نئی دلی / ايجنسى
انڈیا سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین مولانا وحید الدین خان طويل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔
مولانا وحیدالدین خان نے اپنی زندگی میں درجنوں کتابیں تصنیف کیں، انہوں نے قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھی۔ وہ طویل عرصے تک جمعیت علماء ہند سے بھی وابستہ رہے۔ ان کی علمی خدمات کے باعث بھارتی حکومت نے انہیں دوسرے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ پدما وی بھوشن سے نوازا تھا۔
اسلامک سکالر،کی ولادت یکم جنوری، 1925ء کو بڈھریا اعظم گڑھ، اتر پردیش بھارت میں ہوئی۔ مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ کے فارغ التحصیل عالم دین، مصنف، مقرر اورمفکر جو اسلامی مرکز نئی دہلی کے چیرمین، ماہ نامہ الرسالہ کے مدیر تھے اور1967ء سے 1974ء تک الجمعیۃ ویکلی(دہلی) کے مدیر رہ چکے تھے۔ آپ کی تحریریں بلا تفریق مذہب و نسل مطالعہ کی جاتی تھے۔ خان صاحب، پانچ زبانیں جانتے تھے، (اردو، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی) ان زبانوں میں لکھتے اور بیان بھی دیتے تھے، ٹی وی چینلوں میں آپ کے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ مولانا وحیدالدین خاں، عام طور پر دانشور طبقہ میں امن پسند مانے جاتے ہیں۔ ان کا مشن ہے مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا۔ اسلام کے متعلق غیر مسلموں میں جو غلط فہمیاں ہیں انہیں دور کرنا۔ مسلمانوں میں مدعو قوم (غیر مسلموں) کی ایذا وتکلیف پر یک طرفہ طور پرصبر اور اعراض کی تعلیم کو عام کرنا ہے جو ان کی رائے میں دعوت دین کے لیے ضروری ہے۔
الرسالہ نامی ایک ماہ نامہ جو اردو اور انگریزی زبان میں شائع کیا جاتا ہے۔ الرسالہ (اردو) کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح اور ذہنی تعمیر ہے اور الرسالہ (انگریزی) کا خاص مقصد اسلام کی دعوت کو عام انسانوں تک پہنچانا ہے، دور جدید میں الرسالہ کی تحریک، ایک ایسی تحریک ہے جو مسلمانوں کو منفی کارروائیوں سے بچ کر مثبت راہ پر ڈالنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ
” | 1976ء میں الرسالہ کے اجراء کے بعد سے جو کام میں کررہاہوں،اس کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو یہ سبق دے رہاہوں،کہ وہ منفی سوچ سے اوپر اٹھیں اور مثبت سوچ کا طریقہ اختیار کریں | “ |
الرسالہ کا انگریزی ایڈیشن مولانا کی دختر محترمہ ڈاکٹر فریدہ خانم کی تنہا کوششوں سے 1984ء میں جاری ہوا اور اب تک جاری ہے،مولانا کی اردو کتب کے جو انگریزی ترجمے شائع ہوئے ہیں وہ تمام تر ڈاکٹر فریدہ خانم کی تنہا کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جس کا اعتراف مولانا نے اپنی ڈائری (1990ء – 1989ء) کے صفحہ 85 میں کیاہے۔
آپ کے سفر نامے کافی مشہور ہیں۔ جیسے سفرنامہ غیر ملکی اسفار جلد اول ودوم، سفرنامہ اسپین وفلسطین، اسفار ہند وغیرہ۔
خان صاحب لکھتے ہیں کہ:(میری پوری زندگی پڑھنے،سوچنے اور مشاہدہ کرنے میں گذری ہے۔ فطرت کا بھی اور انسانی تاریخ کا بھی۔ مجھے کوئی شخص تفکیری حیوان کہہ سکتاہے۔ میری اس تفکیری زندگی کا ایک حصہ وہ ہے جو الرسالہ یا کتب میں شائع ہوتا رہاہے۔ اس کا دوسرا،نسبتاً غیر منظم حصہ ڈائریوں کے صفحات میں اکھٹا ہوتا رہاہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ میری تمام تحریریں حقیقتاً میری ڈائری کے صفحات ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ لمبی تحریروں نے مضمون یا کتاب کی صورت اختیار کرلی۔ اور چھوٹی تحریریں ڈائریوں کا جزء بن گئیں۔)
ان سب کے باوجود مولانا کی کچھ تحریریں اور ونظریات ایسے ہیں جن کی وجہ سے اہل علم ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اختلاف معمولی نہیں ہے بہت سی باتوں میں یہ جمہور علما اسلام سے الگ رائے رکھتے ہیں۔ جیسے انسان کامل، جہاد، دجال، مہدی، ختم نبوت کا مفہوم، ظلم کو برداشت کرنا اور جوابی کارروائی سے گریز کی تلقین، تقلید شخصی، وغیرہ
مولانا وحید الدین خاں کی خودنوشت تحریروں پر مبنی سوانح عمری "اوراق حیات” شائع ہوگئ ہے، جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو اردو زبان معروف سوانح نگار شاہ عمران حسن نے دس سال کی طویل محنت کے بعد مرتب کیا ہے۔ اس جاں گسل کام پر تبصرہ کرتے ہویے مولانا وحید الدین خاں نے ایک بار کہا کہ جو کام میں پوری زندگی نہ کر سکا اسے شاہ عمران حسن صاحب نے کیا ہے…
خاں صاحب نے عصری اسلوب میں 200 سے زائد اسلامی کتب تصنیف کی ہیں۔ جو آپ کی علمی قابلیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ ان میں سے چند قابل ذکر تصانیف مندرجہ ذیل ہیں۔
|
|
|
|
|
نوٹ:الاسلام یتحدی:(مذہب اور جدید چیلنج) پانچ عرب ملکوں:(قطر، قاہرہ ،طرابلس، خرطوم اور تیونس) کی جامعات میں داخل نصاب ہے۔
|
|
|
(12مئی،1989ء میں حکومت پاکستان نے مولانا کی کتاب، پیغمبر انقلاب(انگریزی) پر پہلا بین الاقوامی انعام دیا۔)
مولانا وحید الدین خان، جنہیں اے گریٹ سائنٹیفک سینٹ آف مسلم ورلڈ بھی کہا جاتا ہے، کو بہت سے لوگوں کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی ہے۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اِنہیں ہر جگہ اور ہر چیز میں ہندوستانی مسلمان ظالم نظر آتے ہیں،ہندو مُسلم فسادات ہوں تو وہ مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ہندوؤں کے محبوب ہونے کے باعث اکثر حکومتی اور ہندو تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے خُطبات کے لیے مدعو کیے جاتے ہیں، جہاں وہ مسلمانوں پر خوب کیچڑ اُچھالتے ہیں۔ اِن کا مزید کہنا ہے کہ ” ہندوستان کی اسلامی جماعتیں ذرہ برابر اشاعتِ اسلام اور تبلیغ کے لیے کام نہیں کر رہیں۔ اِن کا یہ بھی خیال ہے ” اِدھر سو سالوں میں کوئی ایسی کتاب نہیں لکھی گئی ہے جس سے اسلام کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہو۔ مولانا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُن کا قلم صرف مولانا مودودیؒ، مولانا حمید الدین فراہیؒ، مولانا اصلاحیؒ ،علامہ اقبالؒ اور علامہ ابو الحسن ندویؒ ( علی میاں ) پر ہی تنقید کرتا ہے۔
21 اپریل 2021ء کو بعمر 96 برس وفات پاگئے، نئی دہلی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے پسماندگان میں 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں
آپ کی راۓ