصیت،بے شمار دینی وعلمی خدمات کے روحِ رواں،ممتاز وممدوح عالمِ دین شیخ عبدالمنان سلفی /حفظہ اللہ، بھی بقضاءِ الہی رحلت فرماگئے ،إنالله وإناإليه راجعون، اللہ رحمٰن ورحیم شیخ کی مغفرت فرماکر انھیں اپنی رحمتِ خاص سے نوازے۔
غالب ہے ،نہ شیفتہ ،نہ میر باقی
وحشت ہے،نہ سالک، نہ انور باقی
حالی اب انہیں کو بزمِ یاراں سمجھو
یادوں کے جو کچھ داغ ہیں دل پر باقی۔
موت تو کسی بھی شخص کی غیر متوقع نہیں، بلکہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہی ہے، پہر بہی شیخ سلفی ،رحمہ اللہ کی وفات کی خبر سن کر ایک جھٹکا سا لگا،اور ان کا حادثۂ وفات اچانک سا محسوس ہوا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ لاک ڈاؤن کے حالیہ دنوں میں (عیدالاضحٰی کے بعد ) بہی آن لائن درس ووعظ ،ارشاد فرماتے ہو ئے،اور دیگر تنظیمی وادارتی خدمات سر انجام دیتے دیتے چلے گئے ،بیماری کی خبر سے اندازہ نہیں تھا کہ ٹائی فائڈ بخار جان لیوا ثابت ہوگا، اکابر کی مسلسل رحلت پر حضرة الاستاد عبدالرحيم أميني كا درد ياد آرها هے کہ از خود رفتہ ہو کر انہوں نے لکہا تہا ،، لگتا ہے کہ ملک الموت نے جماعت کی جھونپڑی کو تاک لیا ہے ،،
اللہ ہمارے باقی ماندہ علماء کو صحت وعافیت عطا کرتے ہوئےانکی عمر وں کو بابرکت بنائے،اور ان مغتنمات کا سایۂ عاطفت تادیر ہم پر قائم رکھے۔
بلاشبہ حضرة الشيخ / رحمہ اللہ ایک جامعِ شخصیت اور نہایت بافیض عالم تھے ،اس دورِ قحط الرجال میں ایسی جامع کمالات اور صاحبِ فیض شخصیت کا اس طرح اچانک اٹھ جانا صرف ،،جماعت ،، ہی کانہیں پوری ،،ملت ،،کے لئے سخت حادتہ ہے ۔ہم یہ شکوہ کرنے سے تو باز رہے کہ ،،ائے بادِصبا ایں ہمہ آوردۂ تست ،،کیونکہ
اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا شیوۂ ایمان ہے ،لیکن اس نوعیت کے بھاری دینی وعلمی سانحے پر دل میں رقت اور درد پیدا ہونا بھی فطری ہے ۔
دل ہی تو ہے، نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں۔
اللہ شاد کام کرے اس صاحبِ دل غم نگار شاعر کو جس نے ترجمانی کاحق ادا کرتے ہوئے ،
ستارے زمیں کے بجھے جارہے ہیں
اکابر ہمارے اٹھے جا رہے ہیں ۔
جیسی رقت انگیز اور جاں گداز نظم لکھ کر ہم جیسے أصاغر کے لئے ،اظہارِغم اور حصولِ عبرت کا سامان فراہم کردیا ہے۔
نصیر الحق سراجی
. استاذ محترم فضیلت الشیخ عبدالمنان صاحب سلفی رحمہ اللہ کے بارے میں کیا لکھوں،اور کہاں سے لکھوں،کیا میرے الفاظ شیخ کی حیات و خدمات پر لکھتے ہوئے حق ادا کر کرپائیں گے، ہاتھ لرز رہاہے آنکھیں اشکبار ہیں.کی کیا رقم کروں.بہر حال دل کے نہاں خانے میں ٹوٹے پھوٹے چند جملے ہیں جن کو قارئیں کے حوالے کر رہا ہوں
استاد مکرم عبد المنان صاحب سلفی کئ خوبیوں وصفات کے مالک تھے. خطابت صحافت انشاء پردازی میں منفرد مقام حاصل تھا کئ کتابوں کے مصنف ومولف تھے. تحفہء رمضان. قادیانیت ایک مطالعہ وغیرہ کتابیں بیش بہا تصنیفات ہیں ممتاز عالم دین تھے،بیش بہا علمی مضامین السراج اور دیگر رسالوں وجرائد میں چھپتے تھے دعوت وتبلیغ کرنا جلسوں کانفرنسوں میں شرکت اور خطاب کرنا آپ کی زندگی کا اہم حصہ تھا،امت مسلمہ کی ،بھلائی،ترقی،خوش حالی، فلاح و بہبود کیلئے بے حد فکر مند رہتے تھے،دلیری،بہادری،بےباکی،بےخوفی جیسی بےشمار صفات کے مالک تھےانتہائی خلیق و ملنسار تھے ،علم و ادب کے آفتاب،صبر و تحمل شعور و آگہی کے پیکر اور حلم و بردباری کے مجسم تھے۔بیک وقت وہ ایک مفکربھی تھے اور ایک کامیاب مدرس ومنفرد قلمکار آپ کی قیمتی تحریریں باصرہ نواز ہوتیں تو بغیر پڑھے آگے نہیں بڑھتا تھا. آپ کے رشحات قلم سے نکلے ہوئے موتی (مضامین) کے مطالعہ سے قلوب و اذھان کی منجمد کڑیاں اور دل ودماغ کی بند کھڑکیاں کھلتی چلی جاتی ہیں،آپ کی تصنیفات کے مطالعہ سےجگر کو حلاوت،دل کو لطافت،آنکھوں کو نور، دل کو سرور،دماغ کو تازگی،فرحت وبالیدگی عطا ہوتی ہے.ان کی شخصیت ہمہ گیروہمہ جہت تھی،متحمل،سنجیدہ مزاج سینے میں درد رکھنے والے تھے۔
مجھے طالب علم کا زمانہ یاد ہے سراج العلوم کی درودیوار آنکھوں کے سامنے ہے.
. بہر حال ہرذی روح کو ایک نہ ایک دن اس دنیائے فانی سے جانا ہوگا،موت وہ جام ہے جسے ہر شخص کو پینا ہوگا،نہ کوئ طاقت کسی کو ایک سکنڈ اسے موت سے بچاسکتی ہے،نہ اس کی دولت و سلطنت اس کو موت کے منہ سے نکال سکتی ہے۔ واٹسپ وغیرہ پر یہ خبر پڑھنے کو ملی ہی تھی کہ آپ کی طبیعت خراب ہے پھر خبر ملی کہ بہت زیادہ خراب ہے،ہم آپ کی صحت یابی کی دعا کررہی رہےتھے کہ فیس بک،واٹسپ اور ایمو کی دنیا میں ہنگامہ ہونے لگا،ہر آنے والی تحریر کے کاتب کی انگلیاں کانپ رہی تھی،ہر طرف ایک شور سا برپاتھا،ہر طرف سے آہ و بکا کی آوازیں آنے لگیں،سناٹا چیخ و پکار سے تھرانے لگا،انٹرنیٹ پر موجود ہر شخص کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں،ہر شخص کے چہرے پر اداسی چھا گئ تھی،ہر آدمی پریشان تھا،تمام آنکھیں اشکبار تھیں،ہر کوئی حزن و ملال کی تصویر بن چکاتھا.
. 23/اگست 2020ء کی رات ہمیشہ کیلئے ہمیں یاد رہے گی،چونکہ اسی رات کو ہمارے مربی ہمیں چھوڑ کر ہمیشہ کیلئے چلے گئے.
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے.
بہت ساری خوبیاں تھیں آپ میں، کئ کمالات کے مالک تھے انسان اپنے اعمال سے پہچانا جاتاہے،ایک انسان کی اصل قدروقیمت اس کے اچھے اور نیک اعمال طے کرتے ہیں،تاہم اس کی اصل شناخت اس کے کارناموں سے بنتی ہے۔ ایسی شخصیتیں بہت کم ملتی ہیں. مولانا عبد المنان سلفی صاحب علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق تھے.
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے.
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا. اللہ استاد محترم کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فر مائے.
آپ کی راۓ