آئندہ سال کی ابتدء میں چار ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونےو الے ہیں ـ لیکن سب سے زیادہ شور 😀 میڈیا میں عوام میں یوپی انتخابات ہیں ـ بی جے پی کے لئے یہ انتخابات بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں اگر اس میں کامیابی مل گئ تو دوہزارچوبیس 24 20 کا الیکشن جیتنا آسان ہوجائےگا لیکن اس کے ساتھ بی بی جے پی کے لئیے یہ الیکشن جیتنا بہت زیادہ مشکل بھی ثابت ہورہا ہے. گزشتہ تقریبا ایک سال سے غیر اعلانیہ انتخابی مہم جاری ہے اخبارات کو بڑے بڑے اشتہارات دئے جارہے ہیں
فرضی بتا کر کام جو ہوئے نہیں انہیں دوسرے ملکوں کی تصویریں پل ندی نالے روڈ دکھائے گئے ہیں ـ
پورے یوپی میں اور یوپی سے زیادہ دلی میں جگہ جگہ یوگی کے بینر س پوسٹر س اور ہوڈنگ لگی ہوئ ہے. یوگی اس کونے سے اس کونے تک دورہ کر رہے ہیں ـ مودی امیت شاہ آر. ایس ـ ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور بی جے پی وآرـایس ـایس کے رہنما مسلسل دورے کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا یے کی یوپی چناؤ کتنی اہمیت کے حامل ہیں. بی جے پی کی عزت داؤ پر لگی ہوئ ہے ـ وہ ہندو مسلم میں منافرت کی فضاء قائم کر کے الیکشن جیتنا چاہتی ہے.ـ اس کے سوا ان کے پاس کوئ تعمیراتی وترقیاتی منصوبہ ہے ہی نہیں ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑ کا کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں ـ اتر پردیش آج جہنم کدہ بن گیا ہے خوف ودیشت کا ماحول بنا دیا گیا ہے. عوام نفسیاتی خوف میں مبتلاء ہیں یوگی حکومت سے مسکمان ہندو سب پریشان ہیں ـ بی جے پی کو اس مرتبہ خلاف توقع بہت زوردار ٹکر مل رہی ہے ـ اکھلیش یادو اجیت سنگھ کی پارٹی کے ساتھ مل کر اور چھوٹی چھوئ مقامی پارٹیوں کو لیکر چناؤ کے میدان میں اترے ہیں ـ ان کی ریلیوں کی بے پناہ مقبولیت ہے یوگی کی ہی نہیں مودی امیت شاہ کی نید حرام ہوگئ ہے.
یوگی حکومت گزشتہ پانچ سالوں میں تقریبا ہر مورچے پر ناکام رہی ہے. ہزاروں کی تعداد میں فرضی انکاؤنٹروں کے باوجود لا اینڈ آرڈر کی صورت حال انتہائ خستہ ہے چوری ڈکیتی سے لیکر عصمت دری کےواقعات تسلسل وتواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں. اناؤ اور ہاتھرس کے آبرو ریزی کی وارداتوں نے یوگی حکومت کو کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا ہے.
تعمیروترقی کے کام سب ٹھپ پڑے ہوئے ہیں ـ بے روزگاروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے ـ کورونا کی وبا کی پہلی اور دوسری لہر دونوں میں یوگی حکومت نااہل ناکارہ اور نکمی ثابت ہوئ ہے نہ پیدل چلنے والوں کو گھر پر پہنچانے کا کوئ انتظام تھا نہ اسپتال میں مریضوں کا کوئ پرسان حال تھا نہ کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کا بندو بست نہیں ہو پایا تھا ـ گنگا میں تیرتی ہوئ لاشوں کا ہیبت ناک منظر پوری دنیا کی میڈیا میں چھایا رہاـ
یوگی کا صرف ایک کارنامہ ہے انہوں نے اپنےدور اقتدار میں فرقہ پرستی کو بھر پور طریقے سے فروغ دیا
مسلمانوں کی دل آزاری کا کوئ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا. مسلمانوں کی تہذیبی یادگاروں کے ساتھ چھیڑ چھیڑ کیا یہاں تک کی مافیاؤ ں کے خلاف کاروائ کو بھی انہوں نے ہندو مسلم رنگ دے دیاـ اور اتبے زیریلے بیانات دئے قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ـ ماب لنچگ میں ایک ہی فرقہ کے لوگوں کو ناشانہ بنایا گیا معصوم بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن آج تک مجرموں کو گرفتار کیا گیا نہ انہیں سزا ہوئ بلکہ یوگی کے لوگوں نے ایسے مجرموں کی پشت پناہی کی اور ان کے راستے میں پھول برسائے اور ان کو اسٹیج پر بلا کر اعزازات دئے گئے.
یہ کون سا مذہبی جنون ہے کی قاتلوں زانیوں اور مجرموں کی ہمت افزائ کی جاتی ہے ـ
یوگی کی ساری امیدیں صرف فرقہ وارانہ منافرت پر ٹکی ہوئ ہیں ـ
ایسے حالات میں مسلمان کیا کریں ؟ مسلمانوں کو بہت زیادہ ہوشمندی اور دانشمندی سے کام لینا ہوگا اگر ایماندارانہ انتخاب (مقابلہ) ہو تو بی جے پی کبھی نہیں جیت سکتی. بی جے پی نے ایک دہراہتھکنڈہ اپنایا ہے کچھ مسلمانوں جیسی نام رکھنےوالی پارٹیوں اورافراد کو اورکچھ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹو ں کی تقسیم کے لئے میدان میں اتارا ہے. یہی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اور نام نہاد مسلم وسیکولر رہنما مسلمانوں کے ووٹو ں کو تقسیم کر کے اور جذبات بھڑ کا کر بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کریں گےـ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئیے کہ یوگی کی حکومت انتہائ غیر مقبول حکومتوں میں سے ایک ہے خود بی جے پی کے اندر یوگی سے انتہا درجے کی نفرت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے خود مودی اور امیت شاہ یوگی کو بلکل پسند نہیں کرتے ہیں ـ سیاسی مجبوریوں نے ان کو یوگی کے ساتھ کھڑا کردیا ہے. اگر سیکولر طاقتیں دیانت داری کے ساتھ ذاتی مفادات اور انا سے بالا تر ہو کرعوام کے درمیان جائیں اور مسلمان اپنےووٹو ں کا دانشمبدی سے استعلمال کریں تو مودی امیت شاہ اور یوگی ناقابل شکست نہیں ہیں. دوہزار چوبیس 2024 میں اگر مودی کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنا ہےتو دوہزار بائیس 2022 کے ریاستی الیکشن میں یوگی کو شکست دینا ہوگی مسلمانوں کو اورتمام سیکولر پارٹیوں کو نوشتہء دیوار پڑھ لینا چاہئیے ـ
مضمون نگار: ماہنامہ المصباح ممبئ کے ایڈیٹر ہیں
آپ کی راۓ