علم کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ کمپیوٹراور انٹرنیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے ، علم کی حقیقت کسی صاحب عقل و خرد، کسی صاحب بصیرت و بصارت سے مخفی و پوشیدہ نہیں، علم وہ نور ہے، جو صرف صاحب علم ہی کو نہیں، بلکہ پورے افراد خانہ، اہل قریہ، قوم و ملت، ملک و بیرون ملک کے تمام افراد کو اپنی ضیا پاشی سے نوازتا ہے، تہذیب و تمدن، سلیقہ و متانت، معاشرے میں جینے کا سلیقہ و ڈھنگ سکھلاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر انسان کو انسانیت کے ساتھ جینے کا اصول و ہنر بتاتا ہے، علم نے ہی انسان کو زمین سے آسمان تک پہنچایا۔ اسی کے ذریعہ سے وہ ظلمت و ضلالت، گمرہی و تاریکی کے دلدل سے نکل کر علم و ہدایت، نور و روشنی سے سیراب ہوا، علم سے ہی انسان نے اخوت و محبت ، عدل و انصاف، مساوات و رواداری کا ڈھنگ سیکھا، علم نور و ہدایت کا بہترین سنگم ہے، جس سے پوری دنیا راہ یاب ہو رہی ہے، علم نے ہی انسان کو جہاں بانی و جہاں بینی کا سلیقہ سکھایا، علم نے ہی معاشرے کو امن و آشتی اور چین و سکون کا ماحول بخشا، علم ہی نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا، علم ہی وہ تحفہ ہے جو پہلی وحی کی شکل میں انسان کو نصیب ہوا۔
اللہ تعالی فرماتا ہے، اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ[1] خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ[2] اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ[3] الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ[4] عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ[5]۔ علم ہی کی بدولت اللہ نے انسان کو نبی کا حقیقی وارث قرار دیا۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا، "إنما يخشي الله من عباده العلماء ” اور حديث میں آتا ہے، "العلماء ورثة الأنبياء ” علم ایسی دولت ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا، جو خرچ کرنے سے کھبی گھٹتا نہیں، بلکہ اس میں اور اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔
ایک طرف تو علم کی اتنی اہمیت و افادیت ہے لیکن اس کے برعکس جب ہم اپنے گردونواح پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں مسلمانوں میں تعلیم یافتہ طبقہ کا فقدان نظر آتا ہے، اور ہمارا معاشرہ جہالت کی دلدل میں جکڑا ہوا نطر آتا ہے، ہم اسلامی تعلیمات اور عصری علوم سے کوسوں دور ہوتے چلے جا رہے ہیں، جبکہ تعلیم و تعلم کا وسیع تر تصور (Concept) چھٹی صدی عیسوی میں اسلام نے ہی پیش کیاتھا ۔ اس کے لئے اللہ تعالی نے قرآن مجید کی پہلی آیت نازل کرکے دنیا کو یہ تصور دیا کہ یہ جو دور آنے والا ہے، وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہوگا، اہل علم و دانش و بینش کا دور ہوگا، اور جو صاحب بصیرت و بصارت ہونگے انکا ہی سکہ چہار دانگ عالم میں چلے گا، اس کے لئے اللہ تعالی نے پہلی وحی میں ہی لفظ اقرا کا استعمال کرکے واضح کردیا ، اور اس مشن کو عملی جامہ پہناتے ہوئے غزوہ بدر کے بعد جو سب سے پہلا قدم اٹھایا گیا تھا، وہ تھا تعلیمی مہم (Educational Campaign ) اور ساتھ ہی ساتھ "طلب العلم فريضة علي كل مسلم و مسلمة” تعلیم ہر ایک کے لئے (Education for All) کا نعرہ دیا۔
تقریبا بارہویں یا تیرہویں صدی کا دور تھا، یورپ تاریکی اور جہالت کے دلدل میں زندگی گزار رہا تھا، اور تقریبا 1187 میں فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں سے شکست کھانے کے بعد یورپ کے ماہرین جنگ اور دانشوروں نے سوچا کہ ہم مسلمانوں شکست نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس روحانی اور عسکری طاقت ہے، ہم عسکری طاقت کا مقابلہ عسکری طاقت سے کر سکتے ہیں، مگر روحانیت کا مقابلہ روحانیت سے نہیں کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم روحانیت سے یکسر خالی ہیں، اس لئے ہمیں تھرڈ فرنٹ کے طور پر تعلیم کے راستے کو اختیار کرنا ہوگا، کیونکہ ہم مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں شکست دے سکتے ہیں۔
اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے یورپ نے مسلمانوں کے درس گاہوں کا رخ کیا اور مسلمانوں کے علمی مراکز سے اپنی علمی تشنگی کو بجھا کر اپنے ٹمٹماتے علمی دیے کو روشن کیا اور مسلم سائنٹسٹ، فلسفی، ریاضی داں، میپ میکر، اور بڑے بڑے اسکالر (Scholar and intellectual) سے ایک یا دو دن نہیں بلکہ تقریبا تین سو سال تک استفادہ کیا، مسلمانوں کے سارے علوم و فنون کا اپنی زبان میں ترجمہ کیا، اس کے بعد اپنے ملک کا رخ کیا اور وہاں جاکر تعلیم گاہوں اور یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھا، اور مسلسل پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ آج وہ تعلیم و تعلم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جس بلندی کو چھو رہے ہیں وہ کسی بھی کس و ناکس سے مخفی نہیں، اور ہم اپنی نا اہلی اور خستہ حالی کا رونا رو رہے ہیں، لیکن ہمیں افسوس نہیں کرنا ہے بلکہ تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے یہ طے کرکے اٹھنا ہے کہ علم ہی ایک ذریعہ اور ہتھیار (weapon and tool) ہے، جس سے ہم کامیابی و کامرانی کی منزل طے کرسکتے ہیں اور کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
اور یہ بات ذہن اور دماغ میں پیوست کرتے چلیں کہ اگر نیپال کے مسلمان اپنی آئندہ نسل کو کامیاب، ترقی کے راہ پر گامزن، اور حکومتی نظم و نسق ( administrative ) میں حصہ دار دیکھنا چاہتے ہیں تو انھیں ابھی سے ہی ٹھوس اور مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ تعلیم ہی قوم کی ترقی کا ضامن اور اس کے مستقبل کا راز ہے، جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر و سائنس اکیسویں صدی کا وہ قلم ہے، جو اقرا کے وسیع ترین مفہوم میں شامل ہے، تو ہمیں چاہئے کہ ہم اس جدید ٹیکنولوجی کے میدان میں حصہ لیکر اس میدان کا شہسوار بنیں اورملک نیپال کو مسلم سائنسداں، مسلم صحافی، جرنلسٹ، سیاست داں، ماہر معاشیات، قائد، لیڈر، رائٹر اور ماہر تعلیم فراہم کریں جو ہر میدان میں ہماری نمائندگی کر سکے۔
آج ضرورت ہے ایسے افراد اور ایسی تنظیم کی جو ملک کے چپے چپے میں عصری اور دینی درسگاہیں قائم کریں اور ملک کے مشرق و مغرب اور شمال جنوب میں ایسے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس انسٹیٹیوٹ کا جال بچھائیں، جو صرف اور صرف تعلیم و تعلم کے میدان ہی میں کام کرے، اور اپنے اخراجات سے ہونہار نوجوانوں کو مختلف مقابلہ جاتی امتحانات ( competitive exams) کے لئے تیار کرے، اور اعلی تعلیم کے حصول میں ان کے لیے ہر قسم کی سہولیات فراہم کرے، تاکہ وہ مسلم تعلیم یافتہ طبقہ حکومت کے مختلف و متنوع عہدوں میں ہماری بھر پور قیادت کرسکے۔
آج ضروت ہے ایسے دردمند دل رکھنے والے لوگوں اور انسٹیٹیوشن (institutions) کی جو اقرا کے سبق کو عام کریں، اور یہ طے کرکے اٹھیں کہ ہرسال دس ڈاکٹرس، دس انجینئرس اور دس وکلا ،دس لیڈر، دس ماہر تعلیم پیدا کریں گے، اور نیپال میں بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طرز پر کسی مسلم یونیورسٹی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے۔
اطہر جمیل ندویریسرچ اسکالر ای ایف ایل یونیورسٹی حیدرآباد
آپ کی راۓ