دفعہ 370 کے خاتمے کافیصلہ مودی اور امت شاہ کا اپنا فیصلہ تھا اس تعلق سے کسی سے کوئ مشاورت نہیں کی گئ. پارلیمنٹ کے اندر اپنے عددی اکثریت کی بنیاد پر نہ صرف دفعہ تین سو ستر 370ختم کی گئ بلکہ کشمیر کی ریاست کی حیثیت بھی ختم کردی گئ اور اس کو یونین ٹریٹری(Union Territory) بنا دیا گیا. اس کے بعد سے آج تک کشمیر کی حیثیت ایک جیل جیسی ہے. مستقل لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیر کی معیشت بھی برباد ہوگئ ہے تعلیمی اداروں کے بند ہونے سے نوجوان نسل کا مستقبل بھی تباہ ہورہا ہے.علمی، ادبی ،ثقافتی سماجی سرگرمیاں ٹھپ ہیں. مساجد میں نمازیں باالخصوص نماز جمعہ کی ادائگی کو ناممکن سا بنا دیا گیا ہے.سیاحت کشمیریوں کی روزی روٹی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی یہ انڈسٹری پوری طرح تباہ ہوچکی ہے.
مرکزی حکومت کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ اس نے کشمیر کےتعلق سے جو اندازے قائم کئیے تھے وہ غلط ثابت ہورے ہیں یہی وجہ ہے کی گزشتہ چوبیس جون کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی رہائش گاہ پر کشمیری رہنماؤں کی ایک میٹنگ طلب کی اس میں وہ تما م لیڈران شریک ہوئے جن کو دفعہ تین سو ستر 370 کے خاتمے کےبعد طویل عرصے تک ان کے گھروں میں بند کردیا گیاتھا. جب کشمری لیڈروں کے ساتھ اتنا غکط سلوک کیا گیا تو عوام کےساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا. سچ تو یہ ہے کہ یہ ملاقات تقریبا بے نتیجہ رہی.
یہ تو پہلے واضح کردیا گیاتھا کی دفعہ تین سو ستر کبھی بحال نہیں ہوگا لیکن کشمیر کو مستقل ریاست کادرجہ دینے پر خاموش مفاہمت ہوگئ ہے. امیدکی جانی چاہئیے کی جموں وکشمیر کی ریاست کی حیثیت بحال کر کے کم ازکم پہلا اور بنیادی مطالبہ پورا کرہی دیا جائےگا.
کشمیری ہمیشہ سے ہندستانی رہے ہیں 1965/1971 کی جنگ میں کشمیریوں نے ہندستان کا ساتھ دیا ہے 1999 میں جب کارگل میں پاکستان نے اپنے ٹھکانے بنانا شروع کیا تو سب سے پہلے ہندستانی فوج کو اطلاع دینے والا ایک کشمیری مسلمان ہی تھا.
مرحوم شیخ عبد اللہ نے کشمیر پر پاکستانیوں کے حملے کے خلاف جنگ کی قیادت خود کی تھی انہو نے پوری زندگی کشمیر کوہندستان کے ساتھ جوڑے رکھنے میں صرف کی.ان کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادے ڈاکٹر فارو ق عبد اللہ نے ہندستان کے کونے کونے میں جاکر یہ پیغام دیا کہ کشمیری ہندستانی ہیں اوراقوام متحدہ سمیت پوری دنیا میں یہ پیغام پہنچایا کہ پورا جموں و کشمیر ہندستان کا اٹوٹ انگ ہے.پاکستان کا اس پر کوئ حق نہیں کشمیری عوام ہندستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور ہندستان ہی کشمیریوں کا مستقبل ہے مرحوم مفتی سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی نے بھی ہندستان کے حق میں ہمیشہ رائے عامہ ہموار کیا لیکن جہاں تک کشمیری عوام کامعاملہ ہے ان کےساتھ ہمیشہ نا انصافی وزیادتی ہوتی ریی ہے. پنڈت جواہر لعل نہرو سے لیکر اندار گاندھی اور راجیو گاندھی سے ہوتے ہوئے مودی اور امیت شاہ تک حقیر سیاسی مفادات کے لئیے کشمیر کے مستقبل کو داؤ پر لگانا سب کا شیوہ رہا ہے کشمیر میں ایک عرصے سے دہشت گردی انتہا پسندی دیکھنے میں آرہی ہے اس کے کئیے بھی سابقہ مرکزی حکومتوں کی نااہلی اور سیاسی مفاد پرستی ذمہ دار ہے. رہی سہی کسر مودی اور امیت شاہ کےدورر ااقتدار میں ہوری ہوگئ .آج کشمیر ایک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں دہشت گردی شدت ،پسندی انتہابپسندی اپنےعروج پر ہے لاکھوں کی تعداد ہندستانی فوجی اور نیم فوجی دستے کے لوگ مل کر بھی اس پر قابو نہیں پاسکے ہیں.
وزہر اعظم مودی نے گزشتہ دنوں جو.میٹنگ طلب کی سیاسی تجزیہ نگاروں نے مایوسی ظاہر کی جن لوگوں نے اس میٹنگ میں شرکت کی و ہ لوگ مٹینگ کے بعد پر جوش نظر نہیں آرہے ہیں.
کشمیر ایک جیتاجاگتاوجود ہے زمینی اور قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ وہاں انسان بھی بستے ہیں ان کے جذبات واحساست کا احترام کئیے بغیر اگر کشمیر کو صرف رئیل اسٹیٹ کا ٹکڑا سمجھا گیا تو یہ مسلہ کبھی حل نہیں ہوگا .پاکستان اور چین کشمیر کی صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لئیے تیاربیھٹے ہیں بین الاوقوامی فلیٹ فارموں پر ہندستان کے خلاف پروپیگنڈہ ورہا ہے اس صورت حال سے نکلنےکا واحد ذریعہ یہ ہے کہ کشمیری عوام کو اعتماد میں لیا جائے. یہاں الیکشن ہونےوالے ہیں الیکشن سے ہہلے انتخابی حلقوں کی ازسر نو حد بندی کی جانے والی ہے ماضی جتمء نھی یوئے چند اہک کو چھوڑ کر سب کی حیثیت مشکوک رہی ہے.
اس مرتبہ یہلے ہمیشہ کے لئیے ختم ہوجانا چاہئیے
کشمیر میں تحفظ کی فضا بحال ہو وہاں کی
عوام کے حقیقی نمائند وں کو آگے اور الیکشن.میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار میں.ان کو موقع دیا جائےبہتر یہی ہو گا کہ وہا ں ایسی حکومت قائم ہو جو دہلی ہندستان کے دوستانہ تعلقات کے حامی ہوں یہ اسی وقت ممکن ہے جب الیکش کے نتائج سے چھیڑ چھیاڑ نہ کیابجائے.
عوام کو بے خوف ہوکر اپنے نماءندو ں منتخب کرنےکا اختیار دیا جائیے.
اگر خدا نخواستہ کوئ پارٹی حکومت یا اقتدارمیں آتی ہے جو دہلی کے حکمرانوں کو پسند نہ ہو تو بھی ملک وقوم کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر اس کو برداشت کیا جائے. کشمیر کے بحران کی وجہ یہ بھی ہے کہ دہلی کے حکمرانوں نے کشمیر میں اپنی پسند کی حکومت نہ ہونے پر اس کے خلاف سازچوں کا جال بن دیا .
آزادی کے ستر سال سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے بعد بھی کشمیر کا مسلہ ختم نہیں ہوا تو اس کے لئیے یہی ذہنیت ذمہ دار ہے کشمیر کے سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ مسلہء کشمیر بہت نازک ہے اس کی تاریخی اور بین الاقوامی حیثیت ہے. اس لئیے انہیں اپنی جوڑ توڑ کی سیاست سے آگے بڑھ کرکشمیریوں کے بھلائ کے بارے میں سوچنا ہوگا. اس کے بغیر مسلے کا حل ممکن نہیں.
وزیراعظم نریندر مودی اگر کشمیر کا مسلہ حل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو یہ ان کےدوراقتدار کی بہت بڑی دستیابی ہوگی اورتاریخ ایک سابق وزیراعظم کے بجائے مدبر سیاست داں کےبطور
یاد کر ےگی. دہلی میں میٹنگ میں شرکاء کے جو تاثرات سامنے آئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کی وہ بہت زیادہ پر امید نہیں ہیں لیکن پوری طرح سے مایوس بھی نہیں ہیں یہ بھی ایک سچائ یے کی پچہتر سال کا پرانا مسلہ ایک دو مٹنگوں سے حل ہونےبوالا نہیں ہے.مسلے کاحل ہونےتک بات چیت جاری رہنا چاہئیے کشمیر کو لہو لہان ہے جو اس کے زخموں پر مرہم رکھے گا کشمیری عوام اسی کے حق میں اپنا وزن ڈال دیں گے.
تاریخ وزیراعظم نریندر مودی کے فیصلے کا انتظار کر رہی ہے.
مضمون نگار: المصباح کے ایڈیٹر ہیں.
9892375177
almisbah98@gmail.com
آپ کی راۓ