بنو امیہ کی عیب جوئی عام بات ہے، آپ کھ سکتے ہیں کہ بنو امیہ کوئی مقدس گائے تو ہیں نہیں کہ ان پر تنقید نہ کی جا سکے لیکن بنو امیہ کی تنقید نہیں تنقیص کی جاتی ہے، بنو امیہ پر تنقید ہو لیکن یہ تنقید کون کرے؟ ہمارے یہاں ہر کس و ناکس بنو امیہ پر ہاتھ صاف کر جاتا ہے، ہر ایرے غیرے کو شکایت ہوتی ہے کہ بنو امیہ نے خلافت کا خاتمہ کر دیا تھا، ہر راہ چلتا بنو امیہ کے ظلم و جبر پر شکوہ کناں ہوتا ہے، بنو امیہ پر تنقید وہ کرے جو مؤرخ ہو اور بنو امیہ کے مؤرخ کیلئے عربی کی تفہیم ضروری ہے، یہاں تو حال یہ ہے کہ دو لفظ عربی کا لکھ نہیں سکتے، بول نہیں سکتے، سمجھ نہیں سکتے لیکن آ جاتے ہیں بنو امیہ پر تنقید کرنے، ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی، اب آبروئے شیوہء اہل نظر گئی-
کوئی ضروری نہیں کہ ہر عربی داں بنو امیہ کے ساتھ انصاف ہی کرے، عربی داں اگر عجم کا سید ہے، متعصب ہے، رفض سے متآثر ہے، شعوبی ہے تو وہ بھی بنو امیہ کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا، بنو امیہ کے ساتھ انصاف وہ کر سکتا ہے جو انصاف پسند ہو، مخلص ہو، حق گو ہو، معاصر تاریخوں پر اس کی گہری نظر ہو، تاریخی روایات کی چھان پھٹک کا سلیقہ ہو، رد و قبول کی صلاحیت ہو، باریک بیں ہو، مستشرقین کے تاریخی ذخیرے پر نظر ہو، شبلی میں یہ صلاحیت تھی، اس لئے وہ ذرا سی ٹھوکر کے بعد اس پل صراط سے گزر گئے، اس ذرا سی ٹھوکر کا حال بھی دلچسپ ہے، اس لئے سن لیں، شبلی جب ابن جوزی کی ‘مناقب عمر بن عبدالعزیز، پر تبصرہ کر رہے تھے تو وہ بھی بنو امیہ کے حوالے سے غلط العوام کے شکار ہو گئے، اس تبصرے میں شبلی نے ضمنا سوانح نویسی کے فرائض پر جو لکھا ہے، وہ بھی خاصے کی چیز ہے، شبلی اس تبصرے میں بنو امیہ سے بہت خفا ہیں، عبدالملک کی حرکتوں سے نالاں ہیں، آزادی و حق گوئی کے استیصال پر برہم ہیں لیکن یہی شبلی جب جرجی زیدان کا رد کرتے ہیں تو وہ بنو امیہ کے ساتھ انصاف کرتے ہیں، شبلی نے ایک فقرے میں جرجی زیدان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا، شبلی کے بقول جرجی زیدان کا مقصد ‘عربوں کی تحقیر اور ان کی مذمت تھی، شبلی کی نظر میں تاریخ تمدن اسلامی کا ‘ایک بڑا موضوع بنو امیہ کی برائی اور عیب گیری ہے جس کے ضمن میں دراصل عرب پر حملہ کرنا مقصود ہے، شبلی بار بار بتلاتے ہیں کہ جرجی زیدان کا ‘سب سے بڑا مرکز نظر بنو امیہ کی ہجو و تحقیر ہے، اس بحث میں اس نے جی کھول کر زور طبع صرف کیا ہے اور جس قدر کذب، تحریف، تمویہ، فریب، تدلیس، خدع، غلط بیانی کی قوت فطرت نے اس کو عطا کی تھی، سب صرف کر دی ہے………بنو امیہ کی سفاکی، مذہب کی توہین، غیر قوموں پر ظلم اور سختی کے مستقل عنوان قائم کئے ہیں اور ان پر دفتر کا دفتر لکھا ہے، شبلی پھر اصرار کرتے ہیں کہ جرجی زیدان کا ‘اصلی مقصد بنو امیہ کی برائیاں ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا روئے سخن عرب کی طرف ہے، وہ بتصریح کہتا ہے کہ بنو امیہ کی سلطنت خالص عربی سلطنت تھی جس کی بنیاد تعصب اور سخت گیری تھی، وہ عباسی حکومت کی تعریف کرتا ہے لیکن اس لئے نہیں کہ وہ عباسی ہے بلکہ اس لئے کہ وہ درحقیقت ایرانی حکومت ہے……..،
شبلی کے اصرار اور تکرار سے ممکن ہے کہ آپ اکتاہٹ کے شکار ہونے لگے ہوں لیکن خود جرجی زیدان کا کیا حال ہے، ذرا یہ بھی دیکھتے چلیں، ابومسلم خراسانی کے قتل سے جرجی زیدان منصور سے اس قدر خفا ہے کہ اس قتل پر وہ بار بار اپنے غم و غصے کا اظہار کرتا ہے، ڈاکٹر محمود لبیب شبلی کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ
‘منصور نے ابومسلم کو فریب اور دھوکے سے مروا ڈالا، جلد ایک صفحہ ٧٠ پر ایک صفحہ کے بعد ج ١ ص ٧١ میں اس کا اعادہ کیا گیا ہے کہ منصور نے ابومسلم کو قتل کر ڈالا پھر ج ٢ ص ١٧٤ اور ج ٤ ص ١١٣ اور ١١٦ پر بار بار اس کو دہرایا، ایک ایک بات کو پانچ پانچ مرتبہ دہرا کر لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس سے یہ نتیجہ مستنبط نہیں ہوتا کہ مصنف کا مقصود یہ ہے کہ ناظرین کتاب کے دل میں یہ خیال بٹھاوے کہ خلیفہ منصور سخت سفاک، غدار اور محسن کش تھا کہ اس نے ابومسلم جیسے شخص کو مروا ڈالا-
جرجی زیدان کو ابومسلم کے قتل سے شدید تکلیف کیوں ہے؟ اس لئے کہ ابو مسلم عربوں کا صفایا کر رہا تھا، اگر زندہ رہتا تو شاید عربوں کو صفحہء ہستی سے مٹا کر دم لیتا، صرف خراسان میں ابومسلم نے پچاس ہزار عربوں کا قتل عام کیا تھا تو جرجی زیدان کو عربوں کے قاتل کے قتل سے تکلیف کیوں نہیں ہوگی، بنو امیہ کے انتزاع سلطنت سے جرجی زیدان کو اس قدر خوشی ہوتی ہے کہ وہ عباسیوں کے دور کو ‘عصر فارسی، کہتا ہے، بنو امیہ لاکھ برے ہوں لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ جہاں بھی گئے، وہاں کی زبان، تہذیب سب عربی کر دیا-
ڈاکٹر محمود لبیب مزید لکھتے ہیں-
‘خلیفہ عمر بن خطاب نے ان (ذمیوں) کو کاشتکاری سے روک دیا، صرف ایک بات کو جرجی زیدان نے آٹھ مرتبہ کہا، اس سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) سخت وحشی، جاہل اور دشمن تمدن تھے-
شبلی خود کہتے ہیں کہ ‘بنو امیہ کی حمایت اور ہمدردی ہمارا کوئی فرض نہیں (لیکن)…تحریف، تعصب، کذب و خدع….کا سب سے زیادہ استعمال بنو امیہ ہی کے واقعات میں کیا گیا ہے، اس لئے اسی کے ساتھ زیادہ توجہ اور اعتنا کی ضرورت ہے-
جرجی زیدان کا دعویٰ ہے کہ ‘عرب اور بنو امیہ کی تحقیر نے، شعوبیہ کو پیدا کیا تھا لیکن شبلی جرجی زیدان سے پوچھتے ہیں کہ عباسیہ تو تمہارے نزدیک عدل اور انصاف کے معیار تھے، پھر شعوبیہ کے مشاہیر عباسیوں ہی کے دور میں کیوں پیدا ہوئے؟ ‘ابو عبیدہ مثنی جس نے عرب کے ایک ایک قبیلہ کے مطاعن پر الگ الگ کتابیں لکھیں، عباسیہ ہی کے زمانے میں تھا، علان شعوبی مامون الرشید کے دربار کا ملازم تھا، بنو امیہ کے جرم کا کفارہ عباسیہ کے عہد میں کیوں لیا گیا؟…… اہل عرب میں سے کسی نے کوئی تصنیف خود ابتداً نہیں لکھی بلکہ شعوبیہ کی تصنیف کا جواب لکھا، بخلاف اس کے شعوبیہ کی بیسیوں کتابوں کے نام تاریخوں میں ملتے ہیں، ابو عبیدہ اور علان شعوبی کے علاوہ سہل بن ہارون جو مامون الرشید کے کتب خانہ پر مامور تھا وہ مذہباً شعوبی تھا اور عرب سے سخت تعصب رکھتا تھا اور اس مضمون میں اس کی بہت سی کتابیں ہیں….مقصود یہ ہے کہ عرب میں جو لوگ قومی تعصب رکھتے تھے، وہ چند افراد تھے، عام عرب نہ تھے (لیکن جرجی زیدان) نے خیانت اور فریب کاری سے ان باتوں کو عام عرب کی طرف منسوب کر دیا ہے-
(جاری)
آپ کی راۓ