ہمارا بھی ایک زمانہ تھا
محمود نورزاده
پانچویں جماعت تک ھم سلیٹ پر جو بھی لکھتے تھے اسے زبان سے چاٹ کر صاف کرتے تھے ، یوں کیلشیم کو دور کرنے کی ہماری گویا پیدائشی عادت تھی
۔۔
پاس یا فیل۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں صرف یہی معلوم تھا ، کیونکہ فیصد – percentage سے ھم لا تعلق تھے
ٹیوشن شرمناک بات تھی ، کیونکہ کند ذہن بچوں کے لئے اضافی توجہ یعنی کہ ٹیوشن یہی عام طور پر رائج رہا۔
کتابوں میں پھولوں کی پنکھڑی , یا مور کا پنکھ رکھنے سے ھم ذہین، ہوشیار ھو جاینگے ، یہ ھمارا اعتقاد بھروسہ تھا
بیگ میں کتابیں سلیقہ سے رکھنا ہمارے سگھر پن اور با صلاحیت ہونے کا ثبوت تھا
ہر سال نئی جماعت کی کتابوں اور کاپیوں پر کورز -covers چڑھانا جیسی سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی
والدین ہمارے تعلیم کے تیئں زیادہ فکرمند نہ ہوا کرتے تھے ، اور نہ ہی ہماری تعلیم ان پر کوئی بوجھ تھی ، سالہاسال ہمارے والدین ہمارے اسکول کی طرف رخ بھی نہیں کیا کرتے تھے، کیونکہ ہم میں talent – ذہانت جو تھی
اسکول میں مار کھاتے ہوئے ، یا پیر کے انگوٹھے پکڑے ہوئے یا مرغا بنے کان پکڑے ہوئے ہمارے درمیاں کبھی انا -ego بیچ میں آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوا کہ سچ پوچھو تو انا کیا ہوتی ہے یہی معلوم نہ تھا
مار کھانا یہ ہمارے روزمرہ زندگی کی عام سی بات تھی، مارنے والا اور مار کھانے والا دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہ ہوا کرتی تھی
ھم اپنے والدین سے کبھی زبان سے یہ کہہ ہی نہ سکے کہ ہمیں ان سے کتنی محبت ہے کیونکہ I love you یہ کہنا تب رائج نہ تھا ، اور ہمیں معلوم بھی نہ تھا ، کیونکہ تب محبتیں زبان سے ادا نہیں کی جاتی تھیں بلکہ حقیقی ہوا کرتی تھیں، رشتوں میں بھی کوئی لگی بندھی نہیں ہوا کرتی تھی ، بلکہ وہ خلوص اور محبت سے سرشار ہوا کرتے تھے۔
سچائی یہی ھے کہ ھم ( ھم سے مراد ہماری عمر – یا زائد عمر کے سبھی افراد ) اپنی قسمت پر ہمیشہ راضی ہی رہے ، ہمارا زمانہ خوش بختی کی علامت تھا ، اسکا موازنہ آج کی زندگی سے کر ہی نہیں سکتے ۔
آپ کی راۓ