کرشنا نگر / کئیر خبر
معروف علمی شخصیت مولانا عبد المنان رحمہ اللہ سلفی کی وفات پر معروف علمی شخصیات کا تعزیتی سلسلہ جاری ہے
ڈاکٹر انوار الحق کلکتہ یونیورسٹی میڈیکل کالج مغربی بنگال کے پروفیسر نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا
” زمانے طالبعلمی میں مجھ سے چار سال سینیٹر تھے علاقے کے ھونے کی وجہ سے ھم لوگوں سے اچھے مراسم تھے ‘شیخ مجھے اپنا چھوٹا بھائی مانتے تھے۔وھی طالبعلمی کا تعلق تھاکہ میں نے کہ میں نےاپنی دونوں بیٹیوں کا نکاح آپ ھی سے پڈھوایا۔آپ ایک مدرس ھی نھی ایک اچھے خطیب وواعظ بھی تھے وہ نکاحِ میں صرف ایجاب و قبول ھی نھی بلکہ وہ سامعین سے نصیحت آموز مختصر خطاب بھی کرتے تھے
اللہ انھیں جنت الفردوس میں عطا فرمائے آمین
پرنسپل دارالہدیٰ یوسف پور ۔مولانا عبد الرحیم امینی نے کہا کہ شیخ عبد المنان سلفی رحمہ اللہ کی وفات سے جمعیت وجماعت کا کلیجہ صد لخت ھو کر رہ گیا۔ضلعی جمعیت اپنےفعال ؤ متحرک سکریٹری سے محروم ہو گی
آپ ملی وسیاسی مسائل پر مثبت و تعمیری مشورے اور صحیح سمتوں کا تعیئن کرکے اپنی دور اندیشی اور عقابی نظر کا ثبوت دیا کرتے ۔اپنے مخصوص مقالے مضامین کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ نیا رنگ واھنگ بخشا بلکہ نئی بلندیوں تک پہچایا آپ کے انتقال سے پوری امت سلامیہ کا خسارہ ھوا ھے
احمد بن حنبل کے۔ سکریٹری ڈاکٹر ثاقب ہارونی نے اپنے تعزیتی بیان میں گہرے دکھ کا اظہار کرتے ھوے کہمولانا عبد المنان سلفی ایک علمی وادبی شخصیت کا نام ہے١٩٨٠/سے ہمارے تعلقات آپ سے وابستہ رہے وہ نہایت خلیق ملنسار منکسر المزاج انسان تھے ۔جب ملتے حددرجہ شفقت سے پیش آتے ان سے ہمارے تعلقات خاندانی ھیں آپ کے والد مفتی مولانا عبد الحنان رحمہ اللہ ھمارے مشفق استاد تھے
اللہ رب العزت سے دست بدعا ھوں کہ آن کے انسانی لغزشوں کو درگزر فرماتے ھوے جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور جو قلمی خدمات انھوں نے انجام دیا ھے اسکو ان کے لئے صدقہء جاریہ بنائے
ڈاکٹر سعید احمد اثری مہتمم جامعہ خدیجہ الکبری جھنڈا نکر نیپال نے کہا مولانا عبد المنان سلفی رحمہ اللہ کے انتقال سے ھمارا پورا خانوادہ غم زدہ ھے اللہ ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے آمین
ھم کافی غم زدہ ھیں مزید کچھ کہنے کے پوزیشن میں نہیں ھیں اللہ ھمارے بھانجے پھانجیوں وبہن کو اس بڑے آزمائشی میں ثابت قدم رکھے اور صبر جمیل عطا فرمائے آمین
مولانا محمد اکرم عالیاوی نے کہا
بھائی جان کے رخصت ہونے سے جو خلا ھوا ھے اس کاپرھونا مشکل نظر آتا ہے آپ بہترین اعلی اخلاق انسان تھے اوراس کے علاوہ بہت سی خوبیاں تھیں آپ کے اندر ھمارے پنچ چچا سے ھمارے سترہ بھائی تھے سب سے انکا تعلق دوستانہ و مشفقانہ تھے اللہ آپکی مغفرت فرمائے اور ھمارے بھانجوں کو صبر جمیل عطا فرمائے
عبدالعزیز شاھد جھنڈانگری نے کہا طرفین سے وہ ھمارے برادر نسبتی تھے ھمارے چھوٹے عم زاد بھایی محمد اکرم سلمہ سے آپ کی بہن منسوب تھیں ۔ھمارے بچے انکو ماموں او ان کے بچے ھم لوگوں کو ماموں کہتے اس ھم لوگوں میں کافی مزاق بھی چلتا رہتا تھا
بھائی جان اچھے اخلاق کے مالک تھے دوستوں کے بہترین دست تھے
آپ سات سالوں تک ھمارے مدرسہ خدیجہ الکبری میں درس وتدریس سے جڑے رہے اور نیپال ماہنامہ نور توحید کے نائب مدیر تھے آپ کی شہرت ایک اچھے خطیب کی تھی
ابھی دو ماہ قبل طبیعت کے ناسازی کے باوجود ھمارے چھوٹے بھائی کی تقریب نکاح میں نا یہ کہ شرکت فرماییں بلکہ آپ نے ھی نکاحِ بھی پڑھائی
محمد ہارون یعقوب انصاری نے کہا شیخ عبدالمنان عبدالحنان سلفی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد علماء،ادباء،انشاءپرداز،صحافیوں،دانشوروں،اساتذہ،شاگردوں،ان کے ہم عصروں،دینی ملی تنظیموں اور عالمی پیمانے پر دیار غیر سے موصول ہونے والے تعزیتی پیغامات کے پڑھنے کے بعد ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم جس مدبر، انشاء پرداز، صحافی،منتظم،مربی،مدرس،ایدٹر،ناظم کو قریب سے جانتے تھے واقعی بہت عظیم،منکسر المزاج،خاکسار،خلیق،علمی ادبی شخصیت تھی؟ جس سے عالم اسلام مستفید ہورہی تھی یقین سے اوپر کی بات لگ رہی ہے۔ کیونکہ آپ نے کبھی یہ تمیز نہیں کی کہ ملنے والا کون ہے؟ اسکی اہلیت قابلیت کیا ہے؟ وہ سب سے یکساں ملتے تھے۔ وہ سمندر تھے جس کی گہرائی،گیرائی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ جوہری کو ہی پتہ تھا کہ ایک ہیرا ھندونیپال کو اپنی کرنوں سے روشن کررہا تھا افسوس وہ ہیرا اب ہمارے مابین نہیں رہا لیکن خدمات تصانیف موجود ہیں۔اللہ انکے لئے اسے زاد آخرت بنائے آمین
آج جبکہ وہ ابدی دنیا میں ہیں ایسے میں وہ کیا تھے کون تھے ملت وجماعت کےلئے انکی قربانیاں کیاتھیں جانے کے بعد اندازہ ہوتا ہے۔
تعزیت کا سلسلہ جاری ہے یہ اطلاع زاھد آزاد جھنڈانگری نے دی ہے
مرکز التعليم والدعوة الإسلامية تنہوا؛ لمبنی کے اساتذہ و ذمہ داران کا اظھار تعزیت
# روتہٹ میں تعزیتی نشست بر وفات مولانا عبد المنان عبد الحنان سلفي رحمه اللہ#
مؤرخہ ۳ ستمبر 2020م بروز جمعرات بعد نماز عصر بمقام جامع مسجد سروٹھا شیخ عبد المنان سلفی رحمہ اللہ کی یاد میں زیر صدارت مولانا محمد شعیب سراجی مدنی (صدر ضلعی جمعیت اہل حدیث روتھٹ )ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی-
سب سے پہلے مجلس کا آغاز حافظ محمد رئیس سراجی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، پھر عزیزم محمد وسیم نے مولانا سلفی رحمہ اللہ کے محسن و مخلص دوست شاعر سالک بستوی کی لکھی ہوئ تعزیتی نظم کو خوبصورت لہجے میں پیش کیا اسکے بعد تعزیتی کلمات پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا سب سے پہلے عزیزم مولانا شمیم عالیاوی ( طالب جامعۃ الجوف، مملکت سعودی عرب ) نے اپنے تعزیتی کلمات پیش کرتےہوئےکہا کہ ایک طرف لوگ کرونا وائروس کی مہاماری سے پریشان ہیں تو دوسری طرف جماعت کے جید و ممتاز علماء کرام کا یکے بعد دیگرے داعی اجل کو لبیک کہنے کا غم ہے اور مزید کہا کہ اگرچہ میں نے شیخ سلفی مرحوم سے بالواسطہ درس حاصل نہیں کیا یہ ہماری محرومی کہ لیجیئے لیکن شیخ کی تألیفات سے استفادہ کیا ہوں، کرتا رہوں گا إن شاء اللہ شاید کہ شیخ کے تلامذہ میں سے نہیں ہونے کا غم مجھ سے جاتا رہے۔
عزیزم مولانا شمیم کے بعد مولانا نصرالدین سراجي ( مدرس مدسہ دار الکتاب و السنہ سروٹھا ) نے مولانا سلفی کے انتقال پر ملال پہ شدید غم کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ مولانا سلفی مرحوم، استاذ محترم کو اللہ نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا بیک وقت آپ ایک انجمن اور جماعت کی حیثیت رکھتے تھے، استاذ محترم کہنہ مشق مدرس و مربی، افق صحافت کے آفتاب و مہتاب، اور عظیم صحافی و مصنف تھے جنہوں نے فتنۂ قادیانیت کی بیخ کنی کیلئے مایہ ناز اور ملک نیپال کے اندر اس فن کی پہلی کتاب فتنۂ قادیانیت ایک جائزہ لکھا جو کتاب مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، اور ماہ نامہ نور توحید پھر ماہ نامہ السراج کو ربع صدی تک اپنی ادارت و قلم سے بام عروج پر پہنچایا نیز شیخ محترم اپنی مثبت زبان و بیان، تقریر و خطابت سے ملک و بیرون ملک کو افادہ پہنچاتے رہے، استاذ محترم کے کن کن خوبیوں کو گنایا جائے بس یوں کہ لیجیئے، ان خوبیوں کے مالک اور مذکورہ أوصاف حمیدہ کے حامل شخصیت اگر نایاب نہی تو کمیاب ضرور ہے۔
اور پھر مولانا محمد ہارون تیمی مدنی ( استاذ مدرسہ دار الکتاب و السنہ ) نے اپنے تعزیتی بیان میں سب سے پہلے شیخ رحمہ اللہ کے تعلیمی و تدریسی سفر سے سامعین کو روشناس کرایا اور کہا کہ آپ ہر فن مولی تھے جامعہ کے ہر شعبے میں آپ فٹ تھے ہر کام چاہے خطابت ہو یا نظامت صحافت ہو یا امامت یا پھر درس و تدریس بحسن خوبی انجام دیتے تھے چچا محمد یاسین صاحب نے بھی اپنے احساسات ،جذبات اور خیالات کا اظیار کیا اور وقت کی قلت کے باعث مولانا طفیل سراجی مدنی، مولانا رضوان سراجی، حافظ محمد رئیس سراجی اور دیگر سیاسی شخصیات تعزیتی کلمات نہیں پیش کر سکے، جس کا أفسوس رہا، پھر پروگرام کے اخیر میں حسب روایت صدر مجلس مولانا محمد شعیب مدنی نے شیخ سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور بتایا ۲۰۲۰ م یہ عام الحزن ہے، بڑے بڑے علماء داعی اجل لبیک کو کہ رہے ہیں، اور خاص طور سے بتایا کہ ناظم جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کو شیخ مرحوم کے انتقال سے جو صدمہ پہنچا ہے، اسکا احساس ایک لمبے عرصے تک رہے گا اور فی الحال اسکی تلافی نظر نہی آ رہی ہے، نیز کہا کہ خرد نوازی و مہمان نوازی اپ سلفی مرحوم کی رگ و ریشہ میں پیوست تھی، اور جامعہ کے اندر ہونے والے سیمینار ، کانفرنس اور دیگر پروگرامس ناظم جامعہ کی موجودگی ہو یا عدم موجودگی بحسن و خوبی ایک بہتیرین منتظم کی ذمہ داری نبھاتے تھے، آخر میں لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور دعائیہ کلمات کے ساتھ نشست کے اختتام کا اعلان کیا
باری تعالی کی بارگاہ میں بدست دعا ہیں کہ رب کریم شیخ سلفی مرحوم کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس کا مکیں بنائے، انکے حسنات کو شرف قبولیت بخشے انکے لواحقین ، پسماندگان اور اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق نیز جامعہ کو انکا نعم البدل عطا فرمائےآمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رپوڑٹ : نصر الدین سراجی
آپ کی راۓ