جھنڈا نگر / کئیر خبر
جھنڈا نگر کے مشہور ڈرائیور عتیق الرحمن کے فرزند مولوی عزیز الرحمن سراجی کی جوان العمری میں ١٢ فروری کو لکھنؤ کے ایک اسپتال میں دوران علاج وفات ہوگئی وہ طویل عرصہ سے علیل تھے- نہ صرف ان کے اہل خانہ اور قریبی اعزہ کے لیے باعث رنج ومحن ہے بلکہ کرشنا نگر بڑھنی اور علاقہ کے مسلمانوں کے لیے باعث افسوس وتکلیف ہے، ایک ایسے شخص کی وفات کی خبر جس نے اپنی زندگی کی ٣٤ بہاریں ھی دیکھی تھیں سب کے لیے جگر خراش ہے،
مولوی عزیز الرحمن جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے فارغین میں سے تھے،انھوں نے قطر میں ملازمت اختیار کر کے اپنے والد کا بوجھ ہلکا کیا پھر وہاں کچھ مسائل پیدا ہونے کے بعد دبئی میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے،وہیں پر کچھ عرصہ قبل ان کی طبیعت بگڑی اور ایک جان لیوا اور سنگین بیماری کا انکشاف ہوا،کچھ دنوں تک وہیں کے اسپتال میں ان کا علاج ہوتا رہا پھر وطن واپس آنے پر مجبور ہونا پڑا ،یہاں ان کے والد اور بھائ مجیب الرحمٰن نے ان کے علاج میں اپنی طاقت سے بڑھ کر محنت کی،خطیر رقوم کے مصارف ہوئے،پہلے نیپال کے بھرت پور کے اسپتال میں داخل کیا اس کے بعد افاقہ نہ ہونے پر لکھنؤ کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں ایڈ میٹ کرایا اسی دوران دو بار دلی کے ایمس میں بھی چیک اپ کرایا اور وقتی طور پر وہاں بھرتی کیا،ایک بڑے آپریشن اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کی تیاری ہو رہی تھی جس میں خطیر مصارف کا تخمینہ تھا ،دوا وعلاج سے حالت وقتی طور پر کچھ سنبھل گئی تھی اور اعزہ کے دلوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی تھی کہ وقتِ موعود آپہونچا اور وہ سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر داغ مفارقت دے گئے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون،
عزیز الرحمن ایک سنجیدہ ومہذب اورباادب نوجوان تھے،علماء کے قدردان اور ان کا احترام کرنے والے تھے ان کے والد عتیق الرحمن بھی بہت خدمت گزار ہیں خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری رحمہ اللہ کے بہت معتمد تھے اور ان کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے،
مورخہ ١٣ فروری کو بعد نماز ظہر جھنڈا نگر کے قبرستان میں نم آنکھوں سے انھیں سپرد خاک کردیا گیا- نماز جنازہ مولانا شمیم احمد ندوی نے پڑھائی- علاقہ و قرب و جوار کے لوگ بڑی تعداد میں شریک جنازہ تھے-
اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه واكرم نزله ووسع مدخله وادخله جنة الفردوس،
آپ کی راۓ