میں 1998 میں مدینہ یونیورسٹی آیا، پہلے دن ہی داخلہ کی کارروائی سے فارغ ہو گیا، اور تخصص کے لئے عربی زبان کا انتخاب کیا، دوسرے دن ظہر کی نماز میں برادرم طارق عمری مدنی حفطہ اللہ نے جو عمرآباد میں مجھ سے ایک سال سنیر تھے اور مدینہ بھی مجھ سے ایک سال پہلے آئے تھے، جامعہ کی مسجد میں آکر خبر دی کہ سعید احمد عمری پڈنوی، آر کے نور محمد عمری، اور الیاس عمری صاحب نئے طلبہ سے ملنے آئے ہوئے ہیں، یہ تینوں اس وقت مدینہ میں ڈاکٹریٹ کے مرحلہ میں تھے, میں، میرے ساتھی حافظ عبد العظیم اور حافظ ارشد بشیر سب لوگ ان سے ملنے کے لئے مسجد سے باہر نکلے، یہ تینوں آدمی جامعہ کی مسجد اور مرکزی لائبریری کے درمیان کھڑے ہوئے تھے، وہیں میری جناب ڈاکٹر آر کے نور محمد عمری مدنی رحمہ اللہ سے پہلی ملاقات ہوئی، دیکھنے سےہی علمی وقار, سلوک میں انکسار, اعلى کردار, اور گفتگو میں بلند معیار ظاہر ہو رہا تھا, سب سے پہلے آپ نے ہم لوگوں کا تخصص پوچھا، میرے دونوں ساتھی کلیة الحديث میں تھے، جو ان کے لئے زیادہ تعجب خیز نہیں تھا، لیکن میرے تخصص پر انہوں نے تعجب کا اظہار کیا, کیونکہ اس وقت تک ہندوستانی طلبہ اسے مشکل سمجھ کر کم ہی اس طرف رخ کرتے تھے، انہوں نے کہا اچھا تو آپ نے کلیة اللغة کا انتخاب کیا ہے۔
اس کے بعد پھر چار سال آپ کے ساتھ رہنے، اور آپ سے سیکھنے کا موقع ملا، آپ جامعہ اسلامیہ میں ہم عمری طلبہ کے لئے گارجین اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے، ہمیشہ کوشش رہتی تھی کہ آپ کے نقش قدم پر چلا جائے، آپ علم دوست انسان تھے، ذاتی گفتگو میں بھی صرف علم اور تحصیل علم کی گفتگو کرتے، حصول علم کے لئے یکجہتی, یکسوئی، محنت لگن، اور اخلاص پر ابھارتے، ہمیشہ مخلصانہ جد وجہد کی تلقین کرتے، اور ہر شخص کے ساتھ خیر خواہانہ سلوک کرتے، ایک اور جو بڑی خوبی آپ کے اندر تھی جو اس زمانے میں بہت کم پائی جاتی ہے وہ تھی علم کو اپنے اوپر نافذ کرنے کا جذبہ، اپنے علم کے مطابق اپنے کردار واخلاق کو بنانے کا جذبہ، جو کچھ سیکھا اس پر عمل کرنے کا جذبہ، آپ کا علم صرف کتابوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ اسے اپنی زندگی میں اتارتے بھی تھے۔
آپ کریمانہ اخلاق کے مالک تھے، خندہ پیشانی، تبسم ومسکراہٹ، تواضع وانکساری، مہمان نوازی، لوگوں کی مدد، طلبہ کی علمی رہنمائی یہ سب خاصیتیں آپ کی شخصیت میں رچ بس گئی تھیں.
آپ کی ایک نمایاں صفت جو میں نے دیکھی، وہ تھی لوگوں کو کھانا کھلانا، کھانا کھلانا بڑی اہم نیکی ہے، یہ آدمی کو جنت میں لے جانے والی نیکی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أفشوا السلام، وأطعموا الطعام، وصلوا بالليل والناس نيام ، تدخلوا الجنة بسلام، آپ کے گھر کوئی بھی جاتا تو کھانا کھائے بغیر واپس نہیں آتا، ہم جتنے عمری طلبہ جامعہ اسلامیہ میں تھے کم از کم مہینے میں ایک بار تو ان کے یہاں کھانا ضرور کھاتے، ابھی 2016 میں میں فیملی کے ساتھ مدارس گیا تھا،ڈاکٹر صاحب کو پہلے ہی اطلاع کر چکا تھا, ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ میں انہی کے گھر پر قیام کروں, لیکن میں پہلے ہی ہوٹل بک کر چکا تھا, ڈاکٹر صاحب نے کہا کم از کم کھانا رات میں گھر پر کھائیں, ڈاکٹر صاحب کو کا فی مشغولیت تھی, اس سے فارغ ہو کر کھانے کا وقت 10 بجے رات میں مقرر کیا, ہم لو گ دن بھر شہر کی زیارت سے تھک چکے تھے, اور دوسرے دن 4 بچے صبح ہی میری واپسی تھی, جب ہوٹل پر آئے تو شدت تھکان سے کہیں جانے کی خواہش نہیں تھی, ڈاکٹر صاحب سے فون کر کے معذرت کرنی چاہی, تو آپ اپنا سارا پروگرام چھوڑ کر فیملی کے ساتھ کھانا لے کر ہوٹل پر ہی پہنچ گئے, وہاں بھی میں نے ان کے کھانا کھلانے کے اصرارکو محسوس کیا.
آپ جامعہ اسلامیہ میں ہمیشہ نمایاں نمبرات سے کامیاب ہوتے تھے, اس زمانے میں مدینہ منورہ میں ریاستی سطح پر نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں کو گورنر مدینہ کی طرف سے خصوصی اعزاز سے نوازا جاتا تھا, 1423 ھ میں آپ کو ڈاکٹریٹ میں نمایاں کامیابی پر اس اعزاز سے نوازا گیا, اس وقت بیچلر ڈگری میں میں اور میرے دوست, عمراباد میں میرے رفیق درس برادرم حافظ عبدالعظیم عمری مدنی بھی اس اعزاز کے مستحق ہوئے, استاذ محترم حافظ حفیظ الرحمن صاحب عمری مدنی حفظہ اللہ نے راہ اعتدال میں ایک قمتی مضمون کے ذریعہ ہماری کامیابی پر ہمت افزائی کی.
ہندستان ہی نہیں عالمی پیمانے پر ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کی کارکردگی کو کافی شہرت ملی, ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کو دینی ادارے کے فارغین سے متعارف کرنے میں آپ کا نمایا رول رہا ہے, بلکہ آپ ڈاکٹر ذاکر نائک اور دینی ادارے کے فارغین کے درمیان ہمزہ وصل کی حیثیت رکھتے تھے, 2001 میں جب پیس ٹی وی کا وجود نہیں تھا, اور ڈاکٹر ذاکر نائک بمبئی میں اسکول کھولنا چاہ رہے تھے, تو عربی ٹیچر کے لئے انہیں کے گھر میں پہلی بار کچھ فارغین کا انتخاب کیا تھا, جس میں برادرم ثناء اللہ مدنی اور میرے ہم سبق برادرم شمیم فوزی منتخب ہو کر گئے تھے, پھر ڈاکٹر آر کے نور محمد رحمہ اللہ بھی جامعہ اسلامیہ سے فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر نائک کے ادارے سے منسلک ہو گئے, اور خالص سلفی منہج پر ان کے اسکول کا دینی سلیبس تیار کیا, بلکہ ڈاکٹر نائک کی بھی دینى ثقافت اور معلومات میں اضافہ کا سبب بنے, پھر جب آپ کا سعودی اسلامی وزارت سے ابتعاث ہو گیا تو بمبئ سے اپنے شہر چنئی منتقل ہو گئے, اور وہاں اس قسم کے اسکولوں کا جال بچھا دیا, کسی اسکول کی نظامت کرتے, کسی کی سرپرستی کرتے, کسی کے مجلس مشاورت میں نمایاں مقام رکھتے, اس کے ساتھ ہی بنگلور میں جامعہ اسلامیہ مدینہ کے کلیۃ الحدیث کے سلبس کے طرز پر ایک کالج کی بنیاد رکھی, جس کی سرپرستی آپ ہی کے ذمہ تھی.
آپ انڈیا جانے کے بعد کافی متحرک اور فعال تھے, اور بہت جلد ہندوستان کے علمی حلقوں میں آپ کی پہچان ہو گئی, اور آپ ہندوستان میں جامعہ اسلامیہ کی نیک نامی کا بھی سبب بنے, آپ کے ہندستان جانے کے کچھ عرصہ بعد ندوۃ العلماء لکھنو کے شیخ الحدیث مولانا ابو سحبان روح القدس صاحب حج کے لئے سعودی عرب آئے, مسجد نبوی میں ہم لوگوں کی ملاقات ہوئی, مغرب کے بعد مسجد کےصحن نے ہی کافی دیر تک نششت رہی, نششت کا اکثر حصہ آپ ڈاکٹر آرکے نور محمد صاحب کا ہی ذکر خیر کرتے رہے, آپ کی علمی صلاحیت, کام کرنے کا جذبہ, محنت لگن, ذہانت فطانت کو سراہتے رہے.
ڈاکٹر صاحب جماعتی اور جمعیتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے , ہندستان واپس ہونے کے کچھ دنوں کے بعد ہی آپ ہندوستان میں سعودی یونیورسٹی سے فارغین کے آرگنائزیشن کے ذمہ دار بنائے گئے, اس کے ساتھ ہی جمعیت اہل حدیث کے کلیدی عہدوں پر فائز رہے, آپ کی بڑی خوبی یہ تھی کہ اتنے عہدوں کی ذمہ داری کے باوجود, او ر اس قدر مشغولیت کے باوجود میں ہی نہیں, مجھ جیسا کوئی بھی جونیر فون کرتا, مشورہ لیتا ,تو فورا جواب دیتے, مناسب مشورہ سے نوازتے.
عام طور پر ہندوستان میں اہل علم کے اندر ایک کمی ہے کہ اگر وہ علمی طور پر نمایاں مقام حاصل کر لیتے ہیں, یا مناصب پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر عوام سے کٹ جاتے ہیں , عوامی موضوعات پر بولنا اپنے لئے کسر شان محسوس کرتے ہیں , لیکن ڈاکٹر صاحب اس سے بھی پاک تھے, بہت کم عالم کے اندر آپ کے جیسی علمی گیرائی وگہرائی تھی, لیکن اس کے باوجود عوام کے لئے دروس کا اہتمام کرتے, علمی پروگرام بناتے, کتابی شکل میں چھوٹے چھوٹے فولڈرس اور پمفلیٹ تیار کروا کر تقسیم کرواتے.
الغرض آپ کے اندر بہت ساری خوبیاں تھیں, آپ کے جانے سے علمی حلقہ میں کمی محسوس کی جائے گی, ہم سب آپ کے جدائی میں سوگوار ہیں, لیکن اللہ کے فیصلہ پر راضی ہونا ہی مومن کا امتیاز ہے, (ما نقول إلا ما يرضي ربنا), ہم وہی کہیں گے جس سے اللہ راضی ہو. میں اللہ تعالى سے دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ تیرا بندہ دین کے لئے کوشاں رہتا تھا,اب وہ تیری رحمتوں کا محتاج ہے, تو ان کی کوششوں کو قبول فرما, انکی اطاعتوں کو ان کے نامہ اعمال میں اضافہ کا سبب فرما, انکی لغزشوں کو درگزر فرما, اور جنت الفردوس میں انہیں اعلى مقام عطا فرما.
عبداللہ محمد مشتاق
حائل.
———————————————————————————————-
(جامعہ سلفیہ بنارس میں ڈاکٹر آر کے نورمحمدعمری مدنی رحمہ اللہ کی نمازجنازہ غائبانہ اداکی گئ)
بتاریخ 21 مارچ 2021م بروزاتوار بعدنمازعشاء جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم) بنارس کی مسجد میں مولانامحمدمستقیم صاحب سلفی حفظہ اللہ(شیخ الجامعہ) کی امامت میں فضیلۃ الدکتور آر کے نور محمدعمری مدنی رحمہ اللہ کی نمازجنازہ غائبانہ ادا کی گئی۔
نماز جنازہ سے قبل جامعہ کے مؤقراستاد مولانااسعد اعظمی صاحب حفظہ اللہ نےحاضرین (جامعہ کےاساتذہ وطلبہ) کے سامنے مختصر درس دیا۔محترم اعظمی صاحب نے سب سےپہلےڈاکٹر موصوف رحمہ اللہ کے انتقال کی اطلاع دی اورانتہائی مختصراورجامع اندازمیں ان کی علمی وتحقیقی، تعلیمی وتربیتی اوردعوتی واصلاحی زندگی کے بعض اہم گوشوں پر روشنی ڈالی۔ پھرجامعہ سلفیہ بنارس سے ان کے تعلقات اوروالہانہ عقیدت کا ذکر فرمایا۔نیزآپ نے کہاکہ ہم سب کوچاہئے کہ ہم اس عظیم حادثہ سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ہرلمحہ کو مثبت اورنیک کاموں میں لگائیں۔کیوں کہ کب کس کا بلاوا (موت) آجائے کسی کو پتہ نہیں ہے۔
ابوصالح دل محمد سلفی
جامعہ سلفیہ بنارس
آپ کی راۓ