فلسطین میں اسرائیل کی ظالمانہ اوروحشیانہ کارروائیاں جاری ہیںجس کے خلاف دنیا بھر میں باضمیر افراد مظاہرے کررہے ہیںاور دیگر طریقوں سے اس کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ماضیِ قریب میں فلسطینیوں کے حق کی خاطر لڑنے والوں اور ان کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے والوں میں عیسائی اور یہودی سرفہرست تھے۔نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، حنان اشروی، لیلیٰ خالد اور ایسے کئی دوسرے جن میں سے کوئی بھی فلسطینی مسلمان نہ تھا، ان لوگوں نے دنیا والوں کے ضمیر کی عدالت میں فلسطینیوں کا مقدمہ خوب لڑا ۔اسی طرح ایسی بعض دیگر غیر فلسطینی اور غیر مسلم شخصیات بھی تھیں اور ہیں جنہوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور فلسطینی کاز کے لیے جو ہوسکا وہ کیا۔ ہمارے خِطّے میں بھی بعض ایسی شخصیات ملتی ہیں۔
حسرت، اقبال ،فیض اور فلسطین
ہمارے ادب میں یہ مولانا حسرت موہانی تھے ، جنہوں نے اعلانِ بالفور کے بعد1929میں سب سے پہلے فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی تھی۔پھرعلامہ اقبال نے عربوں کی تقسیم در تقسیم اور فلسطین کے مسئلے کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ اس کے بعد سے اب تک ان ہمارے ان گنت شاعروں اور ادیبوں نے فلسطین کا غم منایا ہے۔
فیض نے فلسطینی بچے کے لیے لوری لکھی:
مت رو بچے …کچھ ہی پہلے تیرے ابّا نے…
اپنے غم سے رخصت لی ہے…مت رو بچے…
تیرے آنگن میں…مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں…
چندرما دفنا کے گئے ہیں…
جالب نےکہا:
روشنیوں کی راہ میں جو دیوار بنے گا…نہیں رہے گا…
غاصب کو غاصب جو کھل کر نہ کہے گا…نہیں رہے گا…
فلسطین کے مسئلے پر احمد ندیم قاسمی ، ابن انشا، ادا جعفری، احمد فراز ، زہرہ نگاہ، کشور ناہید، اسلم فرخی ،فہمیدہ ریاض، شاہدہ حسن اور ہمارے کتنے ہی شاعروں نے قلب و روح کی گہرائیوں سے نظمیں لکھیں ۔الطاف فاطمہ ، خالدہ حسن، انتظار حسین، اور کئی دیگر افسانہ نگاروں نے فلسطینیوں پر ٹوٹنے والے کوہِ ستم اور ان کی دربہ دری کے بارے میں لکھا۔لیکن قرۃ العین حیدر کو اس حوالے سے اوّلیت حاصل ہے کہ انہوں نے 1967میں اپنے افسانے ،’’یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے‘‘، میں ایک نوجوان فلسطینی خود کش بم بار کا قصّہ بیان کیا جو اپنی شناخت چھپانے کے لیے خود کو ایرانی النسل بتاتا تھا۔
اردو میں تخلیقی ادب سے کہیں زیادہ وہ رپورٹیں ، رپورتاژ ، روزنامچے ، نظمیں اور مضامین ہیں جن میں سے بہت سے فلسطینیوں اور کچھ یہودیوں اور امریکیوں نے لکھے اور ہمارے یہاں ترجمہ ہوئے ۔ فلسطین کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا قصہ ادبی تراجم کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچا۔ لیلیٰ خالد، جس نے اسرائیل کا طیارہ اغوا کیا اور پوری دنیا کی توجہ فلسطینیوں کے عذابوں کی طرف مبذول کرائی ، اس کی خود نوشت کا ترجمہ کشور ناہید نے کیا ۔ لیلیٰ نے طیارے کے اغوا کا لمحہ بہ لمحہ جو احوال ڈائری کی صورت میں لکھا،اس کا ترجمہ زاہدہ حنانے کیا۔ محمد کاظم نے فلسطین کی نمودار شاعرہ فدویٰ طوقان کی ڈائری اردو میں منتقل کی۔ ممتاز فلسطینی شاعر محمود درویش کےکلام کا بھی ترجمہ ہوا۔ محمود درویش کی نظم ’’عاشق من الفلسطین‘‘ کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں :
’’ لوٹ آؤ،… تم اب جہاں بھی ہو، جو کچھ بھی بن گئی ہو… میرے بدن … اور چہرے کی گرمائی ، … میرے سنگیت اور رزق کا نمک…مجھے لوٹا دو … زیتون کی کوئی شاخ مجھ سے لے لو،…میرے المیے کی کوئی سطر ،…خیال کی کوئی لڑی…بچپن کا کوئی کھلونا …مصائب کی اس چہار دیواری میں سے کوئی اینٹ …کہ ہمارے بچے، بچوں کے بچے ، رستے کا سراغ رکھیں…اور لوٹ آئیں… تمہاری آنکھیں فلسطینی ہیں …تمہارا نام فلسطینی… تمہارے خواب، خیال، تمہارا بدن، تمہارے پیر… تمہاری چپ، تمہارے بول…تم حیات میں بھی فلسطینی ہو… موت میں بھی فلسطینی رہو گی ۔‘‘
اسی طرح اور بھی بہت کچھ کام ہوا۔ فتح محمد ملک نے اپنے مضمون ،’’ فلسطین ، اردو ادب‘‘ ، میں اس موضوع کو بہت تفصیل سے سمیٹا ہے ۔
جارج حباش
اب تو دنیا کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے،لیکن کسی زمانے میںساری دنیا کے باشعور اور باضمیر شہری نسل، عقیدے، رنگ و زبان کی تفریق کے بغیر فلسطینیوں کے ساتھ تھے۔ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں میں وہاں رہنے والے عیسائی اور معدودے چند یہودی بھی تھے۔ فلسطین کی آزادی اور اس کی زمین کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرانا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ فلسطین کے لیے جدوجہد کرنے والے یہ نہیں سوچتے تھے کہ ان کا مذہب کیا ہے، وہ مسلمان تھے، عیسائی یا ارمنی تھے، اس سے کسی کو غرض نہیں تھی، مسئلہ فلسطین کی آزادی کا تھا۔
جارج حباش کے پاپولر فرنٹ سے وابستہ لیلیٰ خالد، دنیا جس کے حوصلے، استقامت اور جان ہتھیلی پر رکھ کر طوفان میں کود جانے کی ادا پر نثار تھی۔اگرچہ پیدایشی طور پر فلسطینی ہیں ،لیکن چار برس کی عمر میں انہوں نے ارض فلسطین چھوڑدی تھی۔یہاں اُن کا تذکر اس لیے کہ وہ ایک غیر مسلم کی تحریک کی رکن تھیں ،دوم ان کے بغیر تحریکِ آزادیِ فلسطین کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔لیلیٰ خالد کو اپنے مقصد سے دیوانگی کی حد تک وابستگی تھی، اسی لیے وہ ایک پلاسٹک سرجن کے پاس جا پہنچیں اور اسے مجبور کردیا کہ وہ ان کے چہرے کو بدل دے۔ اس خوب رو لڑکی کے چہرے کا چھ مرتبہ آپریشن ہوا جس کے بعد اس کا چہرہ لوگوں کو دھوکا دینے کے قابل ہوا۔ اپنے وطن اور اپنے لوگوں سے کسی لڑکی کا اتنا گہرا پیمانِ وفا اس سے پہلے بیسویں صدی کی متعدد تحریکوں میں نظر نہیں آتا۔
وہ فلسطینی جدوجہد آزادی کا وہ چہرہ تھی جسےدنیا کے بیش ترحلقے ’’دہشت گرد‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ حنان اشروی کا معاملہ دیگر ہے۔ وہ سیاسی اور سفارتی محاذ پر فلسطین کی آزادی کا مقدمہ لڑتی رہیں۔ یاسر عرفات کے قریبی ساتھیوں میں سےتھیں، لیکن جب حماس نے اس جدوجہد آزادی کو جہاد سے جوڑ دیا تو حنان اشروی نے بھی اس سے کنارہ کشی کی۔امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےامریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کے اعلان کے بعدحنان اشروی جو اس دوران پس منظر میں چلی گئی تھیں، وہ آتش زیرپا ہو کر ایک بار پھر فلسطینی جدوجہد کے پیش منظر میں آئیں اور لگی لپٹی رکھے بغیر کہا: ’’مسٹر ٹرمپ! یروشلم کے بارے میں آپ نے غلطی کی ہے‘‘۔ ان کا کھلا خط نیویارک ٹائمز میں شایع ہوا جس میں انہوں نے لکھا کہ اس طرح اسرائیلی افسر شاہی کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر فلسطینیوں کے گھروں اور ان کی زمینوں پر ناجائز قبضے کرے اور ان کے انسانی، جمہوری اور شہری حقوق کو اپنے قدموں تلے روند دے۔ حنان نے لکھا کہ بہت سے خوش امید لوگوں کا وہ خواب خاک میں مل گیا ہے جو وہ دو ریاستوں کے بارے میں دیکھتے تھے۔
تقریبا ایک دہائی قبل اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے مزاحمت کرنے والی نوجوان کینیڈین لڑکی کوری پُرامن احتجاج میں شامل ہوئی اور پھر اسرائیلی ٹینکوں نے اسے روند ڈالا اور پوری دنیا میں کوری امن اور آزادی کی علامت کے طور پر جانی جانے لگی۔
ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں ایک نرم و نازک اوردبلی پتلی فلسطینی لڑکی نے ویسی ہی شہرت پائی تھی جیسی چے گویرا کو نصیب ہوئی تھی۔ مسیحی جارج حباش کی بنائی ہوئی تنظیم پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کی اس رکن نے 1969 اور 1970 میں دو جہاز یکے بعد دیگرے اغوا کیے تھے اور وہ تاریخ کی پہلی خاتون ہائی جیکر قرار پائی تھی۔
لیلی خالد نو اپریل1944کو حیفہ میں پیدا ہوئیں اور1948میں اسرائیل کے قیام کے وقت کی جانے والی یہودی دہشت گردی کی وجہ سے اس کے خاندان کو اپریل 1948میں اپنا گھر چھوڑ کر لبنان جانا پڑاتھا۔ پندرہ سال کی عمر میں لیلی خالد نے جارج حباش کی عرب قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اگست 1969 میں تنظیم کو اطلاع ملی کہ امریکا میں اسرائیل کے سفیر اسحاق رابن (بعد میں اسرائیل کے پانچویں وزیراعظم بنے) روم سے 29 اگست کو تل ابیب جانے والی ٹرانس ورلڈ ائیرلائنز کی فلائٹ 840 میں سفر کریں گے۔
لیلی خالد اور ان کے ساتھی سلیم عیساوی نے یہ جہاز اغوا کر لیا اور اسے دمشق لے گئے۔ ان کو یہ علم ہوا کہ اسحاق رابن جہاز میں موجود نہیں ہیں تو انہوں نے تمام مسافروں کو جہاز سے اتار دیا اور جہاز کا اگلا حصہ بم دھماکے سے تباہ کر دیا۔ شامی صدر نور الدین الاتاسی نے دونوں ہائی جیکروں کو رہا کر دیا۔ ہائی جیکنگ کے دوسرے واقعے میں جہاز کو لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ پر اتارا گیا اور لیلی اٹھائیس دن تک حراست میں رہیں، اس کے بعد اسے جارج حباش کی تنظیم کے قبضے میں موجود مغربی قیدیوں کے تبادلے میں رہا کر دیا گیا۔
ریڈیکل فلسطینی تنظیم پایولر فرنٹ فار دی لبریشن آف پیلسٹائن (پی ایف ایل پی) کے بانی جارج حباش فلسطین کے علاقے لیڈا میں 2 اگست 1926 میں پیدا ہوئے جو اب اس اسرائیل میں ہے اور اسے لُد کہا جاتا ہے۔ 1948میں جنگ شروع ہوئی تو انہیں وہ علاقہ چھوڑنا پڑا۔ان کا تعلق مسیحی مذہب سے تھا، لیکن وہ سیکولر عرب نیشنل ازم پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے طب کی تعلیم حاصل کی تھی۔ 1951میں عرب نیشنلسٹ موومنٹ بنائی جو بعد میں دیگر گروہوں کے ساتھ مل کر پی ایف ایل پی بنی۔
1960 کی دہائی میں پی ایف ایل پی نے اپنے حملوں میں تیزی پیدا کی اور فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر روشناس کرایا۔ پی ایف ایل پی نے شروع ہی سے عرب۔ اسرائیل امن مذاکرات اور دو ریاستی منصوبے کی مخالفت کی۔حباش اسرائیل سے مذاکرات کرنے پر اکثر یاسر عرفات پر تنقید کرتے رہتے تھے۔ اسرائیل نے کئی برس تک کوشش کی کہ کسی طرح جارج حباش کو گرفتار کرلیا جائے، لیکن اسے اس میں ناکامی ہوئی۔
ان کی سربراہی میں پی ایف ایل پی ایک شدّت پسند گروہ کے طور پر ابھری تھی جس ننے کئی مرتبہ جہاز ہائی جیک کیے تھے۔ ستمبر 1970میں اس گروہ نے چار جہاز ہائی جیک کیے اور پھر مسافروں کو نکالنے کے بعد پوری دنیا کے ذرایع ابلاغ کے سامنے ان جہازوں کو بموں سے اڑا دیا تھا۔ گروپ نے ایک اسرائیلی جہاز اور اس کے عملے پر بھی فائرنگ کی، بم چلائے اور ایک مرتبہ تو ویانا میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے ارکان کو ایک میٹنگ میں یرغمال بنا لیا تھا۔ 80 سال کی عمر میں 26 جنوری 2008 کو دل کا دورہ پڑنے سے لبنان میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
لیلی خالد فلسطین کی اسکول ٹیچر تھی بم آکر گرنے سے معصوم بچوں کو تڑپتے مرتے دیکھ کر اس نے مجاہدہ بننے کا عزم کیا اور پھر گوریلا جنگ کی ایسی تاریخ لکھ دی جو صدیوں کوئی نہیں لکھ سکے گا ۔اس کی دیدہ وری کی انتہا یہ تھی کہ وہ جہاز کو اغوا کرکے اسرائیل لےجاتی ہے اور اسے زمین سے قریب لاکر ببانگ دہل اعلان کرتی ہے کہ وہ فریدہ بو غزالی ہے جسے ظالمو!تم نے تیزاب ڈال ڈال کر اس کے گوشت کو بہایا تھا اسے اذیتیں دی تھیں۔آج اس کے ہر قطرے سے نئی فریدہ پیدا ہورہی ہے۔
فسطینی مجاہدہ اور غازیہ لیلیٰ خالد کی عمراب تقریبا چھہتّر برس ہے۔ وہ اپنے شوہر ڈاکٹر فیاض راشد ہلال اور دو بیٹوں بدر اور بشار کےساتھ اردن کے دارالحکومت عمان میں رہتی ہیں۔بڑھاپے میں بھی امریکااور اسرائیل کے خلاف آئینی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے ۔ اب بھی اسرائیل کی بربادی اور فلسطینیوں کو ان کے وطن کی واپسی کےلیے قانون کے دائرے میں اپناتن، من، دھن قربان کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ مگر جب وہ مشہور ہوئیں ، مخصوص نقاب اور اے کے 47-رائفل کے ساتھ ان کی تصویر دنیا بھر کے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کی زینت بنی اُس وقت اُن کی عمر 25سال تھی۔
لیلیٰ خالد اگرچہ ارض فلسطین کے شہرحیفہ میں پیدا ہوئی تھیں لیکن چار برس کی عمر میں والدہ کے ساتھ ہجرت کرکے لبنان آگئی تھیں اور والد فلسطین ہی میں رہ گئے تھے۔اُن کے ساتھیوں نے 1968ء اور 1971ء کے درمیانی عرصے میںچارجہازاغواکیے۔ لیلیٰ خالد نے پہلا جہاز 29اگست 1969ء کو اغوا کیا یہ بوئنگ 707جہاز تھاجو اٹلی کے شہر روم سے تل ابیب جا رہا تھا۔ جہاز دمشق میں اتار لیا گیا۔ مسافروں کو یرغمال بناکر فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کی گیا۔
پوری دنیا کی توجہ فلسطینیوں پر صہیونی مظالم کی طرف مبذول ہوئی ۔ مذاکرات کے بعد اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ہائی جیکروں کی بہ حفاظت واپسی کی شرائط پر تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔ دنیا بھر کے ٹیلی وژن چینلز اور اخبارات نے لیلیٰ خالد کے انٹر ویو نشر اور شایع کیے۔دوسرا جہاز چھ ستمبر 1970ء کو اغوا کیا۔ یہ بھی بوئنگ جہاز تھا جو ایمسٹر ڈم سے نیویارک جارہاتھا ۔
بغداد کے بعدجہاز کا رخ لندن کی طرف موڑ دیا گیا۔ ہیتھرو ایئر پورٹ پر لیلیٰ کو گرفتارکرلیا گیا۔ ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ فلسطینی جان بازوں نے ایک اور طیارہ اغوا کیا۔ مسافروں کو یرغمال بنایا۔ مذاکرات کی میز پر لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ یوں لیلیٰ خالد کو قید سے رہائی ملی۔
فیض اور فلسطینی کاز
پاکستانی ادب کی عالمی شناخت کے حوالے سے فیض احمد فیضؔ کا شمار اُن عہد ساز شعرا میں کیا جاتا ہے جن کے حرفِ زندہ نے شعری اعتبار کی کائنات کو نت نئے مفاہیم سے آشنا کیا۔ علامہ اقبال کے بعد فیض احمد فیضؔ انسانی درد مندی کے جذبے سے سرشار ایسے شاعر ہیں جن کی فلسطین اور تحریکِ آزادیِ فلسطین سے تعلق کی بہت سی جہتیں ہیں۔مسئلۂ فلسطین اور فلسطین کی تحریک آزادی سے فیضؔ کی وابستگی عملی ہے۔ وہ ایک طویل مدت تک لبنان کے دارالحکومت بیروت میں رسالے’’لوٹس‘‘ کے مدیر رہے جو افریقا اور ایشیا کے ادیبوں کا ترجمان تھا۔
فیضؔ صاحب کو لوٹس کی ادارت کی پیشکش یاسر عرفات کے مشیرِ ثقافت اور معروف شاعر معین بسیسو نے کی، لیکن فیضؔ صاحب نے اس دعوت کو تب قبول کیا جب انہیں یاسر عرفات کی طرف سے باقاعدہ اس کی دعوت دی گئی۔ یوں یاسر عرفات کی درخواست پر وہ لوٹس کے ایڈیٹر بن کر بیروت چلے گئے اور جب تک بیروت پوری طرح نہیں اُجڑا حتیٰ کہ وہ مکان جہاں فیضؔ رہتے تھے بم باری سے تباہ نہیں ہو گیا، فیضؔ بیروت میں ہی رہے۔
فیضؔ صاحب کی فلسطین اور فلسطینی تحریکِ آزادی سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فیضؔ کے انتقال کے بعد یاسر عرفات نے ایک تعزیتی مضمون لکھا ۔اس میں یاسر عرفات اپنا خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’فیض احمد فیضؔ میرے دوست تھے اور جنگِ بیروت میں میرے رفیق تھے۔ اس دہکتے جہنم میں بھی ان کے چہرے کی لازوال مسکراہٹ ماند نہیں پڑی اور ان کی آنکھیں ناقابل شکست عزم و یقین سے دہکتی رہیں۔ بلا شبہ فیض احمد فیضؔ ہمیں چھوڑ گئے، لیکن ہمارے دلوں میں محبت کا اَن مِٹ نقش چھوڑ گئے۔ انہوں نے انقلابیوں، دانش وروں اور فن کاروں کی آنے والی نسلوں کے لیے بے نظیر اثاثہ چھوڑا ہے۔
1967میں فلسطین پر اسرائیلی جارحیت نے جہاں عالم اسلام کی ہر آنکھ کو اشک بار کر دیا وہاں فیضؔ کو اس جارحیت پر وادیِ سینا آتش و آہن کی بارش کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ وہ اس برستی آگ کو برقِ فروزاں کہتے ہیں اور لپکتے ہوئے شعلوں کو جن میں امن کی فاختہ کے پر جل گئے وہ ))رنگ پہ ہے شعلۂ رخسارِ حقیقتٌٌ کہہ کر دنیا بھر کے دانش وروں کو سوچنے کا عندیہ دیتے ہیں:
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا
پِھر رنگ پہ ہے شُعلۂ رُخسارِ حقیقت
فیضؔ کے آخری مجموعے’’مرے دِل مرے مسافر‘‘ کاانتساب یاسر عرفات کے نام ہے۔اس مجموعے کی کئی نظمیں فلسطین کے لیے ہیں۔ ان میں پہلی نظم ’’فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے‘‘ ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ ظالموں نے تو صرف ایک فلسطین برباد کیا ہے مگر میرے زخموں کی دمک سے تو کئی فلسطین آباد ہو گئے ہیں۔
صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں میں پناہ گزیں معصوم اور نہتے فلسطینیوں پر ٹینکوں اور توپوں کی مدد سے ہونے والی اسرائیلی جارحیت نے اسرائیل کی بدنامِ زمانہ دہشت گردی کا سارا چہرہ بے نقاب کر دیا تھا۔ فیضؔ کی نظم ’’فلسطینی بچے کے لیے لوری‘‘میں اِس وحشت اور بربریت کے باعث ہونے والی تباہ کاری کی پوری منظر کشی کی گئی ہے کہ اس قیامت خیز فائرنگ میں دودھ پیتے بچے تک موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور اُن کے لہو میں لتھڑے ہوئے معصوم ٹکڑوں پر اسرائیلی فوج کا رقصِ ابلیس ہر آنکھ کونم ناک کر گیا۔
فیضؔ کی پندرہ جون 1983 کو لکھی گئی ایک نظم ’’ایک ترانہ مجاہدین فلسطین کے لیے‘‘میں فیضؔ ننگی جارحیت کے بالمقابل اپنے لہو کے دِیپ جلا کر ارضِ فلسطین کی راہوں کو اُجیارنے والے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔فیض کا مجموعۂ کلام ‘’’مرے دل مرے مسافر‘‘ ایک طرح سے قیامِ بیروت کی یادگار ہے۔ اس مجموعے کو انہوں نے یاسر عرفات کے نام معنون کیا ہے۔ اس میں کئی نظمیں بیروت اور اہلِ فلسطین کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح فیض کی کلیات’’ ‘نسخہ ہائے وفا‘‘کا آخری حصہ جو ’’غبارِ ایام‘‘ کے نام سے موسوم ہے، بیروت کی یادگار نظموں کا حامل ہے۔ فیض نے زندگی کے آخری دور میں بیروت ہی سے تعلق رکھا۔
ڈاکٹر اقبال احمد
اقبال احمد محقق، استاد، مصنف اور انٹرنیشنل پولیٹیکل ایکٹیوسٹ کے طور پر انیس سوساٹھ کی دہائی سے مغربی دنیا میں ایک معروف شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ وہ بھارت کی ریاست بہار میں 1932 میں پیدا ہوئے ۔ عمر چار برس تھی تو اُن کے والد کو زمینوں کے ایک تنازع کی وجہ سے سوتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا۔اقبال اُس وقت اپنے باپ کے پہلو میں سو رہے تھے اور اس خونریز واقعے نے اُن کو ہمیشہ ایک صدمے کی کیفیت میں رکھا۔1948 میں اُن کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آگیاتھا۔ انہوں نے ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اُس کے بعد روٹری اسکالرشپ ملنے کے بعد وہ کیلی فورنیا میں مزید تعلم حاصل کرنے کے لیے امریکا چلے گئے۔
ایک پُرجوش مصنف کی حیثیت سے اقبال احمد نے مغرب اور ان کی سابق نوآدیوں کے آزادی کے دور کے تعلقات کے بارے میں کافی کچھ لکھا۔ دنیا بھر کے عوام کی بہتری اور اُن کی بھلائی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اسی لیے وہ جنگوں اور تشدد کے بہت مخالف تھے چاہے یہ تشدد ریاستی ہو، نظریاتی ہو یا بنیاد پرستوں کی وجہ سے ہو۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین ، فلسطینیوں کی جدوجہد اور اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیوں پر بھی لکھا۔ اسی لیے معروف فلسطینی مستشرق ایڈورڈ سعید نے اپنی ایک کتاب ’’کلچر اینڈ امپریریل ازم‘‘ کو اقبال احمد کے نام کیا تھا۔
الجزائر اور فلسطینی تحریک آزادی کے بلند آہنگ حامی ہونے کے سبب عرب دنیا میں ان کا مقام اس قدر تھا کہ عرب ریستورانز کے مالک یہ کہہ کران سے بل لینے سے انکار کر دیا کرتے تھے کہ ہم اپنے محسنوں سے بل نہیں لیتے۔ ایڈورڈ سعید اور ابراہیم ابولغید جیسے متعدد عرب دانشور آپ کے بہت قریبی دوست تھے۔ ایڈورڈ سعید اقبال احمد کو ‘گرو’ کہا کرتے تھے۔ اقبال احمد کی زندگی کا ایک اور اہم باب ویتنام کی جنگ کے خلاف تحریک میں ان کا مرکزی کردار ہے۔ اس دوران امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے اغواء کی سازش کے الزام میں انہیں سات مسیحی مذہبی شخصیات کے ساتھ ایک مشہور مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر عدالتوں نے اقبال احمد کو بری کردیا۔
نوم چومسکی
اَورام نؤام چومسکی (پیدائش 7 دسمبر 1928) ایک یہودی امریکی ماہر لسانیات، فلسفی، مؤرخ، سیاسی مصنف اور لیکچرر ہیں۔ ان کے نام کا اولین حصہ اَورام دراصل ابراہیم کا عبرانی متبادل ہے۔ وہ مشہور زمانہ می ساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شعبہ لسانیات میں پروفیسر ہیں اور اس ادارے میں پچھلے 50 سالوں سے کام کر رہے ہیں۔ چومسکی کی خاص وجہ شہرت ان کی امریکی خارجہ پالیسی اور سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید رہی ہے۔ وہ سو سے زیادہ کتابوں کے خالق ہیں۔ دنیا بھر میں انہیں لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ ان کی ایک کتاب دنیا کس طرح کام کرتی ہے نے بڑی شہرت پائی۔
نوم چومسکی کی پہلی پہچان یہ ہے کہ وہ ماہر لسانیات ہیں۔ تا ہم ان کی کی سیاسیات کے موضوع پر تحریروں نے بھی عالمی توجہ حاصل کی۔وہ اس عالمی جدوجہد کے ایک مفکر اورمتحرک رکن ہیں جو نہ صرف ریاستی دہشت گردی بلکہ اقتصادی دہشت گردی کے بھی مخالف ہیں۔انہوں نے1983میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان محاذ آرائی کی وضاحت اپنی کتاب ڈی ٖفیٹ فل ٹرائی اینگل میں کی۔
انہوں نے امریکا کو اس کا اصل ذمے دار قرار دیا۔انہوں نے متاثر شدہ علاقوں کا دورہ بھی کیا اور اسرائیل کی جارحیت کے گواہ بنے۔انہوں نے 2010 میں جن کتابوں کی اشاعت کی اُن میں سے دو اہم غزہ ان کرائسز اور ہوپس اینڈ پراسپکٹس ہیں۔ 2016 میں انکی نئی کتاب ہو رولز ڈی ورلڈ شائع ہوئی۔ 1928ء میں وہ یہودی تارکین وطن کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ 1970ء کی دہائی سے انہوں نے بین الاقوامی سیاست میں امریکی مداخلت ، شہری اور انسانی حقوق اور دنیا بھر کی مظلوم اقوام کے لیے انصاف کے حصول جیسے اہم موضوعات پر امریکی حکم رانوں سے کھل کر اختلاف کرنا شروع کر دیا تھا۔ امریکا کے ایک مشہور اور معتبر تعلیمی ادارےایم آئی ٹی سے وابستہ ہونے کے باوجود انہوںنے امریکی حکم رانوں سے اختلاف کرنے اور اسرائیل کی صہیونی پالیسیوں اور فلسطین دشمن رویوں پر شدید تنقید کرنے کا کوئی بھی موقعہ کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
نوم چومسکی نے یوں تو بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن ان کی ایک مختصر کتاب کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی What Uncle Sam Really Want۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ1992میں شایع ہوئی اور 2000 تک انگریزی میں اس کتاب کے بارہ ایڈیشن چھپ چکے تھے اور اس کی 1,66,000 کاپیاں فروخت ہوچکی تھیں۔ اس کتاب کے اب تک دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ اردو میں بھی اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔
ایڈورڈ سعید
عالمی شہرت کے حامل نابغۂ روزگار ادیب ایڈورڈ سعید (1935-2003) نے پچیس ستمبر 2003کو نیویارک میں دنیا کو خیر باد کہا۔انسانیت کے وقار،سر بلندی اور فلسطینی عوام کے حقوق کا ایک بے باک حامی داغِ مفارقت دے گیا ۔علم و ادب کے شائقین اور وسیع المطالعہ ادبی حلقوں میں اس دانش ور کے کام کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ پس نو آبادیات ،مابعد جدیدیت اور مشرق و مغرب کے بدلتے ہوئے ادبی رجحانات پر گہری نظر رکھنے والے اس جری نقاد کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ،اُسے عالمی ادبیات میں شدت سے محسوس کیا گیا۔
ایڈورڈ سعید نے گزشتہ صدی کی تاریخ،معاصر ادبی رجحانات ،لسانی تغیرات،فکر و فلسفہ اورعالمی کلاسیک کا وسیع مطالعہ کیا تھا ۔ان کا شمار بیسویں صدی کے اُن رجحان ساز ادیبوں میں ہوتاہے جنہوں نے ہوائے جور و ستم میں بھی حریت ِ فکر و عمل کا علم بلند رکھنے پر اصرار کیا ۔امریکا اور اسرائیل کے خلاف ایڈورڈ سعید کا دبنگ لہجہ جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتا تھا ۔انسانیت کی عزت و تکریم ،سر بلندی ،انسانی حقوق اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے موضوع پر اس کا دبنگ لہجہ اس کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔
ایڈورڈ سعید (Edward Wadie Said)یکم نومبر 1935کو یروشلم میں پید ہوئے ۔ والد واڈی ابراہیم ( Wadie Ibrahim)ایک متمول تاجر تھے۔ والدہ ہلڈا سعید ( Hilda Said)کی دلی تمنا تھی کہ وہ اپنے لختِ جگر کو جنگ زدہ یروشلم کے پر آشوب ماحول سے نکال کر مصر لے جائیں۔عرب ممالک اور اسرائیل کی جنگ(1948) کے زمانے میں حالات سے دِل برداشتہ ہو کر ایڈورڈ سعید کے خاندان نے مصر کی جانب نقل مکانی کی اور قاہرہ میں مقیم ہو گئے ۔
مصر کے شہر قاہرہ منتقلی کے وقت ایڈورڈ سعید کی عمر دو سال تھی ۔ قاہرہ میں ایڈورڈ سعید کے والد نے کتب اورا سٹیشنری کی تجارت کرنے والی ایک فلسطینی کمپنی کے اشتراک سے کام کا آغاز کیا مگرمصر کے بازار میں بھی جب جنس گراں کے خواہاں کم کم نظر آ ئے تو یہ خاندان سال 1951میں امریکا منتقل ہو گیا ۔مگر ایڈ ورڈ سعیدکے خاندان کے باقی افراد قاہرہ ہی میں مقیم رہے ۔ایڈورڈ سعید کی چچی نے فلسطینی پناہ گزینوں کی بحالی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔
ان کی معرکتہ الآرا تصنیف Orientalism, 1978میں شایع ہوئی جس سے وہ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں تک جا پہنچے۔اس کتاب کو بیسویں صدی کی اہم ترین اور موثر ترین تصنیف قرار دیا گیا اور پوری دنیا میں اس کی زبر دست پزیرائی ہوئی۔ اس نے واضح کیا کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور نو آبادیاتی نظام کے اسرار و رموز کی تفہیم کے لیے یہ امر نا گزیر ہے کہ اس کے سامرا جی عزائم کی تہہ تک پہنچا جائے ۔انہوں نےنے امریکا اور اسرائیل کے جا رحانہ روّیے پر کھل کر تنقید کی کیوں کہ ان ممالک کی مسلم اقوام کے بارے میں بیگانگی اور اہانت آمیز طرزِ عمل سے انہیں شدید نفرت تھی۔
آپ کی راۓ