قوم مسلم کے ایک بےلوث معلّم کی داستان جسے پڑھ کر یقینا آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے ! پیش ہے ان کی زندگی کی لحظہ بہ لحظہ کچھ جھلکیاں !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاٹھمنڈو کی کسی جمعہ مسجد میں ایک مولوی تعاون کا اعلان کرتا ہے اور تیزی سے دروازے پر پہنچ کر چندے کے لئے جب جوتا چپل کے پاس وہ رومال بچھاتا ہے تو یہ منظر دیکھنے والوں کے لئے بڑا روح فرسا ہو تا ہے اور ہر کوئی بادل نخواستہ دس پچاس روپیہ اس کی جھولی میں گرادیتا ہے ۔ ان پیسوں سے مولوی صاحب مدرسہ چلاتا ہے ، یتیم پالتا ہے ، مسجدیں بناتا ہے اور اپنے اہل و عیال کی بھوک بھی دور کرتا ہے ۔۔۔۔ اسی انداز اور اسی تگ و دو میں مولوی صاحب مدرسے کی بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرلیتا ہے ۔ پرشکوہ مسجدیں بنا لیتا ہے ۔ مسلمانوں میں اتحاد اور اجتماعیت قائم کرتا ہے ۔
آئینہ دکھانے والا :
مولوی صاحب معاشرہ کے لئے اتنے مخلص ہوتے ہیں کہ معاشرہ میں اگر کوئی اخلاقی برائی پنپ رہی ہو ، زنا عام ہورہا ہو ، شراب پینے والے بڑھ رہے ہوں ، سود کا منافع مسلمان کھاتا ہو یا جہیز کی لعنت میں انسانیت کراہ رہی ہو تو آپ بےچین ہو جاتے ہیں اور اسے ختم کرنے کی طاقت بھر کوشش کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ منبر سے گرج گرج کر ان ناسوروں کی ہمیشہ خبر لیتے ہیں ۔ جس کا انجام اور نتیجہ کبھی بدتمیزی ، کبھی رسوائی اور اکثر نوکری سے ہاتھ دھونے پر ہوتا ہے ۔
محرومیءترقی :
مولوی صاحب محض پانچ سات گھنٹی پڑھاکر آزاد نہیں ہوجاتے کہ کوئی کھیتی باڑی اور ٹیوشن وغیرہ کا کام سوچیں ، انہیں سرکاری زبان بھی نہیں آتی ہے کہ کسی آفس اور تھانے کے چکروں میں کچھ کما لیں ۔ بلکہ بیچارے کی سند بھی نیپال سرکار کچڑے کا ڈھیر سمجھتی ہے ۔ جس سرکار کی وہ کبھی احتجاج والے دن بھی گالی دیتے ہیں اور نہ جلوس کی زینت بنتے ہیں ۔
بلی کا بکرا بننے والا :
دنیا کے ہر خطہ میں کوئی نیچے سے اوپر تک اگر مسلم پہچان کے ساتھ کوئی نظر آتا ہے تو یہی غریب اس ذمہ داری پر کاربند ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ اسلامو فوبیا کے ذریعے الزامات مسلمانی کا درد بھی یہی جھیلتا ہے ۔ 1919 ء میں روس کے کمیونسٹ انقلاب میں سب سے زیادہ اور سب سے پہلے بلی کا بکرا بننے والے یہی مولوی تھے ۔ ان کے درد و کرب کی مزید تاریخ دیکھنی ہوتو مصنف; ثروت صولت; کی کتاب ” روس میں مسلمان قومیں” ضرور پڑھیں ۔
الزامات کے گھیرے میں :
محاورہ ہے ” نزلہ ہمیشہ کمزور عضو ناک پر گرتا ہے” یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ مسکین سربراہ ہر تیر و نشتر کو جھیلتا ہے جو عوام کے طرف سے ہو یا انتظامیہ کی کارفرمائی سے’ دو پاٹوں کے بیچ اسے ہی پسنا ہوتا ہے ۔ بلکہ گاؤں کی چائے دکان ہو یا لڑکوں کی بےہنگم مجلس’ ہر جگہ موضوع سخن مولوی صاحب ہوتے ہیں ۔ ہر ناکامی کا ٹھیکرا مولوی صاحب کے سر پھوڑا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود وہ سبھی ہفوات و بکواس کو خندہ پیشانی سے لیتے اور دوسروں کی ناکامی بھی اپنے کھاتہ میں لکھا لیتے ہیں ۔ یہ ہوتا ہے حوصلہ اور ایسے ہوتے ہیں حقیقی سربراہ !
مولوی کی حیثیت :
مولوی صاحب کے آںگن و گھر کا جائزہ لیں تو’ مٹی کے فرش ، ٹوٹی چٹائی ، کھری چارپائی ، المونیم کے بدھنے ، اسٹیل کی پلیٹیں ، پھوس کے گھر اور انواع و اقسام کے کھانوں و زرق برق کپڑوں سے محروم ان کے بچے ہوتے ہیں ۔ مگر بلا ناغہ تلاوت کی گونج اٹھتی وہیں سے ہے ، آج کے بڑے بڑے لوگ دعا کرانے اور مایوسی کا علاج بھی تلاشنے وہیں پہنچتے ہیں ۔ یہی ہے مولوی کی حیثیت !
مولوی کی معیار زندگی :
جو شخص ناپا ہوا چاول اور پِلوا والا بھات بچپن سے ہی کھایا ہو اس کی آگے کی تمنا ہی کیا ہوگی جو وہ عصرانیت کا پرستار اور اس کا دلدادہ ہو ، ترقی کا طلب گار اور جھوٹی انا کا قائل ہو ۔۔ ایسا شخص کاٹھمنڈو کی سڑکوں اور جدید فیشن کے ام القری میں’ ایک سفید کرتا اور ایک سفید تہہ بند میں اپنی شان بےنیازی کے ساتھ چلتا ہے تو کہنے والا برجستہ کہتا ھے” شیخ ! آپ تو اس اجنبی سرزمین میں سراپا دعوت اور اسلامی اقدار کی کھلی علامت ہو”۔
قوم کی آنکھ کا تارا :
مسلمانوں کا یہی سوکھی زندگی جینے والا طبقہ اس کی مجلس کا صدر ، تمام مقتدیوں کا امام ، جملہ پروگراموں کا خطیب اور سبھی جلسوں کی صدارت کا اہل ہوتا ہے ۔ بلکہ قومی کسی اثاثے کی حفاظت اور کسی بڑے فنڈ کو سلیقہ دینے والا بھی اسے ہی موضوع سمجھا جاتا ہے اور انہیں ہی اپنے سر آنکھوں پر سبھی بٹھاتے ہیں ۔
آخری سفر
لیکن ! موصوف کی جب موت آتی ہے تو ان کے بچے کرایہ کے مکان کو الوداع کہہ کر واپس اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں ۔ ان کی بیٹی کی شادی بےسروسامانی میں کسی غریب سے ہوتی ہے اور بیوی کا گزر بسر سلائی مشین وغیرہ سے چلتا ہے ۔ نہ پینشن ، نہ سنچے کوش اور نہ ادارہ سے کبھی کوئی خصوصی تعاون !
اس کے باوجود کوئی شکایت ، کوئی گلہ ، کوئی احتجاج اور کوئی شورش بپا کبھی نہیں کی جاتی ھے ۔۔۔ سوال یہ ھے کہ مسلمانوں میں قوم کا اصل ہیرو کون ھے ؟ اس کا غمخوار کون ھے ؟ اس پر جان نچھاور کرنے والا کون ھے ؟
از قلم : ابو ھلال
آپ کی راۓ