سکھا دو سر کچلنے کا ہنر معصوم بچوں کو.
انہیں بھی کاٹنی ہے زندگی سانپوں کی بستی میں.
ممبئ جیسے تجارتی اور صنعتی شہر میں بسنے والے لوگوں کا ذہن بھی تجارتی اور صنعتی ہوتا جارہا ہے جس طرح کاروبار میں نفع ونقصان کو دیکھ کر سرمایہ لگاتے ہیں اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں ان کا رویہ نفع ونقصان والا ہی ہوتا ہے.
زندگی کے بہت گوشے ایسے بھی ہیں جن کا بظاہر نقصان نظر آتا ہے لیکن اگر اس کے اند ر میں جھانکا جائے تو اس میں نفع ہی نفع ہے. سب سے اہم مسلہ بچوں کے دینی تعلیم وتربیت کا ہے.جب بچے اس لائق ہو جاتے ہیں کی ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے تو والدین کا ذہن عام طور سے عصری علوم کی طرف جاتا ہے اور والدین ابھی سے اپنے بچوں کے بارے میں نت نئے خواب بننے شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ذہنوں میں یہ بسا لیتے ہیں اور خواب دیکھتے ہیں کی بچے بڑے ہوکر ڈاکٹر، انجنئیر، پولس آفیسر یا کوئ بڑے سرکاری آفیسر بنیں گے وہ سوچ کر انہیں ایسے تعلیمی اداروں کے حوالے کردیتے ہیں. جو ان کے معصوم ذہن ودماغ کو تبد یل کردیتے ہیں اور جو ان کی صاف ستھری فطرت تھی ان پر سیاہی پوتنا شروع کر دیتے ہیں . نتیجہ کے طور وہ اپنے مذہب ثقافت اور تہذیب کو نیچی نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جب ایسے بچے ایسی تعلیم پاکر بڑے اچھے عہدوں فائیز ہوتے ہیں اور بڑے اعلیٰ اٍفسر ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی شخصیت سے ناواقف ہوتے ہیں. ان کے اندر دینی غیرت نہیں ہوتی اپنی قوم سے ہمدردی نہیں ہوتی ایسے افراد کے ہاتھوں جب قوم کی باگ ڈور ہوتی ہے تو وہ قوم کو ایک بے مقصد منزل کی طرف لے جاتے ہیں اور ان کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیتے ہیں.
بے شک اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم ضرور دلائیں کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھائیں لیکن دینی تعلیم بھی دلوائیں قرآن پڑھائیں دینی تعلیم کا بندوبست کریں.
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں پھو لو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ ہہ جھولو.
پر ایک سخن بند ہءعاجز کا رہے یاد.
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو.
والدین کی نظر توصرف دنیا پر ہوتی ہے اور دنیاوی ضرورتوں کے لئیے ان کے بچے کتنے مفید ہوتے ہیں.بس اس پر نظر ہوتی یے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کی آخرت میں آنے والی کون سی چیز ہے. آج کے مسلم والدین کا دینی تعلیم سے چشم پوشی کرنا اپنی نسل تباہ وبربا د کرنا یے. ادھر حالیہ عرصے سے مسلم والدین نے بس تھوڑی سی توجہ دینی تعلیم کی طرف دی ہے اس کی صورت یہ ہوتی ہے کی کسی مولوی کے ذریعہ گھر پر ہی تھوڑی دیر دینی تعلیم کا بندو بست کردیا جاتا ہے. قرآن پاک اور چند دینی مسائل سے متعلق کوئ کتاب پڑھا دی جاتی ہے بس اتنی ہی تعلیم پر اکتفاء کرلیا جاتا ہے لیکن بس کیا اتنی ہی حقیر تعلیم سے بچوں کی دینی تربیت ہوجائے گی. بلکہ تعلیم دینے والے وہ مولوی حضرات کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں. محض ان کے چبہ ودستار سے عام مسلمان یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بڑے مولانا ہیں اور بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں. لیکن وہ خود غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں وہ بچوں کو دینی تعلیم کیا دے پائیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کی بچوں کی دینی تعلیم نقص رہ جاتی ہے اس کا اثر ان کی دینی تربیت پر بھی پڑتا ہے. عام.مسلمان تجارتی اور کارو باری ذہن کے ہوتے ہیں ان کی نظر میں دینی تعلیم دنیاوی لحاظ سے ایک غیر فائدے بخش تعلیم ہے لحاظا وہ دینی تعلیم کے مدارس کو معاوضہ بھی حقیر دیتا ہے.دوسو تین سو روپئیہ میں یا مفت میں ہی پڑھانا چاہتے ہیں.
بڑے افسوس کی بات کی وہ اپنے بچوں پر انگریزی اور سائنس کی تعلیم میں خطیر رقم.خرچ کردیتے ہیں لاکھوں روپئیے ڈونیشن اور ہزار دو ہزار ماہانہ فیس دی جاتی ہے. اور اگر فیس دینے میں تاخیر ہوجائے تو جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے.قوم مسلم کی سوچ وفکر نے زوال کی طرف ڈھکیل دیا ہے.دینی تعلیم بیت بڑا مسلہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے.جو لوگ اپنے بچوں کو عربی دینی تعلیم کے لئیے کسی مولوی کے حوالے کرتے ہیں یا گھر ہر ایک گھنٹہ ٹیوشن پڑھواتے ہیں وہ نظر ثانی کریں اور دینی تعلیم کے لئیے اچھی رقم بھی خرچ کریں اگر معمولی رقم دیں گے تو اس
کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کی مولانا حضرات صحیح طور پر دینی تعلیم نہیں دیتے کیونکہ وہ ممبئ شہر روپیہ کمانے ہی آتے ہیں اور معقول.معاوضہ نہ ملنے کی صورت میں.پوری توجہ نہیں دیتے.
بچوں کے دینی تعلیم کا نظام.اردو میڈیم کے اسکول نے بھی کیا ہے لیکن اس سے بھی بچوں کا کوئ خاص فائدہ نہیں ہورہا ہے پہلی بات توطیہ ہے کی اسکولوں میں دینیات کا مضمون ایک اضافی اختیاری مضمون ہوتا ہے اور قلیل تنخواہ پر ایک مدرس کو رکھ لیا جاتا ہے.اسی اسکول کے تمام مدرسین اعلیٰ تنخواہ پاتے ہیں اور دینی مضامین کے مدرس کم تنخواہ پاتے ہیں. یہ
اب صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کی نئ نسل ہر طرف سے اور ہر لحاظ سے صحیح دینی تعلیم وتربیت سے نابلد ہوتی جارہی ہے. اگر دین سے ناواقفیت کا یہی حال رہا تو ہر طرف جہالت بد عقیدگی کا راج قائم ہوجائےگا. آج غلط رسوم ورواج وخرافات نیاز وفاتحہ کا چلن قبر پرستی کا ناسور ان طبقوں میں زیادہ ہے جو دینی تعلیم سے دور ہیں وہ صرف نام کے مسلمان ہیں اگر چہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن وہ ایسے مسلمان ہیں کہ یہود بھی شرما جائیں اسلام کے نام سے ان کی ساری سرگرمیاں غیر اسلامی ہوتی ہے اور غیروں کے سامنے اسلام کی غلط تصویر ہیش کرتے ہیں ایسے ہی مسلمان دعوت وتبلیغ کی راہ بڑی رکاوٹیں ہیں کیونکہ غیر مسلم ان کو مسلمان سمجھ کر غلط تاثر قائم کرتے ہیں. علامہ اقبال نے ایسے لوگوں کے لئیے کہا ہے.
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود.
جو مسلمان ممبئ کے پاش علاقے میں رہتے ہیں اکثر لا دین ہوجاتے ہیں نہ نماز نہ روزہ نہ اذان کی آواز آتی ہے. دنیاداری میں مگن ہیں. ان کے بچے یہود وہنود کی تہذیب کے منفی اثرات قبول کر لیتے ہیں. یہاں تک کی ان کے تہواروں میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ ویسے ہی مناتے ہیں جیسے وہ لوگ مناتے ہیں. گنپتی کرسمس دیوالی ہولی سب مناتے ہیں. وہ دوستی رواداری کے نام پر.مسلم سرمایہ داروں کے بچے شرکت کرتے ہیں. کیا کوئ ہندو مسجد میں نماز پڑھنے آئےگا؟.اگر نہیں! ! تو ہم کیوں ان کے تہوار مناتے ہیں.
یہ سب دینی تعلیم وتربیت نہ پانے کا نتیجہ ہے.اگر دینی تعلیم دی جائے اور عمدہ تربیت ہوتو اس کے اثرات مثبت ہوں گے.کوئ کتنی بڑی ڈگری لے سند یافتہ ہوجائے اگر قرآن پڑھنا نہیں جانتا ہے تو مطلق جاہل ہے.اس لئیے ہم قرآنی تعلیم کو عام کریں. اور اپنے آپ کو اپنے بچوں کو تباہی وبربادی سے بچائیں؟
لحاظا مسلم والدین کے لئیے ضروری ہے کی اپنے بچوں کو اعلیٰ عصری تعلیم ضرور دیں لیکن ان کی دینی تعلیم وتربیت کا بھی ایسا نظام چلائیں کہ جس سے ان کے اندر اسلام کی پاکیزگی اور روشن تعلیم اتر جائے اور وہ دنیا میں جہاں بھی جائیں اعلیٰ نمونہ بن جائیں.
مضمون نگار المصباح ممبئ کے ایڈیٹر ہیں.9892375177
آپ کی راۓ