گلاسکو میں موسمیاتی تبدیلی کے متعلق سربراہی اجلاس اور نتائج
ڈاکٹر محمد اورنگ زیب التیمی
سکاٹ لینڈ کے ایک معروف شھر :گلاسکو : میں "موسمیاتی تبدیلی اور عالمی دنیا پر اس کے سنگین نتائج “ کے موضوع پر یکم نومبر 2021 سے شروع ہونے والی کانفرنس -جس میں تقریباً ۲۰۰ سے زائد ممالک کے سربراہان حصہ لے رہے ہیں- سے متعلق اخبار” The Guardian Newspaper” میں چھپے ہوئے ایک اداریے کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
*گلاسکو میں موسمیاتی تبدیلی کے سربراہی اجلاس اور اس سےبرآمد نتائج کو عملی جامہ پہنانا بے حد ضروری- (دی گارجین، یکم نومبر 2021)*
*ہم اپنے دورے کا آغاز گارجین اخبار سے کرتے ہیں، جس نے اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس پر ایک اداریہ لکھا، جو گلاسکو، سکاٹ لینڈ میں منعقد ہو رہی ہے۔*
*”اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس: الفاظ کو زبان کی سطح سے نیچے اتار کر عملی قالب میں ڈھالنا چاہئے”*
*مذکورہ عنوان کے تحت اخبار نے لکھا ہے کہ پیرس موسمیاتی معاہدے پر دستخط کے تقریباً 6 سال بعد جب فرانسیسی میزبانوں نے ایک شق پر اصرار کیا جس میں ممالک کو ان کے کیے گئےوعدوں کو عمل میں لانے کا پابند بنایا گیا، اور وہ وعدہ یہ تھا “ ہم سارے ممالک ایک ساتھ سر جوڑ کر عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کریں گے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے ،کہ یہ پیرس کانفرنس کی صدارت کرنے والے فرانس کے سابق وزیر خارجہ “لارینٹ فابیوس “کے مطابق، گلاسکو کانفرنس "ورک کانفرنس ہے جس میں ہم سب پیرس معاہدے کو دوبارہ زندہ کرنے اور اسے عملی طور پر تطبیق دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور اسے نافذ العمل بنائیں گے”۔*
*یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پیرس کانفرنس میں شریک ممالک نے صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں گلوبل وارمنگ کو دو ڈگری سیلسیس سے نیچے رکھنے کا عہد کیا تھا،جو اس وقت بڑھ کر 1.5°C کی حد تک پہنچ گئی ہے، اس لیے ممالک کو 2020 میں اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تازہ ترین منصوبے تیار کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔*
*بورس جانسن نے اعتراف کیا ہے کہ گلاسکو کے اس کانفرنس میں گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد تک لانے کے لیے باضابطہ کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے،لیکن اگر اس مقصد کے لیے راستہ کھلا نہ رکھا گیا تو عالمی رہنما جان بوجھ کر کرہ ارض کو ماحولیاتی تباہی کی طرف سفر پر گامزن کردیں گے۔*
*اس سال کے انتہائی موسمی واقعات – خوفناک گرمی کی لہریں، جنگل کی آگ اور کثرت سیلاب جس نے دنیا بھر میں سرخیاں بنائی ہیں – اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے تباہ کن نتائج توقعات سے زیادہ تیزی سے اور بڑے پیمانے پر رونما ہو رہے ہیں”۔*
*”آج دنیا صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.1-1.2 ڈگری سیلسیس زیادہ گرم ہے۔ 1.5 ڈگری سیلسیس سے زیادہ گرمی، زیادہ تباہ کن خشک سالی اور فصلوں کی ناکامی کا باعث بنے گی۔ اس سے زیادہ قحط اور اس سےماحولیاتی نظام کے تباہ ہونے کے امکانات بڑی حد تک بڑھ جائیں گے،”.*
*اخبار نے ممالک کی طرف سے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اٹھائے گئے کچھ حقیقی اقدامات کا تذکرہ بھی کیا ہے، جن میں امریکی صدر جو بائیڈن کا موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کا منصوبہ، جس کی مالیت تقریباً 555 بلین ڈالر ہے، چین کا بیرون ملک کوئلے سے چلنے والے منصوبوں کی مالی اعانت روکنے کا عہد، اور اس کا عزم ہے نیز 2060 تک خالص صفر اخراج، ساتھ ہی صنعتی اخراج پر نئی قانون سازی کے لیے یورپی یونین کی تجویز، جس کا مقصد انہیں 2030 تک 1990 کی سطح سے کم کرکے 55 فیصد تک لانے کا حتمی عزم کا اظہار ہے۔*
*اخبار نے مزید کہا، "یہ حرکتیں دیر سے ہی سہی البتہ احساس کی عکاسی کرتی ہیں، لیکن مجموعی اخراج میں کمی کے درمیان ممالک کی تجویز کردہ اور درحقیقت جس سطح کی ضرورت ہے، کے درمیان فرق کو ختم کرنے کی دوڑ میں وقت ختم ہو تا جارہا ہے۔”*
*اخبار کے مطابق، 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے، 2030 تک عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو تقریباً نصف کر دینا ہوگا۔*
*روس اور ہندوستان جیسے ممالک کو بھی اس سلسلے میں خالص صفر اخراج کے مہم کا مضبوط حصہ بننا ہوگا اور تخفیف عمل کا عہد کرنا ہوگا۔*
*اخبار نے توقع ظاہر کیا ہے کہ گلاسکو کانفرنس پیرس کانفرنس کی طرح کوئی پیش رفت حاصل نہیں کرے گی، اور اشارہ دیا کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، جن کا ملک اس کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے، ممالک کے لیے مزید اقدامات کرنے کے ڈھول بج رہے ہیں جبکہ ان کی حکومت شمالی سمندر میں آئل فیلڈز کے لیے نئے لائسنس دینے میں آگے بڑھ رہی ہے۔*
*دی گارجین نے اپنے اداریے کا اختتام گلاسکو سربراہی اجلاس سے قبل جاری ہونے والے اقوام متحدہ کے بیان کے ساتھ کیا، جس میں کہا گیا تھا، "آٹھ سال (ہم سے پہلے) منصوبے اور پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے اور آخر کار گرین ہاؤس گیسوں میں غیر معمولی کٹوتیوں کو حاصل کرنے کے لیے۔ گھڑی بڑی بے صبری سے اپنے آنے والے وقت کا انتظار کررہی ہے۔”*
آپ کی راۓ