نیپال میں اردو زبان کی حیثیت{مردم شماری کے تناظر میں}

عبدالمجید بھکراہوی

22 ستمبر, 2021

 

(( نیپال میں ابھی ابھی مردم شماری چل رہی ہے مسلمانوں کے ہر طبقہ نے نیپالی کو قومی زبان اور اردو کو مادری زبان کی حیثیت میں اسے لکھوانے کی اپیل کی ہے تاہم انفردی طور پر کچھ بھائیوں کو اشکال پیدا ہورہا ہے اسی لئے زیر نظر تحریر میں ایسے ہی اشکالات کو دور کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے ۔ شاید آپ کے دل میں اتر جائے !))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیپال میں اردو زبان کی حیثیت ہر مسلمان کے پہچان کے ساتھ جڑی ہوئی ھے ۔ اردو کے علاوہ کیا دوسری کوئی زبان ھے جو صرف مسلمانی کی پہچان کو ثابت کرے ؟
قومی زبان نیپالی بھی اردو ہی کی طرح ہمیں کھانا نہیں کھلاتی ھے ۔ پہلی آفسیل ھے اور ضروری ھے’ تو دوسری بھی مذہبی ھے اور ضروری ھے ۔
۲ ۔ تقریبا تیس لاکھ مسلمانوں میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جو نکاح کے بغیر شادی رچاتا ہو یا مذہبی دوسرے رسوم مولوی صاحب کے بغیر انجام دیتا ہو ۔ لہذا اردو ( عربی ) کے بغیر ہم سانس بھی نہیں لے سکتے ہیں ۔ مگر نیپالی سیکھے اور بولے بغیر بھی ہمارا پیٹ بھرتا ھے ۔
۳ ۔ فلاسفروں اور ڈاکٹروں نے کہا ھے کہ ” گود کا بچہ ایک ہی وقت میں تین زبانیں سیکھ سکتا ھے اور بول سکتا ھے ۔ اس لئے طالب علموں پر کئی زبانوں کا بوجھ بوجھ نہیں ہوسکتا ہے ۔
۴ ۔ اردو زبان پڑوسی ملک ہندوستان کی زبان ہے ۔ پرانی ہندی فلمیں پچانویں فیصد اردو میں تیار ہوتی تھیں ۔ محض تعصب کی بناپر اسے دھکیلا جارہا ہے ۔ یہ بھی ایک دلیل ہے اردو کو مسلمانوں کی زبان ہونے میں ۔ حالانکہ زبانیں ایسی تقسیم سےبالا تر ہوتی ہیں ۔
۵ ۔ مردوں کی پگڑی اور عورتوں کے برقعے یہ تو افغان طالبان کے استعمال میں ہے کیا ہم اسے بھی چھوڑدیں کیونکہ طالبان تو عالمی دہشت گردی کا ملزم ہے ؟
۶ ۔ برصغیر ! ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش نیپال اور برما تک کو کہا جاتا ہے اور ان تمام جگہوں پر اردو سمجھی اور بولی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں بھی اردو بولی جاتی ہے ۔ لہذا اتنا وسیع حلقہ رکھنے والی زبان کو کیا ہم ایسے مسترد کردیں جیسے کوئی یہ مشورہ دے رہا ہے ” آپ اپنے گھر کو آگ لگادو اور ہم تم کو بدلا میں کوئی دوسرا گھر بھی نہیں دیں گے”۔
۷ ۔ نیپال بھر کی تمام مساجد و مدارس میں اردو کا پاٹھ ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ سو فیصد مسلمان مذہب کی بنیادی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں ۔ جبکہ دوسری کوئی زبان یہ مقام نہیں پاسکتی ہے ۔
۸ ۔ پاکستان کی قومی زبان اردو کا ہمارا بولنا ہندوستان ہمارے بارے میں کیوں شک میں پڑے گا ۔ ہندوستان کے عام مدرسوں میں اور وہاں کے سرکاری مدرسوں میں بھی اردو کا غلبہ ہے ۔ بلکہ بہار میں جگرناتھ مشرا کے دور میں اسٹیٹ کی دوسری زبان اردو ہوتی تھی ۔
۹ ۔ کسی ملک کا یا اسٹیٹ کا بہانہ بنا کر کسی قوم کو تنگ کرنا اور تعصب کی آگ بھڑکانا کہیں بھی ہوسکتا ہے ۔ چاہے اپنا ملک ہو یا دوسرا ملک ۔ اور اگر ہم اسی ڈر سے اپنی زبان ، اپنی پہچان اور اپنا لباس بدلنے لگے تو ہمارے پاس کیا بچے گا ۔ بلکہ قرآن میں لکھا ہوا ہے :” کافروں کو تمہارا نام بھی پسند نہیں ہے”۔ کیا خیال ہے نام کے بارے میں ؟
۱۰ ۔ الحمد للہ نیپال بھر میں مسلمانوں کے ہر علمی حلقہ و طبقہ نے اردو کو نیپالی کے بعد اپنی زبان قبول کیا ہے اور مردم شماری میں اسے لکھانے کی سفارش کی ہے ۔ تاہم بعض اہل علم اور عصرانیت سے متاثر دوست اردو کو اس پروقار حیثیت میں برداشت نہیں کر پارہے ہیں قابل افسوس ہے !
۱۱ ۔ نیپال میں نسلی اعتبار سے دو مول کے لوگ ہیں ۔ ایک پہاڑی دوسرے مدھیشی ۔ اور یہی فرق مسلمانوں میں بھی ہے ۔ اس اعتبار سے نیپال بھر کی کل مسلم آبادی ساڑھے چار فیصد ہے ۔ جبکہ مدھیشی مسلمانوں کی الگ سے تعداد ساڑھے بارہ فیصد ہے ۔ اس لئے نیپال بھر میں اپنی پہچان کو دکھانے کے لئے اور مدرسہ کا سرکار سے الحاق وغیرہ کرانے کے لئے تمام مسلمانوں کو اردو کا لحاظ کرنا چاہئے ۔ اور اگر نہیں تو آپ دیکھیں گے مسلمانوں کی جہالت اور عدم دلچسپی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خود مدھیش میں بھی صحیح اندراج نہیں ہو پائے گا !!
از قلم : ابو ھلال
اسوج/ 6 گتے / 2078 بکرمی

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter