کورونا ولاک ڈاؤن سے تعلیم وتعلیمی ادارے متاثرلیکن بچوں کے تعلیمی مظاھرے کامیابی سے ہمکنار

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل

13 مئی, 2021

کسی شاعر نے کہا ہے کہ
تعلیم سے آتی ہے اقوام میں بیداری.
ہے علم کے پنجے میں شمشیر جہاں داری.
قرآن مجید کانزول ہوا تو سب سے پہلے جو آیات نازل ہوئیں وہ تعلیم وتعلم سے متعلق ہیں .تعلیم روشنی ہے اور جہالت تاریکی ،تعلیم کی اہمیت وافادیت بہت زیادہ ہے تعلیم ہی کے ذریعہ ہم خیر وشر کی تمیز کر سکتے ہیں. تعلیم ایک ایسی بیش بہا دولت ہے نہ اسے چور چوری کرسکتا ہے نہ سیلاب بہا سکتا ہے.تعلیم نہ تقسیم کی جا سکتی ہے. آج ہم سماج پر آس پاس میں روشنی ڈالیں دیکھیں گے تو وہی گھرانہ خوشحال مہذہب مانا جاتا ہے جہاں کے لوگ تعلیم یافتہ ہیں یا جس گھرانے کے لوگ تعلیم وتعلم سے متعلق ہیں. تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کی عزوہ بدر کے موقع پرقیدیوں کی رہائی کیلیے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی ان میں سے جو غریب نادار مالی تنگدستی کے شکار تھے وہ بلا معاوضہ ہی چھوڑ دیئے گئے تھے. لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں حکم ہوا تھا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو انہیں رہا کر دیا جائےگا ۔حضرت زید بن ثابت ؓ نے جوکاتب وحی تھے. انہوں نے بھی وہیں تعلیم حاصل کی تھی تعلیم کی کیا اہمیت وفضیلت ہے اوران کا حصول کس قدر ضروری ہےاس واقعے سے معلوم ہوا.
قرآنِ مجید میں لگ بھگ پانچ سو مقامات پر حصول تعلیم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے حصول علم کےتعلق سے بہت سی حدیثیں وارد ہیں. حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ’’حصول علم تمام مسلمانوں پر (بلا تفریق مرد و زن) فرض ہے۔
اللہ رب العالمین کے فضل وکرم سے امت مسلمہ نے علم کے حصول میں کافی پیش رفت کی ہے. عصری علوم میں بھی آگے ہے. موجودہ دور میں ملت کے بچے ڈاکٹرس انجینئرس بنے ہیں اور سول سروسز امتحانات میں کافی بیداری آئ ہے. پہلے کے مقابلے میں زیادہ تر مسلم بچے آئ. ایس.آئ. پی ایس بن رہے ہیں فرقہ پرستوں تعصب وتنگ نظری کے شکار لوگوں کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں.

کورونا جیسی مہلک بیماری ولاک ڈاؤن کے بعد عوام نے جن مصائب وآلام کا سامنا کیا ہے وہ ناقابل بیان ہے.

لوگ انتظار میں تھے کی حکومت مدارس ،مکاتب ومساجد کھولنے کی اجازت دے گی لیکن وقت گزرتا گیا اور کئ ماہ کے بعد ہندستان کی حکومت نے صرف مساجد کھولنے کی مشروط اجازت دے تودی. لیکن مدارس مکاتب و تعلیمی ادارے بند رکھنے کا حکم جاری کیا. کچھ اسکولس کے ذریعہ آن لائین تعلیم ہوتی رہی بہت کم اسکول والوں کے اندر تعلیم دینے کا جذبہ تھا اکثر اسکول والے صرف پیسے کے حصول کے لئیے آن لائن تعلیم جاری کئیے ہوءے تھے.تعلیم کے نام پر بہت لوٹ کھسوٹ مچی ہوئ تھی. بعض پرائیویٹ اسکول والے منہ مانگی رقم پاتے تھے ڈونیشن اور دیگر ایکٹیوٹیز کے نام پر خطیر رقم وصول کر تے تھے اور لوگو ں کا ا ستحصال بھی کرتے تھے.اگر ایسے لٹیروں کو ایجو کیشن مافیا کہا جائےگا تو غلط نہ ہوگا فیس کی وصولی کرتے رہے اکثر اسکولوں نے فیس کی کوئ رعایت نہیں کی بلکہ سختی کی گئ اور بچوں کو اسکول سے نکالنے کی والدین وسرپر ستوں کو وارنگ دی گئ.لوگ مالی پریشانی میں بھی اس خوف ڈر سے فیس دیتے ریے کی کہیں بچوں کو اسکول سے نکال نہ دیں.

اللہ کے فضل وکرم سے سدھارتھ نگر یوپی اور کپل وستو نیپال کے عربی مدارس، مکاتب و تعلیمی اداروں نے تعلیمی ودعوتی بیداری کا جو ثبوت دیا ہے وہ قابل ستائش ہے. جب عربی مدارس و ادارے کچھ شرائط کے ساتھ کھلے تو ان اداروں نے تعلیمی تدریسی ودعوتی سرگر میاں بھی تیز کردیں. ہندستان کے عربی ادارے تو مکمل نہ کھل سکے. لیکن نیپال کے عربی مدارس ومکاتب اکتوبر2020 میں ہی کھل گئیے تھے. حکومت نیپال نے مدارس ،مکاتب واسکولس کھولنے کی اجازت دے دی تھی. حکومت نیپال کی طرف سے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کاحکم جاری کیا گیا تھا.

مارچ 2020 کے لاک ڈاؤن سے عربی مدارس، مکاتب وتعلیمی اداروں پر سب سے زیادہ مار پڑی ہے. ہندستان میں عربی مدارس ومکاتب تقریباایک سال سے بند ہیں. جس کی وجہ سے مدرسین، اساتذہ وعلماء مالی تنگدستی کے شکار ہوگئے ییں. معمولی تنخواہوں پر قناعت کرنے والے علماء کافی پریشان ہوئے ہیں. گھر کا چولہا کیسے جلے؟ بچوں کے کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کیسے، کہاں سے ہو؟ کافی لوگ فکر مند تھے. کتنوں نے خود کشی کرلی کتنے علماء نے امامت وخطابت درس وتدریس چھوڑ دیا. یا مدارس ومساجد کے ٹرسٹیوں نے ائمہ مساجد، مدرسین واساتذہ کو نوٹس دے دیا جسکی وجہ سے وہ دوسرے کاموں میں لگ گئیے. سال بھر سے اساتذہ وعلماء ممبئ ودیگر شہروں قصبوں ودیہات کے اسکولس بند ہونے کی وجہ سے کافی پریشان ہیں. ممبئ کا اپنا بھی ادارہ اقراء پبلک اسکول( ممبرا ممبئ) ایک سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے بند ہے. طلبہ واساتذہ ٹیچرس اسکول کھلنے کا شدت کے ساتھ منتظر ہیں. لیکن دوبارہ کورونا کی بیماری سے لاک ڈاؤن ہوگیا جس سے اب خدشہ لاحق ہوگیا ہے کی امسال بھی مدارس ومکاتب تعطل کے شکار رہیں گے.
اہل مدارس وعربی ادارے اس انتظار میں تھے کی اب کھلےگا دو ماہ بعد کھلے گا لیکن مدارس اسکولس نہ کھولنے کی حکومت نے سخت پابندی عائد کر دی. اب ازسر نو ادارے کا کام اس وقت شروع ہوگا جب حکومت اجازت دے گی. گزشتہ سال اچانک لاک ڈاؤن سے تیس سالہ ممبئ کی زندگی میں پہلی بار مجھے بھی دوماہ گاؤں رہنا پڑاتھا.مرکزی حکومت نے بے بصیرتی اور زیادتی کا ثبوت دیا،گزشتہ سال مودی جی نے مارچ میں اچانک لاک ڈاؤن کر کے پورے ملک میں کہرام مچا دیا تھا، قیامت برپا کردی تھی شہر ودیہات میں قیامت کا منظر تھا لوگ ممبئ سے پیدل سائیکل رکشہ ہاتھ گاڑی اور دیگر ذرائع سے اپنے آبائ وطن کے لئیے نکل پڑے تھے. ان میں شیر خوار بچے جوان بوڑھے بزرگ مرد وعورتیں تھیں، ان کو دشواریوں ومشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا.لوگ افتاں وخیزاں چلے جارے تھے. ان اذیت ناک وکربناک واقعات کو تصور کرکے آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں.
امسال بھی مجھے آبائ وطن جانا ہوا تو دو ماہ رکنا پڑا اس دوران عربی مدارس، مکاتب وتعلیمی اداروں نے پروگرام (تعلیمی مظاہرے کئے) کئے. ہندو نیپال کے اکثر مکاتب ومدارس نے طلبہ وطالبات کا تعلیمی مظاھرہ رکھا. کئ اہل مدارس نے مجھے بھی بحیثیت مہمان کے،مقرر کے مدعو کیا. اللہ کی نصرت اس کی مدد سے ہم نے اکثر پروگراموں میں شرکت کی اور تاثرات بھی پیش کئیے.تمام مدارس ومکاتب کے بچوں نےاچھا پر فارمینس پیش کیا. قرات، حمد، نعت، نظم ڈارمہ ومکالمہ تقریریں پیش کیں.
جن مکاتب ومدارس نے اپنے ادارے میں پروگرام کا انعقاد کیا اور راقلم الحروف نے شرکت کی وہ درج ذیل ہیں. جامعہ مطلع العلوم ڈومرا 17 مارچ2021 ام عمارہ بھینس کنڈہ. مدرسہ دارالتعلیم پکڑی 27 مارچ. مدرسہ شمس العلوم مہادیو. المعھد الاسلامی بلہی.مدرسہ عربیہ دھپہی. مدرسہ ابو بکر صدیق رجواپور. 5 اپریل 2021کلیہ سمیہ للبنات بلک ڈیہ10اپریل2021
جامعتہ الاصلاح غوری. جس کے ذمہ داران سالک بستوی راشد بستوی برادران ہیں. یہاں.بھی کئ شعبے قائم ہیں. مدرسہ عربیہ دھپہی کے باشندے مولانا حبیب الرحمان وطبیب الرحمان عالیاوی کے والد کی نظامت میں ادارہ شاندار طریقے سے چل رہا ہے.وہاں کے طلبہ نے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا.
القلم بورڈنگ اسکول پپرا میں بھی طلبہ وطالبات کے شاندار تعلیمی مظاہرے ہوئے. القلم اسکول نے بہت قلیل مدت میں ترقی کی ہے اس کے روح رواں مولانا شہزاد سنابلی کی محنت، تگ ودوکا نتیجہ ہے.

جامعہ مطلع العلوم ڈومرا.نیپال. ایک قدیم اقامتی درسگاہ ہے جہاں پانچ سو سے زیادہ طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں. ادارہ میں کئ شعبے قائم ہیں. شعبہء بنین جماعت ثانیہ تک ہی انتظام تھا.لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہندستان کے ادارے بند ہوگئے تھے. طلبہ کا تعلیمی سال برباد ہورہاتھا. البتہ نیپال میں حکومت نے تعلیمی اداروں کو کھولنے کی اجازت دے دی تھی. مولانا عبد الرحیم مدنی( جو بہترین منتظم ہیں اعلیٰ اخلاق کے متحمل ،عربی زبان وادب کے ماہر بھی ہیں) اوران کے اساتذہ نے شدت کیساتھ محسوس کیا کی ہندستان کے عربی ادارے بند ہیں بچے بھٹک رہے ہیں، تعلیم کا زبردست نقصان ہو رہا ہے تو کیوں نہ اپنے یہاں مطلع العلوم میں عربی عالمیت تک کی تعلیم کردی جائے. مدنی صاحب وٹرسٹیان نے توکل علی اللہ آنا فانا فیصلہ لیا جماعت سادسہ (عالمیت) تک کی تعلیمی بندوبست کردیا.جامعہ مطلع العلوم کے اس اقدام کی جتنی ستائیش کی جائے کم ہے. معروف عالم ممتاز ادیب ومنفرد قلم کار عربی زبان وادب کے ماہر سنیئر استاد مولانا ابوالعاص وحیدی صاحب نے جامعہ کے اس اقدام کو سراہا. جامع مطلع العلوم کے منعقدہ پروگرام میں شرکت کی اور فارغ ہونے والے حفاظ و عالمیت کرنے والے طلبہ کی دستار بندی کی گئ . جامعہ سلفیہ بنارس جامعہ اسلامیہ سنابل دہلی. جامعہ فیض عام مؤ جامعہ عالیہ جامعہ اثریہ مؤ اوردیگر اداروں کے زیر تعلیم طلبہ مدارس وجامعات بند ہونے کی وجہ سے جامع مطلع العلوم ڈومرا نیپال میں داخلہ لیا اور چار پانچ ماہ تک تعلیم حاصل کی. جامعہ مطلع العلوم کے اساتذہ نے بڑی دلجمعی کے ساتھ بلا ناغہ تدریسی وتعلیمی ذمہ داریاں نبھاتے رہے. ادارہ میں اساتذہ کی ٹیم بہت اچھی ہے.کئ با صلاحیت ٹیلنٹیڈ اساتذہ درس وتدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں. مولانا عبد الحئ مدنی مولانا عبد العزیز سلفی، مولانا نیاز احمد مدنی. مولانا مبارک حسین سلفی وغیرہ. ادارہ نے تعلیمی وتعمیری میدان میں کافی ترقی کی ہے، ادارہ کے منعقدہ پروگرام میں طلبہ نے عربی اردو انگلش نیپالی زبان میں تقریریں کیں اور سامعین محظوظ ہوءے بچوں کے پروگرام میں علماء اور عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی.خوشی ومسرت کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ درسگاہ جامعہ سلفیہ بنارس کے وفد نے جامع مطلع العلوم کا دورہ کیا اور جامعہ سلفیہ سے الحاق کرلیا. اللہ ادارہ کو مزید ترقی عطا کرے.
کلیہ ام عمارہ بھینس کنڈہ نیپال کا سب سے پرانا نسواں اسکول ہے جسے مولانا محمد یوسف صاحب رحمہ اللہ علیہ نے قائم کیاتھا مولانا محمد یوسف صاحب بہت ہی نرم مزاج صبر وتحمل کے دلدادہ تسلیم ورضا کے پیکر تھے. تعلیم کے تعلق سے کافی فکر مند شخص تھے. بھینس کنڈہ کا ادارہ بتدریج ترقی کرتا گیا.اس اداردہ سے کئ لوگ فیض یاب ہوکر اور تعلیمی ادارے بنائے.اللہ ان کی کوششوں کو کامیاب بنائے. مولانا مرحوم کے لئیے صدقہء جاریہ بنائے. ادارہ کی کئ شاندار عمارتیں ہیں عالیشان مسجد ہے اور چارسو طا لبات زیر تعلیم ہیں.شعبہء حفظ وعربی درجات بھی قائم ہیں مولانا محمد یوسف صاحب کے فرزند مولانا حفظ الر حمان سلفی ناظم ام عمارہ للِبنات ہیں جو بہت بہترین منتظم ہیں. خندہ ہیشانی سے مسکرا کر ملتے ہیں.مولنا شبیر احمد سراجی محوب عالم سراجی اعجاز سنابلی وغیرہ وہاں کے لائق وفائق مدرس ہیں. مجیب الرحمان یوسف سلفی الفاروق بورڈنگ اسکول کی ذمہ داری احس طریقے سے نبھا رہے ہیں.
شیخ ضیاء الرحمان صاحب دعوتی ،تبلیغی ورفاہی سینٹر کٹھمنڈو میں سنبھالے ہوئے ہیں شیخ ضیاء بہت ہی خلیق ،ملنسار اور مہمان نواز ہیں. ان کے چھوٹے بھائ فضل خان (سابق انٹرنیشل کرکٹ کھلاڑی نیپال) سیاست میں دلچسپی ہے انتہائ فعال ومتحرک ہیں فلاحی ورفاہی کاموں میں ہیش ہیش رہتے ہیں.

پکڑی چورہا علم وادب کا مرکز بنتا جارہا ہے.ادارہ میں کلیہ سمیہ للبنات شعبہء حفظ بھی قائم ہے ناظم مولانا عبدالقیوم فیضی صاحب ہیں یہاں بھی حفاظ کی دستار بندی ہوئ ادارہ کے صدر مدرس مولانا مجیب الر حمان صاحب ادارے کے انتظام وانصرام میں متحرک رہتے ہیں. منعقدہ پروگرام میں مولانا عبداللہ انصاری برہی نے نظامت کی اور علماء کرام نے تاثرات پیش کئے.

کئ اداروں کے نظماء وصدور وذمہ داروں نے اپنی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی نبھایااور دلچسپی دکھائ .علیگڈھوا، چاکر چوڑا سے متصل نیپال میں مدرسہ دارالحدیث اور مسجد برکل لب روڈ قائم ہے اس کے منتظم عبد الحلیم پٹو بھائ اور ان کے رفقاء شرف الدین وغیرہ نے مدرسہ دارالحدیث کے زیر اہتمام ایک اجلاس بتاریخ8 اپریل 2021کو منعقد کیا. اجلاس میں ہندو نیپال کے نامور مقررین اور علماء کرام سیاسی ،سماجی شخصیات نے شرکت کی مولانا جرجیس سراجی، مولانا معروف سراجی اور ان کے برادران اور دیگر علماء. کرام نے جامع خطاب کیا. اور راقم الحروف نے نظامت کے فرائض انجام دئے .پروگرام میں تقریبا تین ہزار (3000)سے زیادہ افراد شریک ہوئےخواتین کی تعداد زیادہ تھی. پردے کا ٹی .وی اسکرین کا معقول انتظام تھا.
معروف مبلغ وداعی اور ممتاز استاد مولانا عتیق الرحمان صاحب ریاضی کلیہ سمیہ للبنات، مولانا نیازاحمد فیضی، نظام الدین سلفی.کامریڈ اسرار احمد علیگـ، شمس غفاری صاحبان نے شریک ہو کر طلبہ کی حوصلہ افزائ کی. کلیہ سمیہ للبنات بلک ڈیہ میں طالبات کی تعلیمی وتربیتی رہنمائ کے لئیے شاندار پروگرام منعقد ہوا جس میں طالبات نے حمد، نظم ترانہ پیش کیا. طالبات نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا. مولانا عتیق الرحمان ریاضی، مولانا عبد العزیز صاحب سلفی، ڈاکٹر عبد اللہ فیصل، عبد الرحمان یوسف فیضی، اسرار احمد علیگ نے تعلیم کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی. مولانا نیاز احمد فیضی صاحب نے شاندار نظامت کے فرائض انجام دئے. صلاح الدین (پپرا )نے بھی شرکت کی اور بچوں کی حوصلہ افزائ کی.ادارہ کے استاد اور شاعر محمود سحر صاحب نےشرکاء کے لئیے کھانے کا اہتمام کیا سحر صاحب نے عمدہ ولذیذ بریانی تیار کی پروگرام کے بعد مہمانوں کو کھانے کے لئیے بریانی پیش کی گئ.
مولانا عتیق الرحمان ریاضی صاحب ریاضی مخلص اور بے لوث شخص ہیں، مثالی مبلغ وداعی ہیں. دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ کپڑے کے کامیاب تاجر ہیں. وہ مہمانوں کی بھر پور ضیافت بھی کرتے ہیں.
عزیر احمد سلفی (املیا) کپڑے کے بہترین تاجر ہیں رائس مل کے مالک ہیں انتہائ خلیق ،ملنسار ومہمان نواز ہیں جب بھی ملتے ہیں مسکرا کر ملتے ہیں. سماجی ورفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ریتے ہیں.
املیا کے عبد الرحمان (موبائل پکڑی چوراہا) ایک فعال ومتحرک نوجوان عالم ہیں انہوں نے بھی میری خدمت کی، وہ زمین کے خریدو فروخت کا کاروباربھی کرتے ہیں .انہوں نے بہت کم وقتوں میں ترقی حاصل کی وہ خلیق، ملنسار ومہمان نواز بھی ہیں. اشفاق احمد بھٹو عبد اللطیف( پکڑی) نے بھی بڑی خدمت کی اور برابر خیر خیریت لیتے رہتے تھے. علیگڈھوا میں مطب چلانے والے کامیاب تجربہ کار ڈاکٹر خالد ڈاکٹر عمار صاحبان نے بڑی خدمت کی ڈاکٹر خالد صاحب تقریبا روزانہ بلڈ ہریشر چیکپ کرتے تھے کی کتنا یے. اسی حساب سے دوائیاں دیتے تھے. مولانا اقبال مکی صاحب تجارت کے ساتھ ساتھ درس وتدریس سے بھی جڑے ہیں. اور ایک نسواں اسکول کے ذمہ داربھی ییں.انہوں نے دعوت طعام رکھا اور مختلف انواع واقسام کے کھا نے کا اہتما م بھی کیا.
مولانا ڈاکٹر عبد العظیم عالیاوی صاحب مدرس مدرسہ عربیہ موضع کوری ڈیہ سے ملاقات کرنے گیا تفصیل سے علمی وادبی گفتگو ہوئ. اسی دوران میرے ایک پرانے ہم سبق ساتھی کافی عرصے کے بعد مولانا صلاح الدین سراجی مل گئے. وہ رچھا بریلی میں بچیس سال سے زیادہ عرصے سے ایک اسکول میں ملازم ہیں نیز دعوتی کاز میں بھی لگے ہیں ان کا اصرار رہا کی آج میرے گھر پر قیام کریں انہوں نے لب روڈ مکان کے ساتھ مسجد بھی بنوائ ہے .زمانہء طالب کی یادیں تازہ ہوگئیں ہم سبق وہم عصر ساتھیوں اور اساتذہ کے متعلق اور دیگر سرگرمیوں کے بارے میں کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی.ان کے بیٹے حافظ جمال سلفی نے خاطر ومدارات میں کوئ کمی ہونے نہیں دیا. ان کے دولت کدے پر رات بھر قیام ریا.

گلزار بھائ، محمد عثمان خان (دہلی) اور عزیزم نعیم ساحل معروف شاعر (ابھیراؤں) نے میرا بہت خیال رکھا کہیں آنا جانا ہوتا تو میرے لئیے گاڑی بائک لیکر حاضر رہتے . مدرسہ عربیہ شمس العلوم مہادیو کے اجلاس میں ہم لوگ ساتھ ساتھ گئے تھے.مدرسہ شمس العلوم کے طلبہ وطالبات نے بہت شاندار پروگرام پیش کیا.جس اعتماد سے معصوم بچوں نے تقریریں کی ہیں. اور نظم، ڈرامہ ،مکالمہ پیش کیا ہے سب پروگراموں پر بھاری رہا ہے.ادارہ کے استاد مولانا نصیر احمد سلفی کی شبانہ روز محنتوں کا نتیجہ تھا. طلبہ وطالبات کی بہت اچھے ڈھنگ سے تیاری کرائ گئ تھی. طلبہ کی بہتر ین کارکردگی کا سہرا ادارہ کے ناظم کو بھی جاتا یے جنہوں نے اساتذہ کی بھر پور رہنمائ کی اور تعاون کیا، مشہوروممتاز عالم مولانا عبد السلام صاحب سلفی امیر جمعیت اہل حدیث ممبئ عظمیٰ کے بڑے بھائ ابوالکلام صاحب مدرسہ عربیہ شمس العلوم کے ناظم ہیں بہت بہتر منتظم ہیں انہوں نے اساتذہ وطلبہ کی ہمت افزائ کی اور انعامات سے بھی
نوازا. نثار احمد مئیر صاحب نے پروگرام میں شرکت کی اور بچوں کی حوصلہ افزائ کی. پروگرام رات کے تین بجے تک چلتا رہا اور طلبہ وطالبات اور سامعین مردو خواتین پروگرام کے اختتام تک بیٹھے رہے.
مولانا عبد القیوم صاحب علیگڈھواایک محنتی فعال شخص ہیں تعلیم سے یہ بھی وابستہ ہیں
اور عبد الغفار( میڈیکل والے)میری ہمیشہ مزاج پرسی کے لئیے فون کرتے ریتے تھے

مدارس اسلامیہ دینی قلعے ہیں،
مدارس ومکاتب دینی قلعے ہیں دینی علوم کے سرچشمے ہیں.اشاعت اسلام فروغ دین اور حفاظت دین کا ذریعہ ہیں. ان کاتحفظ کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے. اگر عربی مدارس و مکاتب کمزور ہوجائیں گے تو ملت بھی کمزور ہوجائےگی.اگر یہ ادارے زوال پزیر ہوئے تو ملت کا زوال یقینی ہے.دینی تعلیم کی ضرورت اور اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں سائنس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے انکشافات و ایجادات نے علم کے حصول میں لکھنے پڑھنے کے معاملےکو آسانیاں فراہم کردی ہیں ۔عصری علوم میں تعلیم حاصل کرنا ڈاکٹر انجنئیر پروفیسر کمپیوٹر کے ماہر بننا دیگر علوم وفنون حاصل کرنا تو ضروری ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی کا حصول ناگزیر ہے.بہت سے لوگ عصری علوم حاصل کر لیتے ہیں لیکن دینی تعلیم سے نابلد ہوتے ہیں قرآن پڑھنا نہیں آتا ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں. انگریز کی ہر ممکن کوشش رہی ہے دل مسلم کو محبت اسلام سے خالی کردیا جائے. روح محمد ان کےدل سے نکال دو.عصری علوم کے نام پر عربی مدارس کے طلبہ کو بھی گمراہ کیا جاتا ہے.جس تعلیم سے مذہب بیزاری اور اسلامی تعلیمات سے برگشتہ ہو ں ان پر زور دیاجاتا ہے.
علام ا قبال نے فر مایاتھا.
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ.
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ.
ناحق کے لئیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ.
شمشیر ہی کیا نعرہء تکبیر بھی فتنہ.
یادرہے اگر کوئ قرآن پڑھنا نہیں جانتا ہے تو وہ مطلق جاہل ہے. کسی ماہر تعلیم کا بیان ہے کہ.”تعلیم کے حصول کے لیے قابل اساتذہ بھی بے حد ضروری ہیں جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مددفراہم کرتے ہیں .. استاد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض سے مبرا ہوگیا بلکہ استاد وہ ہے۔ جو طلباء و طالبات کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور انہیں شعور و ادراک، علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ ان کی تربیت میں کوئ کسر نہ رکھتا ہو.جن اساتذہ نے اپنی اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے پورا کیا، ان کے شاگرد آخری سانس تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔اور دعائیں دیتے ہیں. آج کے دور میں چند عناصر نے پیشہ تدریس کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔ وہ ٹائم.پاس کرتے ہیں .درس و تدریس بہت ہی باوقار پیشہ ہے. اس عظیم پیشہ کی قدر و قیمت کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے۔ہمارے تعلیمی نظام کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے، جبکہ مسلمان عصری علوم سے دور نہیں رہے بلکہ جدید زمانے کے جتنے بھی علوم ہیں زیادہ تر کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ آج یورپ تک کے جامعات واداروں میں مسلمانوں کی تصنیف کردہ کتابیں نصاب میں شامل ہیں۔”
انگریزی اسکولوں میں پڑھنے والے ان معصوم وننھے بچوں کو اسلامی تعلیمات کے خلاف جانے سے بچانے کی اشد ضرورت ہے.آج عیسائ مشینریاں نرسری سے لیکر دسویں تک منظم انداز اسکول چلاتی ہیں ان کابنیادی مقصد اپنے مشن کو فروغ دینا ہوتا ہے. شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں مشنری اسکولوں کا جال پھیلا ہوا ہے.

سینے میں رہے راز ملوکانہ تو بہتر.
کرتے نہیں محکوموں کو تیغوں سے کبھی زیر.
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اسکی خودی کو.
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر.
بچوں کا ذہن کورے کاغز کی طرح ہوتا ہے جو چاہوں ان کے ذہن ودماغ میں بیٹھا دو معصوم ذہن جلد قبول کر لیتے ہیں.
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں پاکر دین و دنیا میں سر بلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ دنیا کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوگئے۔ آج ہندوستان میں عربی مدارس، مکاتب وتعلیمی ادارے طاغوتی طاقتوں وشیطانی عناصر کے نشانہ پر ہیں ، قوم، مسلم کو کمزور کرنے کے در پہ ہیں۔ہمیں دیگر اقوام کے مقابلے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہوگا.بچوں کی تعلیم وتربیت پر غیر معمولی توجہ دینا انتہائ ناگزیر ہے.. تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں اور جماعتوں نے ترقی اور عروج حاصل کیا ہے تو تعلیم کے ذریعہ .آج کے دور میں 5فیصد عربی مدارس میں طلبہ زیر تعلیم ہیں. طلبہ کو گمراہ کرنے کی منصوبہ بند سازشیں بھی ہیں. کی عربی مدارس کو بھی خالص عصری علوم کا مرکز بنا دیا جائے.یہ فاسد خیال اور بیہودہ بات ہے.مغربی تعلیم سے متاثر ہوکر بہت سارے لوگ عصری علوم پر ہی زور دے رہے ہیں جس کی بنیاد ہی مادیت پر ستی ہے. اس سے مسلم نوجوانوں کے عقائد متزلزل ہو جاتے ہیں لادینیت والحاد کی طرف لے جاتے ہیں
شکایت ہے مجھے یا رب خُداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی. علامہ اقبال نے.مدارس ومکاتب کے بارے میں کہاتھا
"جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرےقلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتےہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کےمسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کےدوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنےکےبعد میری رائےبدل گئی، ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنےدو، غریب مسلمانوں کےبچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنےدو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہےتو جانتےہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا اسےمیں اپنی آنکھوں سےدیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کےمسلمان مکتبوں کےاثرسےمحروم ہو گئےتو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کےباوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کےکھنڈر اور الحمراءاور باب الاخوتین کےسوا اسلام کےپیرواں اور اسلامی تہذیب کےآثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کےتاج محل اور دہلی کےلال قلعہ کےسِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا۔
کل ایک شوریدہ بارگاہِ نبی پہ رُورُو کےکہہ رہا تھا : کہ مصروہندوستان کےمسلم بِنائےملت مٹارہےہیں
غضب ہےیہ رہبران خودبیں خدا تری قوم کو بچائے: مسافرانِ رہِ حرم کو رہِ کلیسا دکھا رہےہیں.

عربی اداروں میں نصاب تعلیم کی اصلاح کی ضرورت ضرورہے ہے.انگلش بیشک رابطے کی زبان ہے انگلش زبان عربی اداروں میں پڑھائ جاتی ہے لیکن انگلش کے اساتذہ کمزور رکھے جاتے ہیں رسمی طور پر ہی تعلیم دی جاتی ہے. جبکہ عربی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی کی بھی ٹھوس تعلیم ہو نی چاہئیے کمپیوٹر بھی سکھایا جاتا ہے. کمپیوٹر کی بھی ٹھوس تعلیم ضروری ہے. تو عربی مدارس کے طلبہ بہت ہی کامیاب ہوں گے.عربی مدارس کے فارغ التحصیل ملک وبیرون ملک میں اچھے عہدوں ہر فائز ہیں.
اللہ کے فضل وکرم سے اس وقت عربی اداروں میں تبدیلیاں آئ ہیں.
علم کی ابتداء ہے ہنگامہ.
علم کی انتہا ہے خاموشی.
عربی مدارس ،جامعات و اداروں سے خطیب، مقرر، صحافی، محدث، مفسر ،ادیب،داعی، مبلغ دین خادم اسلام مترجم مولف مصنف وشاعر سماجی ورکر پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے.انگلش میڈیم کے طلبہ مفسر قرآن محدث بن سکتے ہیں نہیں ہرگز نہیں. عربی اداروں سے ہی یہ پروڈکٹ تیار ہوسکتے ہیں.
علماء کو اپنا کام کرنے دیں اللہ کے واسطے عصری علوم کا خواب دکھا کر گمراہ نہ کریں.
تعلیم کے الگ الگ شعبے ہیں جس شعبے سے طلبہ کو دلچسپی ہے لگاؤ ہے اس شعبے کو اختیار کریں ایک شخص تمام علوم وفنون کا ماہر نہیں ہوسکتا ہے.تعلیم کے الگ اکگ شعبے ہیں. جس کا جو ماہر ہو وہ قوم ،ملت وملک کی خدمت کرے. ترقی وکامیابی قدم بوس ہوگی.
تعلیم سے آتی ہے اقوام میں بیداری.
ہے علم کے پنجے میں شمشیر جہاں داری.
مضمون نگار. المصباح کے ایڈیٹر ہیں.رابطہ9892375177 almisbah98@gmail.com

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter