اناؤ/ ایجنسی
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اتر پردیش کے اناؤ میں پولیس کی مبینہ وحشیانہ پیٹنے کے بعد نوجوان کی موت پر ریاستی وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مقتول کا نام فیصل نہ ہوتا اور وہ ہندو ہوتے تو سی ایم یوگی نے ان سے معافی مانگ لی ہوتی۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ دو دن قبل پولیس کی مبینہ پٹائی کے سبب زیر حراست نوجوان کی موت کے بعد اناو میں ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔ اس معاملے میں اب تک دو پولیس اہلکاروں اور ہوم گارڈز کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے۔
نیوز ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے اویسی نے کہا، اگر لڑکے کا نام فیصل نہیں ہوتا اور اس کا نام وویک تیواری جیسا کوئی ہندو نام ہوتا تو یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کنبے سے معافی مانگتی۔ ساتھ ہی مہلوک کے کنبے کے لوگوں کو فورا سابقہ رقم جاری کردی۔ ایسے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ یوپی حکومت ریاست میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہی ہیں۔
اویسی نے آگے کہا کہ یوپی کی 56 فیصدی پولیس بغیر کسی جانچ کے مان کر چلتی ہے کہ مسلم مجرم ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا، مسلمانوں کے لئے نفرت ریاست کے مسلم نوجوانوں کیلئے ہوپی پولیس میں جھلکتی ہے۔ یہ ہوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی یوپی میں بی جے پی حکومت پر ایک اور کالا دھبہ ہے۔
کیا ہوا تھا اناؤ میں؟
کہا جارہا ہے کہ کورونا کرفیو میں سبزی مینڈی میں سبزی کا ٹھیلہ لگانے پر سبزی بیچنے کا فیصلے کو سپاہی وجے چودھری نے ٹوک دیا جس پر دونوں میں بحث ہو گئی اور سپاہی نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کا حوالہ دیکر تھپڑ جڑ دیا۔ الزام ہے کہ سپاہی بلیٹ بائک سے سبزی بیچنے والے کو کوتوالی لے گئے۔ یہاں فیصل کو جم کر مارا پیٹا گیا۔ اس کے بعد سبزی بیچنے والے کی طبیعت بگڑ گئی۔ پولیس اہلکار آنا فانا میں انہیں اسپتال لیکر گئے جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔ فیصل کی موت ہونے پر سپاہی موقع سے بھاگ نکلے۔ اس دوران کسی نے مہلوک کے اہل خانہ کو اطلاع دی تو موقع پر سیکڑوں کی تعداد میں بھیڑ جمع ہوگئی۔
آپ کی راۓ