ماہ رمضان اپنی تمام تر رحمتیں، برکتیں اوربخششیں نچھاور کرکے بےشمار نعمتوں اور انعامات واکرامات سےمعمور، فرحت ومسرت، بہجت وانبساط اور انگنت نوازشوں کا ایک عظیم الشان دن عطا کرکے ہم سے رخصت ہو رہا ہے، عیدالفطر کی بابرکت ساعتیں ملت اسلامیہ کے ہر فرد بشر کے لیے رب کائنات کی طرف سے خوشی وشادمانی اور انعامات و اعزازات کی نوید پیش کرتی ہے، یہ دن فرزندان توحید کے لیے انعام و پیغام اورمسرت وشادمانی کا دن ہے، یہ دن ماہ صیام کی تکمیل پر تحصیل انعام کا دن ہے، یہ دن دراصل تشکر وامتنان اور ضیافت رحمٰن کا دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بےحساب اجر وثواب سے نوازتا ہے، یہ دن مسلمانوں کا ایک عظیم اور مقدس مذہبی تہوار کا دن مانا جاتا ہے، جو ہر سال ماہ شوال کی یکم تاریخ کو انتہائی جوش وخروش اور عقیدت واحترام کے سا تھ منایا جاتا ہے، عیدالفطر یہ دو عربی الفاظ کا مجموعہ ہے، ”عید“ کا لفظ ”عود“سےمشتق ہے،جس کےمعنی ” لوٹنا،واپس آنا “ہے، یعنی عید ہرسال لوٹتی ہے اور ” فطر“ کےمعنی ” روزہ توڑنے یامکمل کرنے “ کا ہے، چوں کہ عیدالفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو عبادت رمضان کا بدلہ عطا فرماتے ہیں، اسی مناسبت سے اسے ”عیدالفطر“ قرار دیا گیا۔
حضرت انس ؓ سےروایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بطورِ تہوار مناتے تھے اور اُن میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے،رسولِ اکرم ﷺ نے اُن سے دریافت فرمایا: یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی کیا حقیقت ہے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ہم عہدِ جاہلیت میں یہ تہوار اِسی طرح منایا کرتے تھے، یہ سُن کر آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر فرمایا ہے،ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحیٰ۔{ابو داؤدو}
حضر ت عبد اﷲ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ عید کی رات اُمتِ محمدیہ کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور اس رات کو لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات کہا جاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’ جب یومِ عید آتا ہے، تو شیطان آواز کے ساتھ روتا ہے، اُس کی ناکامی اور رونا دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں، اور پوچھتے ہیں کہ’’ تجھے کس چیز نےغم ناک اور اُداس کردیا؟ ‘‘شیطان کہتا ہے کہ’’ ہائے افسوس! اللہ تعالیٰ نے آج کے دن اُمّت ِمحمّدیہ ﷺ کی بخشش فرمادی ہے، لہٰذا تم اُنہیں پھر سے لذّتوں اور خواہشاتِ نفسانی میں مشغول کردو“۔
اور جب عید کی صبح ہوتی ہے،تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں،اور وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جسے جنّات اور انسانوں کے سِوا ہر مخلوق سُنتی ہے پکارتے ہیں کہ’’اے اُمّتِ محمّد اس کریم ربّ کی بارگاہِ کرم میں چلو، جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے،‘‘ پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں، تو حق تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں،کہ کیا بدلہ ہے، اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچُکا ہو؟‘ وہ عرض کرتے ہیں’’ اے ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اس کا بدلہ تو یہی ہے کہ اُس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اُن کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی ہے اور پھر بندوں سے خطاب فرماتا ہے،کہ اے میرے بندو! مجھ سے طلب کرو؛ میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم! آج کے دن اِس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا اور دنیا کےبارے میں جو سوال کروگے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا ، میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھوگے میں تمہاری لغزشوں کو معاف کرتا رہوں گا، میری عزت کی قسم!اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے ذلیل و رسوا نہیں کروں گا، بس اب بخشے بخشائے عیدگاہ سے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا، چنانچہ فرشتے اِس اجرو ثواب کو دیکھ کر جو اُمتِ مسلمہ کو عیدالفطر کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔(الترغیب والترہیب/مجمع الزوائد)
مذہب اسلام نے اس دن کو عیدالفطرکی شکل میں اس طرح پیش کیا،جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی، عیدصرف رسمی تہوار اور خوشیوں کا نام نہیں ہے، بلکہ درد دل کی صدا کا نام ہے، ایک عالمی اور بین الاقوامی پیغام ہے، جو معاشرتی اور سماجی فلاح کا سب سے بڑا داعی ہے، وہ آسودہ حال مسلمانوں کو پابند کرتا ہے، کہ معاشی طور پر بدحال و مفلس اور کمزور و ناتواں مسلمانوں کا سہارا بنیں اور اپنی خوشیوں کے ساتھ دوسروں کی خوشیوں کا بھی خیال رکھیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم وہ مومن نہیں،جو خود پیٹ بھرکرکھانا کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوک سے کروٹیں بدلتا رہے۔
عید کے اس مبارک و مسعود موقع پر آقائے دوجہاں ﷺ کی طریقہ زندگی کو سامنے رکھنا چاہیے کہ آپ ﷺ نمازِ عید سے فارغ ہو کر واپس تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں آپ ﷺ کی نظر ایک بچّے پر پڑی، جو راستے کے ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا، نبی کریم ﷺ اُس کے پاس تشریف لے گئے اور پیار سے اُس کے سَر پر دستِ شفقت رکھا، پھر دریافت فرمایا ’’ کیوں رو رہے ہو؟ ‘‘ بچّے نے جواب دیا’’ میرا باپ مرچُکا ہے، ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے، میرے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے، نہ پہننے کو کپڑا۔‘‘یتیموں کے ملجا ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا کہ’’ اگر میں تمہارا باپ، عائشہؓ تمہاری ماں اور فاطمہؓ تمہاری بہن ہو جائیں، تو تم خوش ہو جاؤگے؟ ‘‘کہنے لگا ’’یا رسول اللہ! اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا “۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے صرف عبادت ہی کافی نہیں، بلکہ یتیم ومسکین اور مجبور و بےکس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور جو روزہ رکھ کر یا نماز ادا کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے بندگی کا حق ادا کردیا، تو اُنہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی عبادت و ریاضت ایک بے جان جسم کی طرح ہے، اس لئے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے صدقہ فطر ان لوگوں تک پہنچائے جو اس کے حاجتمند ہیں اور جن کی عید اس کے بغیر پُر مسرت نہیں ہوسکتی۔
شیخ عبدالقادر جیلانی نے تصنیف”غیةالطالبین“ میں لکھاہےکہ” عید ان کی نہیں جنہوں نےعمدہ لباس سے اپنے آپ کو زیب تن کیا، بلکہ عید تو ان کی ہے، جو خدا کی خشیت اور پکڑ سے بچ گئے ، عید ان کی نہیں جنہوں نے بڑی بڑی ڈیگیں چڑھائیں، اورعمدہ ولذیذ پکوان سے دسترخوان کو مزین کیا،عیدتو ان کی ہے،جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور نیکی کی راہ پر گامزن کیا،عید ان کی نہیں جنہوں نے اپنے مکانوں کی آرائش وزیبائش کی، بلکہ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کی آگ سے بخیر وعافیت بچ گیے۔
روایت میں آتاہےکہ خلیفۂ ثانی امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ نے عیدکے دن اپنے فرزندِ ارجمند کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو آپؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، بیٹے نے کہا:’’ ابّا جان! آپؓ عید کے دن کیوں رو رہے ہیں‘‘ آپؓ نے فرمایا :’’پیارے بیٹے! آج عید کے دن جب لوگ تجھے اس پرانی قمیص میں دیکھیں گے، تو تیرا دل ٹُوٹ جائے گا ‘‘ تو آپؓ کے عظیم بیٹے نے کیا ہی عجیب و دل رُبا جواب دیا کہ: ’’ ابّا جان! آج دل تو اس کا دکھے گا،جو رضائے الٰہی کو نہ پاسکا، جس نے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کی، یہ سُن کر حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے عظیم بیٹے کو گلے سے لگایا اور اپنی مستجاب دُعاوں سےنوازا۔(مکاشفۃ القلوب)
ایک دفعہ حضرت عُمر ؓبن خطاب کے دَورِ خلافت میں لوگ عیدکے روز آپؓ کے پاس آئے، تو دیکھا کہ وہ گھر کا دروازہ بند کیے زار وقطار رو رہے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا’’ امیرالمومنین! آج تو عید کا دن ہے اور آپؓ رو رہے ہیں؟ حضرت عُمرؓ نے جواب دیا ’’اے لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔ آج جس کی نماز، روزے اور دیگر عبادات قبول ہوگئیں، بلاشبہ اُس کی آج عید ہے اور جس کی عبادات قبول نہیں ہوئیں، اُس کے لیے وعید کا دن ہے، میں اِس خوف سے رو رہا ہوں کہ نہیں معلوم میری عبادات قبول ہوئیں یا اُنہیں رَد کردیا گیا۔‘‘
عید ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہم اپنی عید کی اِن بےشمار خوشیوں میں اپنے معاشرے میں موجود ایسے پریشان اورمفلوک الحال لوگوں کا مداوا کریں، جو عید کی اِن خوشیوں سے محروم ہیں اور ہمارا آج کا یہ ذرا سا نیک عمل ہمیں عید کی اصل خوشیاں سمیٹ کر ہمارے دامن میں بھر دے گا اور اِس طرح اس کی روحانیت سے ہم سال بھر مستفیض ہوتے رہیں گے ۔
آیئے! آج عید کےاس مبارک موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور خلوصِ دل سے یہ عہدکریں کہ آج سے ہمارا جو بھی قدم اُٹھے گا، جو بھی آواز اُٹھے گی، جو بھی کام کریں گے، وہ اسلام کی سربلندی، اُمّت مسلمہ کے اتحاد واتفاق اور خصوصاً اپنے ملک وملت اور قوم ومعاشرے کی استحکام کے لیے کریں گے، اور معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام نفرتوں، اختلافات اور تعصبات کو ختم کریں گے، اور اتحاد و اتفاق، اخوت و بھائی چارگی کو فروغ دیں گے اور ہرقدم پرمحبتوں کے دیپ روشن کریں گے۔
آپ کی راۓ