رياض/ ايجنسى
سعودی عرب کے محکمہ پبلک پراسیکیوشن (استغاثہ عام) نے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوّث آٹھ افراد کے خلاف سوموار کے روز حتمی فیصلہ جاری کردیا ہے۔اس کے مطابق پانچ مجرموں کو قتل میں ملوّث ہونے کے جرم میں اب سزائے موت کے بجائے 20،20 سال قید کا حکم دیا گیا ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لکھاری جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018ء کو ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا تھا۔وہ اپنی بیوی کو طلاق کے کاغذات کی تکمیل کے سلسلے میں سعودی قونصل خانے میں گئے تھے۔اس وقت وہ امریکا میں مقیم تھے اور وہیں سے ترکی آئے تھے۔
سعودی عرب کی ایک فوجداری عدالت نے گذشتہ سال دسمبر میں جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں پانچ افراد کو قصور وار قرار دے کر سزائے موت کا حکم دیا تھا اور مقدمے میں ملوّث ہونے کے جرم میں تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
سعودی حکام نے قتل کے اس واقعے میں ملوّث ہونے کے الزام میں اکیس شہریوں کو گرفتار کیا تھا۔پبلک پراسیکیوٹر نے اپنی تحقیقات کے بعد ان میں سے گیارہ افراد کے خلاف فرد جرم عاید کی تھی مگر عدالت نے ان میں سے تین افراد کو بے قصور قرار دے کر برّی کردیا تھا۔
سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کے مطابق سوموار کو جاری کردہ حتمی فیصلے میں مذکورہ مجرموں کی سزاؤں میں تخفیف کی گئی ہے یا ان میں ردوبدل کیا گیا ہے۔
پبلک پراسیکیوشن کے مطابق پانچ مجرموں کو قتل کے اس واقعے میں ملوّث ہونے کے جرم میں اب سزائے موت کے بجائے 20،20 سال قید کا حکم دیا گیا ہے۔ تین دوسرے مجرموں کو سات سے 10 سال تک قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
استغاثہ عام نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ حتمی ہے اور اس کا نفاذ کیا جانا چاہیے۔واضح رہے کہ جمال خاشقجی کے بیٹوں نے مئی میں ایک بیان جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ انھوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کردیا ہے۔
سعودی عرب کے قانون کے تحت متاثرہ خاندان کو قاتلوں کو معاف کرنے یا ان کی سزا میں تخفیف دینے کا حاصل ہے۔ اس معافی نامے کی توثیق کی صورت میں قاتلوں کا قصاص میں سرقلم نہیں کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود قاتلوں کو ان کے مرتکبہ جرم کی سزا دی جاتی ہے اور انھیں پبلک قانون کے تحت سزا کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔
آپ کی راۓ